پہلے یہ ہوتا تھا کہ عمر گزرنے کے ساتھ لوگ صرف بڑے ہوجاتے تھے۔ وقت کے تھپیڑوں سے کچھ تجربہ حاصل ہوجاتا تھا۔ بالوں میں سفیدی آنے پر لوگ بزرگ سمجھنے لگتے تھے۔ لیکن دانش کسی کسی کے پاس ہوتی تھی۔ دانشور کوئی کوئی ہوتا تھا۔
الحمداللہ پتھر کا دور ختم ہوا۔ عقل پر پتھر پڑنے کا دور شروع ہوا۔ فیس بک نے سب کو دانشور بنانا شروع کردیا۔ آج کل جس گھر میں چار افراد رہتے ہوں، وہاں پانچ دانشور پائے جاتے ہیں۔ پانچویں آئی ڈی جعلی ہوتی ہے۔
قدیم زمانے کے دانشور کو بہت کتابیں پڑھنا پڑتی تھیں۔ اس کے بعد بہت سوچنا پڑتا تھا۔ اس کے بعد تجزیہ کرنا پڑتا تھا۔ ہر شخص پڑھ نہیں سکتا تھا یا پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔ ہر پڑھنے والا سوچنے میں وقت ضائع نہیں کرتا تھا۔ ہر سوچنے والا تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔
ماشا اللہ دانشور بننے کے لیے پڑھنے، سوچنے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ختم ہوئی۔ کہیں سے بھی اقوال زریں یا غیر زریں، غزل یا ہزل، بیان یا الزام، خبر یا افواہ، جو بھی مل جائے، اسے اٹھاکر چھاپ دیں۔ کسی کو کیا پتا کہ آپ کا ہے یا کسی اور کا۔ سچ ہے یا جھوٹ۔ عقل والی بات ہے یا ناسمجھی کی۔ جیسے آپ دانشور، ویسی آپ کی آڈیئنس۔ سو دو سو لائیکس، دس بیس شئیرز کم از کم مل جائیں گے۔ کمنٹس مفت میں۔ نائس ڈئیر۔ واؤ۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ وغیرہ وغیرہ۔
چونکہ ہم طبقاتی معاشرے میں رہتے ہیں اس لیے بہرحال ہمارا سوشل میڈیا بھی اس سے متاثر ہے۔ یعنی دانشوروں کی بھی گریڈنگ ہوچکی ہے۔ سرکار میں افسروں کا گریڈ سولہ سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ مجھ جیسے چھوٹے موٹے فیس بکی دانشور سولہویں گریڈ میں پڑے ہیں۔ حافظ صفوان اور رانا تنویر عالمگیر کو سترھویں گریڈ کا سمجھیں۔ رامش فاطمہ اور لائبہ زینب اٹھارھویں میں ہیں۔ عدنان کاکڑ اور ظفر عمران کا گریڈ انیسواں، ابوعلیحہ اور قادر غوری کا بیسواں اور وسی بابا کا اکیسواں ہے۔
لیکن اس کتاب میں میرا یا ان دوسروں کا تذکرہ اس لیے نہیں کہ یہ بائیسویں گریڈ کے دانشوروں کے بارے میں ہے۔
جس طرح بائیسویں گریڈ کے سرکاری ملازم کو بہت سی مراعات حاصل ہوتی ہیں، بائیسویں گریڈ کا دانشور بھی بزور دانش کچھ مراعات حاصل کرلیتا ہے۔ جعلی آئی ڈی سے کچھ لڑکیوں کو بے وقوف بنالیتا ہے۔ کچھ نرم دل لوگوں سے پیسے اینٹھ لیتا ہے۔ حکومت کے حق میں یا خلاف نعرے بازی کرتا ہے۔ کسی کو بھی اشارہ ابرو سے قادیانی یا یہودی بناسکتا ہے۔ اور کیا کیا کرلیتا ہے یا کرتا ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی۔
کچھ لوگ بڑے سیانے ہوتے ہیں۔ ان کا گریڈ تو اٹھارہواں یا انیسواں ہوتا ہے لیکن وہ بائیسواں گریڈ ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دانشوروں کے گریڈ کی پہچان آسان نہیں۔ آسان ہوتی تو رانا صاحب کو یہ کتاب کیوں لکھنا پڑتی؟ یہ راز کی بات میں یہاں کھول رہا ہوں کہ رانا صاحب پی ایچ ڈی کررہے ہیں اور یہ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے۔ اس کے بعد یہ نہ صرف ڈاکٹر کہلائیں گے بلکہ سترھویں سے اٹھارہویں گریڈ میں بھی چلے جائیں گے۔
یہ کتاب خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھوائیں۔ اگر آپ ابھی تک دانشور نہیں بنے تو یہ کتاب پڑھ کر بن جائیں گے۔ اگر آپ دانشور بن چکے ہیں تو یہ کتاب پڑھ کر آپ کا گریڈ بڑھ جائے گا۔ دس دوستوں کو یہ کتاب پڑھوانے سے ایک درجہ اور بلند ہوسکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں