فکر کا سفر (77)۔۔وہاراامباکر

آج ہم کائنات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ بیسویں صدی میں ہم ہر سمت میں بہت آگے بڑھے ہیں۔ اور ایک بار فزسسٹ نے ایٹم کا معمہ حل کر لیا اور کوانٹم تھیوری ایجاد کر لی تو اس نے کئی راہیں کھول دیں اور تیزرفتار ترقی کو ممکن بنا دیا۔

الیکٹران ٹیلی سکوپ، لیزر اور کمپیوٹر کی مدد سے کیمسٹ اس قابل ہوئے کہ کیمیائی بانڈ کی نیچر سمجھ سکیں۔ مالیکیول کی شکل کا کیمیائی ری ایکشنوں پر اثر جان سکیں۔ اور اس کی مدد سے کیمیائی ری ایکشن کو اپنے استعمال میں لانے کی ٹیکنالوجی میں بہت پیشرفت ہوئی۔ بیسیوں صدی کے وسط تک اس نے میٹیریل کا انقلاب برپا کیا۔ مصنوعی میٹیریل بنائے جانا، پرانے میٹیریل کو نئے استعمال میں لانا۔ پلاسٹک، نائیلون، پولی ایسٹر، سخت سٹیل، ولکنائز ربر، ریفائنڈ پٹرولیم، کیمیائی کھادیں، جراثیم کش ادویات، کلورین والا پانی اور ایک لمبی فہرست۔ ان کے نتیجے میں خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوا، شرحِ اموات میں کمی آئی اور ہماری اوسط عمر بڑھی۔

اسی وقت میں بائیولوجسٹ نے بھی بہت زیادہ پروگریس کی۔ یہ معلوم ہوا کہ خلیہ مالیکیولر مشین کے طور پر کیسے کام کرتا ہے۔ جینیاتی انفارمیشن کیسے اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ ہماری اپنی نوع کا بلیوپرنٹ کیا ہے۔ آج ہم ڈی این اے کے ٹکڑوں کا تجزیہ کر کے انفیکشن کے ایجنٹ معلوم کر سکتے ہیں۔ ہم ڈی این اے کے سیکشن توڑ کر موجودہ جانداروں کو تبدیل کر کے نئے کی تخلیق کر سکتے ہیں۔ ہم چوہے کے دماغ میں آپٹیکل فائبر ڈال کر اس کو روبوٹ کی طرح کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اور کمپیوٹر کے آگے بیٹھ کر لوگوں کے دماغ میں سوچ کو بنتا اور جذبات کو محسوس ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگرچہ ہم اتنا دور آ چکے ہیں، لیکن ایسا سوچنا یقینی طور پر غلط ہے کہ ہم آخری جوابات کے قریب قریب بھی ہیں۔ ایسا سوچنا ویسی ہی بڑی غلطی ہے جو ہم تاریخ میں ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ قدیم زمانے کے بابل میں رہنے والوں کو یقین تھا کہ زمین سمندری دیوی تیامت کی لاش سے بنی ہے۔ ہزاروں سال بعد جب یونانی فطرت کو سمجھنے میں بہت پیشرفت کر چکے تھے تو ان کو یقین تھا کہ دنیا مٹی، پانی، آگ اور ہوا کے عناصر پر مشتمل ہے۔ اس سے دو ہزار سال بعد نیوٹونین یہ یقین رکھتے تھے کہ ہر شے اور واقعہ جو ہوا ہے اور جو ہو گا، ایٹم کی حرکت سے لے کر سیاروں کے مداروں تک، اس کی اصولی طور پر وضاحت حرکت کے قوانین کی مدد سے کی جا سکتی ہے۔ یہ سب اپنے یقین پر مضبوط یقین رکھتے تھے۔ اور یہ سب اپنے یقین کے بارے میں غلط تھے۔

انسان تاریخ کے جس بھی وقت میں رہتے رہے ہیں، یہ تصور رکھتے رہے ہیں کہ وہ علم کے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہیں۔ اور اگرچہ ہم سے پہلے آنے والوں کے خیالات میں کمزوریاں تھیں۔ لیکن ہمارے سب جواب بالکل درست ہیں۔ سائنسدان اور بڑے سائنسدان بھی اس قسم کی سوچ سے محفوظ نہیں رہے۔ ایک مثال کے لئے: سٹیفن ہاکنگ سائنس کی تاریخ کا بڑا نام ہیں۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں دعویٰ کیا کہ ہم فزکس میں “تھیوری آف ایوری تھنگ” تک پہنچنے والے ہیں اور اس صدی کی آخر تک ہم اسے پا لیں گے۔ جب ہیومن جینوم پراجیکٹ شروع ہوا تھا تو بہت سے بائیولوجسٹ کو یقین تھا کہ ہم انسان کا بلیوپرنٹ پا لیں گے۔ کینسر کا علاج کر لیں گے، نئے انسان بنا لیں گے۔ پرامید رہنا کسی سائنسدان کے لئے اچھی خاصیت سمجھی جاتی ہے کیونکہ امید ہماری زندگیوں کا ایندھن ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال خام رہ گئے۔

آج جب اگلی صدی شروع ہوئے دو دہائیاں ہو چکیں، کیا آج ہم فطرت کے بارے میں بنیادی سوالات کے جواب دے چکے ہیں؟ یا پھر ہم اسی قسم کی صورتحال میں ہیں جو بیسویں صدی کے شروع میں تھی۔ جب ہمیں ایک دو مسائل کے علاوہ سب کچھ پتا چل چکا تھا۔ اور ان نامعلوم کی وجہ سے وہ تھیوریاں جو ہمارے خیال میں سچ تھیں، انہیں جلد ہی کسی بالکل ہی مختلف شے سے تبدیل ہو جانا تھا۔

سائنس کے افق پر اتنے بادل موجود ہیں جو اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ہم دوسرے منظرنامے میں ہیں۔ ہمیں بڑے سوالات کے جواب معلوم نہیں۔ بائیولوجسٹ ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی۔ کیا کسی دوسرے سیارے پر زندگی کی موجودگی کا امکان ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو کتنا۔ انہیں ابھی یہ معلوم نہیں کہ ایسے کونسے عوامل تھے جو جنسی تولید کے ارتقا کا باعث بنے۔ زندگی کے مالیکیولز تک پہنچ چکے ہیں لیکن جاندار کے الگ اعضا کی اور مالیکیولر ایکشن کی تال میل کیسے ہوتی ہے، اس کا معلوم نہیں۔ سسٹمز بائیولوجی بالکل ابتدا پر کھڑی ہے، ہمیں جاندار کے خلیات کی تال میل کا علم نہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ اس بات کا ہمیں ذرا بھی اندازہ نہیں کہ دماغ ذہن کو کیسے وجود دیتا ہے۔

کیمسٹری میں بڑے نامعلوم موجود ہیں۔ پانی کے مالیکیولز کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ملکر بنائے جانے والے ہائیڈروجن بانڈ کا اسرار نامعلوم ہے جو اس اہم ترین مائع کی جادوئی خاصیتوں کا باعث ہے۔ امینو ایسڈ کے لمبی زنجیریں کس طرح پریسائز طریقے سے فولڈ ہو کر پروٹین بنتی ہیں جو زندگی کے لئے کلیدی ہیں۔ پولیمرز، میٹیریلز، ادویات، بیماریوں کی کیمسٹری کے بارے میں بڑے سوالات ہیں۔

اور فزکس میں بڑے اسرار کھلنا باقی ہیں۔ وہ کھلے سوال جو فطرت کے بارے میں ہمارے معلوم سب سے بنیادی حقائق کو بھی پلٹا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے فورس اور مادے کا بہت ہی کامیاب “سٹینڈرڈ ماڈل” بنا لیا ہے جس الیکٹرومیگنیٹزم اور دو طرح کی نیوکلئیر فورسز یکجا ہو جاتی ہیں۔ تاہم کوئی بھی یہ توقع نہیں رکھتا کہ یہ ماڈل آخری ہے۔ اس کا ایک بڑا مسئلہ اس میں گریویٹی کی عدم موجودگی ہے۔ ایک اور مسئلہ اس کے ایڈجسٹ ایبل پیرامیٹر ہیں جو تجربات کی بنیاد پر ہے لیکن کوئی ایسی تھیوری نہیں جو ان کے اس طرح ہونے کی وضاحت کر سکے۔ (اور یہ ویسے ہی ہے جیسے کیپلر کے فیکٹر تھے جن کی وضاحت نے فزکس کی سمجھ یکسر بدل دی)۔ ایک وقت میں امید تھی کہ سٹرنگ تھیوری یا ایم تھیوری ان دونوں چیلنجز کو پورا کر سکیں لیکن اس میں زیادہ پیشرفت نہ ہونے کے بعد ایک وقت میں اس سمت سے وابستہ بلند امیدوں سے اب کئی فزسسٹ متفق نہیں نظر آتے۔

اور اب ہمارا خیال ہے کہ وہ کائنات جو ہمارے طاقتور ترین آلات ہمیں دکھاتے ہیں، ایک بہت بڑی حقیقت کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ سب ابھی ہمارے لئے کافی دیر تک اسرار ہی رہے گا۔ وہ مادہ اور روشنی جو ہم اپنی حسیات سے معلوم کرتے ہیں اور اپنی لیبارٹری میں دیکھتے ہیں، کائنات کے مادے اور توانائی کے پانچ فیصد کی وضاحت کرتا ہے۔ جب کہ نہ دیکھے اور ڈیٹکٹ کئے جانے والا “تاریک مادہ” اور نہ دیکھی اور نہ ڈیٹکٹ کی جانے والی “تاریک توانائی” باقی پچانوے فیصد ہے۔

فزسسٹ تاریک مادے کی موجودگی اس لئے سمجھتے ہیں کہ جو مادہ ہم دیکھ سکتے ہیں، اس پر گریویٹی کی کشش ہے جس کا سورس ہمیں معلوم نہیں ہے۔ تاریک توانائی بھی ویسا ہی اسرار ہے۔ اس کی دریافت 1998 کی ہے کہ کائنات کے پھیلاوٗ کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ اس اینٹی گریویٹی ایفیکٹ کی سورس کا اور اس کی نیچر کا ہمیں علم نہیں ہے۔

کیا تاریک مادہ اور تاریک توانائی کی ایسے وضاحت مل جائے گی جو ہماری موجودہ تھیوریوں میں ہی کہیں فٹ ہو جائے گی۔ یعنی کہ تھیوری آف ریلیٹیویٹی اور سٹینڈرڈ ماڈل میں؟ یا پھر پلانک کانسٹنٹ کی طرح، ان کی تلاش میں کائنات کا کوئی نیا ہی روپ آشکار ہو گا؟ کیا سٹرنگ تھیوری درست سمت ثابت ہو گی یا پھر ہم کچھ نیا ہی دریافت کریں گے؟ کیا ہم کبھی ایسی تھیوری تک پہنچ پائیں گے جو نیچر کی تمام فورسز کو یکجا کر سکے گی؟ کیا سٹینڈرڈ ماڈل کے پیرامیٹرز کی وضاحت ہو سکے گی؟

ان سوالوں کے جوابات کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔ نہ مجھے اور نہ ہی دنیا کے کسی بھی بہترین سائنسدان کو۔ لیکن اب ہم بہت اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم نہیں جانتے، وہ اس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جو ہم جانتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم معلوم کرنے کی تلاش میں رکیں گے نہیں، باز نہیں آئیں گے۔

ہزاروں سال پہلے بھی ہم نے اس کائنات کی حقیقت کے اور اس میں اپنی جگہ کے بارے میں سوال کئے ہوں گے۔ یہ آج بھی ویسے ہی قائم ہیں۔ نامعلوم کے گہرے دھندلکے میں ڈھکے ہوئے۔ لیکن فطرت کی پہیلیاں بوجھنے کی اور یہ معمے حل کر لینے کی خواہش ہماری خواہشات کی فہرست میں بہت اوپر ہے۔ ہمیں محض زندہ رہنے کی خواہش نہیں۔ اس پرسرار دنیا کے اسرار کھولنے کی جستجو ہماری سرشت میں رچی ہوئی ہے۔

آج “میں کون ہوں؟” کے جواب میں تاریخ کے دھندلے حروف اشارہ کرتے ہیں کہ بطورِ انسان شاید یہ کھوج بھی میرا مقدر ہے اور میرے اٹھانے کا بوجھ۔ میں فطرت کا باریک بینی سے مشاہدہ کر سکتا ہوں۔ میں دو ٹانگوں پر کھڑی ہونے والی ایک متجسس اور منفرد نوع ہوں۔ میں منفرد ہوں کیونکہ میرے ہزار روپ ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں مفکر ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قدیم زمانے سے آج تک ہم کہانیاں سننے والے ہیں۔ غلط ہاتھوں میں سائنس بہت ہی بور اور خشک قسم کی شے بن جاتی ہے۔ لیکن اگر ٹھیک سے بتایا جائے کہ ہم کیا جانتے ہیں اور کیسے جانتے ہیں تو یہ الف لیلہ کی کہانی سے زیادہ دلچسپ ہے۔

بمشکل خود کو شکاری جانوروں سے بچانے اور جنگلی پھل اور جڑوں کی تلاش سے لے کر بھاری بھرکم جہاز اڑا لینے، زمین کے دوسرے کنارے تک فوری پیغام پہنچا دینے، کائنات کے ابتدائی حالات کو لیبارٹری میں بنا لینے اور اس سب کو ایک سکرین پڑھ لینے کی کہانی ۔۔۔ اس کو جاننا، بطور انسان، اپنی وراثت کو جاننا ہے۔

یہ طویل کہانی ہے۔ یہ ہماری کہانی ہے۔ یہ جاری ہے، جب تک ہم باقی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شُد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply