آئے دن بھارت میں کبھی گائے کے نام پر تو کبھی لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو تشد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں اتراکھنڈ کے تفریحی مقام نینی تال میں پیش آیا جسے ایک سکھ سب انسپکٹر گگن دیپ سنگھ نے ناکام بنا دیا۔ وہ مسلمان نوجوان کو بچانے کیلئے ہندو انتہا پسند ہجوم کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک مسلمان نوجوان اپنی ایک ہندو دوست کے ساتھ اترکھنڈ، نینی تال رام نگر کے گاؤں گریجا میں واقع ایک مندر پہنچا جہاں انہیں انتہا پسند ہندو تنظیم کے جنونیوں نے شک کی بنا پر گھیر لیا۔ ہجوم نے اس مسلمان نوجوان سے شناختی کارڈ دکھانے کو کہا۔ اور جب انہیں شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد پتا چلا کہ یہ مسلمان ہے تو وہ تشدد پر اتر آئے کیونکہ اس کا گناہ صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے اپنی ایک ہندو دوست کے ساتھ سیر پر نکلا تھا۔ اس ہجوم میں انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد اور اور اسکے یوتھ ونگ بجرنگ دل کے جوان شامل تھے۔ لیکن سب انسپکٹر گگن دیپ سنگھ نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے نوجوان کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
اور جب گگن دیپ سنگھ کی ہمت و بہادری کی وجہ سے مشتعل ہجوم مسلمان نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنانے میں ناکام رہا تو اس نے پولیس مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔
اس سارے واقعے کے بارے میں گگن دیپ سنگھ کہتے ہیں’’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ اتفاق تھا یا اس نوجوان کی خوش قسمتی، لیکن اس دن گرجیا مندر کے چوکی انچارج چھٹی پر چلے گئے تھے، اس لیے مجھے ان کی غیر موجودگی میں وہاں بھیج دیا گیا۔ میں مندر کے گیٹ پر تھا، اس دن وہاں بہت زیادہ بھیڑ تھی، اور ہجوم کو نوجوان کی مندر میں موجودگی پر اعتراض تھا، نوجوان مسلمان تھا اور ایک ہندو لڑکی کے ساتھ وہاں موجود تھا، چونکہ گرجیا مندر کی جگہ خوبصورت اور دریا کنارے ہے جہاں جوڑے گھومنے آتے ہیں اس لیے یہ دونوں وہاں مندر کے احاطے میں گھوم پھر رہے تھے۔
میں ڈیوٹی پر کھڑا ہی تھا کہ اتنے میں اچانک نہر کے کنارے سے کافی شور شرابے کی آوازیں آنے لگی، میں نے دوڑ کر دیکھا کہ وہاں ایک ہجوم جمع ہے اور کچھ لوگ ایک لڑکے کے ساتھ مار پیٹ کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی موجود ہے۔ اور لڑکا انہیں لڑکی کو ہاتھ لگانے سے منع کررہا ہے۔ میں نے اپنی ساتھی خاتون پولیس سے کہا کہ وہ اس لڑکی کو محفوظ مقام پر لے جائے، میں بڑی مشکل سے لڑکے کو بھیڑ کے ہاتھوں سے نکال پایا میں نے بھیڑ سے چیخ چیخ کر کہا کہ کوئی اس لڑکے کو ہاتھ نہ لگائے۔
میں نوجوان کو ہجوم سے بچاتے وقت بالکل بھی خوفزدہ نہیں تھا، مجھے بس نوجوان کے تحفظ کی فکر تھی، کیونکہ کسی کے پاس کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس پر تشدد کرتا، اور تب وہ لڑکا میرے سینے سے ایسے چمٹ گیا جس طرح کوئی بچہ اپنی ماں سے چمٹ جاتا ہے۔ اگر اسے کچھ ہو جاتا تو میں خدا کو کیا منہ دکھاتا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ مسلمان تھا ، ہندو تھا ، سکھ تھا یا عیسائی تھا، لیکن وہاں موجود بھیڑ یہ کہہ کر ضرور چلا رہی تھی کہ یہ مسلمان ہے ، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اور یہی وجہ تھی کہ بھیڑ سے خوفزدہ ہوکر وہ معصوم مجھ سے ایسا چمٹا ہوا تھا، جیسے وہ میرے اندر سما جانا چاہتا تھا، وہ بہت بری طرح لرز رہا تھا،
اس سے قبل میں نے کبھی کسی کے چہرے پر اتنی دہشت نہیں دیکھی، جتنی اس لڑکے کے چہرے پر موجود تھی۔ گرجیا مندر پر سینکڑوں جوڑے ہر روز سیرو تفریح کرنے کے لئے آتے ہیں، لیکن ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ میں پولیس میں ہوں میرا فرض حفاظت کرنا ہے، میں نے طے کر لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے میں اسے بچاؤں گا۔ اگر میں وردی میں نہ بھی ہوتا تو تب بھی میں یہی کرتا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اس لیے میرا پہلا مقصد یہی تھا کہ اس نوجوان کو ہجوم سے بچانا ہے۔
اب جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر میں بے بس ہوجاتا تو اس لڑکے کا کیا ہوتا؟ اور یہ سوچ کر بھی میرا دل بہت بری طرح دہل جاتا ہے۔ بہرحال اسوقت میں نے پورا زور لگا دیا تھا میرے خلاف وہاں نعرے بازی بھی ہونے لگی لیکن کچھ دیر کی جدوجہد کے بعد پولیس ٹیم موقع پر پہنچ گئی اور ہم نے اس لڑکے کو محفوظ نکال لیا۔ تب کہیں جاکر میرے دل کو سکون ملا، اب میں رب کے سامنے مسکرا سکتا تھا۔
اٹھائیس سالہ گگن دیپ سنگھ جسپور اودھم سنگھ نگر کے رہائشی ہیں، جب وہ پانچ سال کے تھے تو انکے والد کا سایہ انکے سر سے اٹھ گیا۔ اور تب ان کے چچا نے ان کی پرورش اپنے بیٹے جیسے کی۔ اجکل وہ امریکہ میں رہتے ہیں۔ گگن دیپ کے علاوہ ان کے خاندان میں ان کی ماں اور ایک بہن ہے جس کی شادی 6 مہینے قبل کینیڈا میں ہوئی ہے۔ اور انہوں نے ہی سب سے پہلے گگن دیپ کے نوجوان کو بچانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ویڈیو ہندوستان میں بعد میں مقبول ہوئی، کینیڈا میں پہلے ہی وائرل ہو گئی۔
گگن دیپ کہتے ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ ویڈیو کس نے ریکارڈ کی اور میری بہن تک کیسے پہنچ گئی۔ یہ 22 مئی کا واقعہ ہے، میں 25 مئی کو بینک گیا تو وہاں کا اسٹاف میرے ساتھ سیلفی لینے لگا، مجھے تو اس وقت معلوم ہوا کہ میری ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
گگن دیپ کی ابھی شادی تو نہیں ہوئی لیکن البتہ منگنی ضرور ہوئی ہے اور اسی لیے گگن دیپ کے ہونے والے سسرال میں ان کی بہادری پر خوب جشن منایا جا رہا ہے اور یہ واقعہ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انکی بہادری خوب زیر بحث ہے۔ گگن دیپ سنگھ 2015 میں سب انسپکٹر بنے ان کے بیچ میٹ اور دوست سوربھ تیاگی کہتے ہیں، ہمارے ’’بھائی نے ہماری بھی چھاتی چوڑی کر دی اور محکمہ پولیس کو اس پر فخر ہے۔
‘‘سوربھ کے مطابق گگن دیپ ایک ہنس مکھ اور زندہ دل انسان ہیں۔ رام نگر تھانے میں اس واقعہ کے بعد سے خوشی کا ماحول ہے۔ یہاں کے کوتوال وکرم سنگھ راٹھور کہتے ہیں، ’’لڑکے نے اچھا کام کیا ہے، وہ شریف ہے، دنیا کو اب پتہ چل گیا ہوگا کہ پولیس میں اچھی سوچ والے لوگ موجود ہیں۔ ہمارا پورا اسٹاف خوش ہے، دنیا بھر سے مبارکباد کے پیغامات مل رہے ہیں، ایس ایس پی نے گگن دیپ کو انعام بھی دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ ‘‘وکرم سنگھ کہتے ہیں، ’’گگن دیپ سنگھ کو ملک بھر سے کال آ رہی ہیں، وہ جہاں بھی جاتا ہے مجمع لگ جاتا ہے، نوجوان اس کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں، اور اسی لیے میں نے گگن دیپ کو سمجھایا ہے کہ اتنی تعریف کے باوجود پیر زمین پر ہی رکھنا ہوگا، ہوا میں نہیں اڑنا۔‘‘
بعد میں گگن دیپ سنگھ نے ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’میں کبھی تبدیل نہیں ہونگا، جیسا ہوں ویسا ہی رہوں گا، کیونکہ مجھے بے شمار لوگوں نے سراہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں محبت، بھائی چارے کے حامی زیادہ ہیں اور نفرت کے کم۔ میرے اوپر اب مزید دباؤ بڑھ گیا ہے اب مجھے مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیوں کہ لوگوں میں میری جو شناخت بنی ہے اسے میں نے بنائے رکھنا ہے۔
مظفر نگر اور میرٹھ ضلع کی سرحد پر واقع رام راج گرودوارہ کمیٹی کے سربراہ گرشرن سنگھ نے ’قومی آواز‘ کو بتایا، ’’میرے پاس کینیڈا سے واٹس ایپ پر میسیج آیا کہ ہندوستان میں ایک سردار نے ہمیں فخر سے بھر دیا ہے، میں نے اپنے بھتیجے سے پوچھا تو اس نے مجھے پورا واقعہ بیان کیا۔ گگن دیپ سنگھ نے انسانیت کے نام جو کیا ہے اس سے سکھ سماج کا سر اونچا ہو گیا ہے۔ ہم اسے گرودوارہ میں بلاکر اس کو اعزاز سے نوازیں گے۔‘‘
رام نگر میں ایس ڈی ایم کے عہدے پر فائز اور حال ہی میں یو پی ایس سی امتحان میں کامیاب ہونے والی بشری انصاری کے والد انیس انصاری کہتے ہیں کہ ’’ایمانداری سے فرض ادا کرنا انسان کی عظمت کو نمایاں کرتا ہے، ہمیں گگن دیپ پر ناز ہے۔ ‘‘پنجاب کے کئی ارکان پارلیمنٹ سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں نے گگن دیپ سنگھ کی ویڈیو شیئر کی ہے۔ یو پی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو بھی اس ویڈیو کو شیئر کر چکے ہیں۔
سکھوں کے ایک اہم رہنما اور ریٹائرڈ میجر جوگیندر سنگھ بانکورہ کہتے ہیں، ’’ملک میں آج عجیب طرح کی نفرت کا ماحول ہے، ایسے حالات میں ملک کو انسانیت کی ضرورت ہے۔ ملک موب لنچنگ کے واقعات سے شرمسار ہو رہا ہے، سیاست دانوں نے نوجوان نسل کے ذہنوں میں نفرت کا زہر بھر دیا ہے، امید ہے کہ گگن دیپ سنگھ سے لوگ عبرت حاصل کریں گے۔
آخر میں بڑی حسرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کاش ہمارے یہاں ایک آدھ ایسا پولیس والا ہوتا تو آج مشال خان ہمارے ساتھ ہوتے اور انتہا پسندوں کے ہجوم کی درندگی کا نشانہ نہیں بنتے کیونکہ مشال خان کو پولیس کے سامنے شہید کردیا گیا تھا لیکن پولیس کچھ نہیں کرسکی تھی۔ گگن دیپ سنگھ جیسے بہادر انسان دوست لوگوں کے بارے میں قران پاک میں اللہ تعالی نے مبارک ارشاد فرمایا ہے۔
جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی, گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ (القران سورہ مائدہ)
Facebook Comments
ہم گگن دیپ سنگھ کے جذبہ انسانیت کو ہزار بار سراہتے ہیں. ہمارا ملک ایسے افراد کی قربانیوں سے سر بلند ہوتاہرہاے ااور صبح قیامت تک ہوتا رہیگا. فرقہ پرست قوتیں چاہے جتنی طاقت صرف کرلیں لیکن بھارت کی مٹی کی حقیقی تاثیر کو نہ بدل سکتے ہیں نہ مٹاسکتے ہیں.
نیر عرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے -میرا وطن وہی ہے. سید محمد ظفر امام قادری سومیشور. الموڑہ.