سوت نہ کپاس۔۔ناصر خان ناصر

تنقید لکھنے والے بھی تو ایسے ایسے پاپڑ بیچتے ہیں، وہ بھی تھوک کے بھاؤ  اور تھوک میں تلے ہوئے۔۔۔ کہ توبہ ہی بھلی۔
چوہا لنڈورا ہی بھلا۔
اس سے بھلے تو انسان پانی کا گلاس توڑ کر ریستوران سے ہی اٹھ جائے یا بیگم کی بے جا تنقید سن کر جہان سے اٹھ جانے کی ترکیبوں پر غور کرنے لگے اور چوڑیاں توڑ کر سر میں خاک ڈالتی کے تصور سے ہی اپنے سینے میں ٹھنڈک ڈالنے کی سعی کر لے۔
بیگم اگر سفید براق لباس میں مزید نورانی لگی تو پھر اپنا نیلا تھوتھا کھا کر مرنا بھی بیکار گیا۔ کاش اس سے بھلے بھاڑ میں چنے ہی بھون لیے ہوتے۔
تنقید پر تنقید ہی ہو سکتی ہے، ترصیع نہیں لکھی جا سکتی۔ اس مندر میں لاکھ ماتھا رگڑ کر جبہہ سائی  کیجیے، کوک کروں تو جگ ہنسے، چپکے لاگے گھاؤ۔ یہاں تو چھری بھلی نہ کٹاری، تنقید والے ہر گائے، بیل بکری کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں، لاٹھی اٹھاتے نر مادہ بھی نہیں دیکھتے۔ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کہتے “کٹا بھی چو دیتے ہیں”۔ ججمان چاہے سورگ کو جائے، چاہے نرک کو، مجھے دہی پوری سے کام۔ تنقید کے بازار میں کبھی “خیرات کے ٹکڑے اور بازار میں ڈکار” لی جاتی ہے۔ پرانے ولایتی مردے اکھیڑ کر ان کے فرمودات میں نئی  روح یوں پھونکی جاتی ہے کہ دست خود، دہان خود کی مثل زندہ ہو جائے۔ کبھی بھیڑ چال میں جدھر رب ادھر سب۔۔
تنقید کی تو اصلاحات، وکیبلری ہی اتنی بھاری بھرکم ہے، جیسے بارہ من کی دھوبن۔
دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا، ہووے ستیاناس موئے جاٹ تیری کھاٹ کا۔۔۔
ڈومنی کا پوت چپنی بجائے، اپنی ذات آپ ہی بتائے۔ ان پیاروں کی توسن کلک ہی کالک ہوتی ہے جو اپنے منہ پر لگی ہو تو نظر نہیں آتی۔
ہم ریاضی اور فلسفے کو دنیا کا خشک ترین مضمون سمجھتے تھے، تنقید پڑھ کر چودہ طبق روشن ہو گئے تو بے حد مسرت ہوئی ۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم نے ریاضی ہی پڑھ لی۔
پڑھے فارسی بیچیں تیل مصداق تنقید کے عطر پھلیل نہ لگائے۔ نیاز فتح پوری کی اطلسی فقرہ طرازی، ابوالکلام کی جھومتی جھامتی کچ دامنی نثر کی چھاپ لی تو کون سا پہاڑ ٹوٹے؟
تلے ٹانگ اوپر مانگ۔۔۔
تنقید میں کرہیہ دقیانوسی تھوکا بنا کراہ اب تلک چاٹا جاتا ہے، جدید تھیوریاں بھی سو برس سے کیا ہی نئی  ہوویں گی۔۔۔
باز آئے ہم ایسے سلوک سے
شومئی  قسمت صبو سویرے اگر کہیں غلطی سے تنقید پڑھ لی جاوے تو سارا دن قبض رہتا ہے۔
تنقید کرنا، سننا اور سنانا ساس بہو کے درمیان ہی بھلا لگتا ہے، پھلجھڑیاں چھوڑی جاتی ہیں، دل کے پھپھولے پھوٹے پڑتے ہیں، کہیں بال کی کھال اتار دی، کبھو تیا پائچا ایک کر دیا۔ آسمان پر تھگلی لگا دی، ولندیزی لقمے چلے جا رہے ہیں، گل فشانیاں فرمائی  جاتی ہیں۔ لسان و زبان کے باغ و بہار پہ ایسی بہاریں چھم چھم اپنے پری چھم چھنکاتے، اتراتی ہوئی  آترتی ہیں کہ وباید و شاید۔
سوت نہ کپاس، کولہی سے لٹھم لٹھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply