چیخوف کی واپسی(دوسرا،آخری حصہ)۔۔عارف انیس

قید کے آخری دو برسوں میں وکیل نے ہر قسم کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اب جوبھی کتاب اس کے ہاتھ آتی وہ اسے پڑھ ڈالتا۔ اس نے پہلے تو مطالعہ فطرت سے متعلق کتابوں کو کھنگال ڈالا۔ پھر بائرن اور شیکسپیئر کو پڑھا۔ اب اس کی طرف سے جو رقعے ملتے ان پر بیک وقت کیمسٹری، میڈیسن، ناولوں اور فلسفہ و مذاہب سے متعلق رسالوں، کتابوں اور کتابچوں کی فرمائش کی گئی ہوتی۔ یوں لگتا تھا جیسے سمندر میں کشتی شکستہ انسان ہے جو کبھی ایک تختے کا سہارا لیتا ہے اور کبھی لپک کر دوسرے تختے کو پکڑ لیتا ہے اور یوں خود کو ڈوبنے سے بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔
بینکار سر جھکائے ٹہلتا ہوا اپنی یادداشتوں کا ایک ایک ورق الٹ رہا تھا۔
کل دوپہر ٹھیک بارہ بجے اس کی قید کی معیاد ختم ہو جائے گی۔ پورے پندرہ برس بعد وہ میری قید سے آزاد ہو جائے گا اور معاہدے کی رو سے مجھے اس کو بیس لاکھ ڈالر ادا کرنے ہوں گے، میرے پاس اب اتنی بھاری رقم کہاں؟ میں پچھلے پندرہ برس میں اپنا سارا اثاثہ اللوں تللوں میں ضائع کر چکا ہوں. اور اگر میں اپنا سارا کچھ بیچ باچ اور سارے اثاثے سمیٹ سماٹ کر اسے یہ رقم ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو بالکل تباہ و برباد ہو جاﺅں گا۔ دیوالیہ! ایک دم دیوالیہ! پندرہ برس پہلے تو میرے پاس ایک بیس لاکھ کیا، کروڑوں ڈالرز تھے، اتنے کہ ان کی گنتی اور حساب کتاب رکھنا بھی مشکل تھا لیکن آج میری جمع شدہ پونجی کے مقابلے میں مجھ پر قرضوں کا بوجھ کہیں زیادہ ہے۔ کاروبار میں سٹے بازی نے مجھے بالکل ہی تباہ کر دیا ہے، مجھے منہ دکھانے کو نہیں چھوڑا۔ مالی پریشانیوں نے مجھے یوں بھی وقت سے پہلے بہت زیادہ بوڑھا کر دیا ہے۔ مارکیٹ میں میری ساکھ اجڑ چکی ہے۔ خود میں اعتماد کی دولت سے محروم ہوں۔ اب کسی کام میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ جن بڑی بڑی فرموں سے رقمیں لینی تھیں ان میں سے بھی کئی ایک دیوالیہ ہوچکی ہیں۔ مقدر نے بہت بُری طرح دغا کی ہے! قرض خواہ اپنی رقمیں وصول کرنے کے لئے عدالتوں میں میرے خلاف دعویٰ کرنے کا سوچ رہے ہیں اور پھر یہ نئی مصیبت کل اس بڈھے دانشور وکیل کو بھی بیس لاکھ ڈالر دینے ہوں گے! خدایا میں کیا کروں، کہاں جاﺅں!“ یہ کہہ کر بینکار نے دونوں ہاتھوں سے الجھے ہوئے سفید بالوں والا سر تھام لیا۔ پھر وہ سوچنے لگا، یہ وکیل مر کیوں نہیں جاتا، اپنی زندگی کے بیس سالوں کو تو اس نے راکھ کردیا۔ مگر ابھی تو اس کی عمر صرف چوالیس سال ہے وہ کل مجھ سے بیس لاکھ ڈالر وصول کر لے گا۔ نہ دوں گا تو عدالت کے ذریعے نکلوا لے گا۔ اور پھر میرے پیسوں پر عیش کرتا پھرے گا اور مجھے ایک ایک پائی کا محتاج کر جائے گا۔ وہ لکھ پتی بن جائے اور میں گداگر۔ پھر وہ ہر روز بڑے طنز سے مجھے خیرات دیتے ہوئے یہ جملہ کہا کرے گا۔
”میری یہ امارت و خوشحالی تمہاری وجہ سے ہے آﺅ میں تمہاری مدد کروں۔“ نہیں نہیں، میں یہ سب کچھ نہیں سن سکتا۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ بینکار چلا اٹھا اور اس نے اپنے الجھے ہوئے بال پوری وحشت سے نوچ ڈالے۔ پھر اسے اچانک خیال آیا۔ ”دیوالیہ ہونے اور رسوائی و ذلت سے بچنے کا ایک طریقہ ہے۔ وکیل کو مار دیا جائے۔“ اس خیال کے آتے ہی اس کے مضطرب دل کو سکون آگیا۔ کلاک نے تین بجائے۔ بینکار اب تک جاگ رہا تھا۔ گھر کا باقی ہر فرد گہری نیند میں غرق تھا۔ باہر بارش میں درختوں کی شائیں شائیں کے سوا کوئی آواز نہیں آرہی تھی. اس نے کسی کو جگائے بغیر اپنی آہنی تجوری سے قیدی کے کمرے کی چابی نکالی۔ پندرہ برسوں میں اس چابی کو ایک دفعہ بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے اپنا اوور کوٹ کندھے پر ڈالا اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔ باغ میں تاریکی اور بلا کی سردی تھی، بارش بھی جاری تھی۔ سرد ہوا کے تھپیڑے درختوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پٹخ رہے تھے۔ بینکار قیدی کے کمرے کے باہر دالان میں پہنچ کر رک گیا۔ اس نے چوکیدار کو دو دفعہ آواز دی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ یوں لگتا تھا کہ خراب موسم کی وجہ سے چوکیدار نے باورچی خانے یا کسی دوسرے کمرے میں پناہ لے رکھی ہے اور جا کر سو گیا ہے۔ بینکار نے دل ہی دل میں سوچا۔
”مجھ میں دم ہے۔ میں نے جو پروگرام بنایا ہے، وہ کر گزروں گا۔ شک پڑا بھی تو چوکیدار پر پڑے گا۔ وہ اندھیرے میں ٹٹولتا ٹٹولتا قیدی کے کمرے تک پہنچ گیا۔ پھر اس نے دیا سلائی جلائی اور اس کی روشنی میں اِدھر اُدھر دیکھا۔ گندے برتن جابجا بکھرے ہوئے تھے۔ ایک جگہ بجھا ہوا اسٹوو پڑا تھا۔ چوکیدار کا بستر خالی پڑا تھا اور اس پر چادر تک نہ تھی۔ یہاں کسی ذی روح کی موجودگی کا احساس نہ ہوتا تھا۔ دیا سلائی کے بجھتے ہی بوڑھا بینکار کانپتی ہوئی ٹانگوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر تپائی پر چڑھ گیا اور اس نے روشن دان کے راستے قیدی کے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ جلتی ہوئی موم بتی آخری دموں پر تھی۔ قیدی میز پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ پیچھے سے بس اس کی کمر، سفید اُلجھے ہوئے بال اور سوکھے ہوئے ہاتھ ہی نظر آ رہے تھے۔ میز اس کے ساتھ دو کرسیاں اور نیچے قالین پر جگہ جگہ کتابیں بکھری پڑی تھیں۔ پانچ منٹ گزر ے لیکن قیدی کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ بینکار نے دریچے کے طاقچوں پر اپنی اگلیوں سے ہلکی سی دستک دی۔ اس کے جواب میں بھی قیدی کے سال خوردہ جسم نے کوئی حرکت کی تو اس نے بڑی آہستگی سے تالے پرموڑھے ہوئے کپڑے پر لگی ہوئی سیل کو توڑا۔ کپڑے کو چاقو سے کاٹا اور چابی اس کے اندر اتار دی۔ تالے کے لیور پندرہ سال تک بند رہنے سے جام ہوگئے تھے تاہم قدرے زور لگانے سے تالا کھل گیا۔ اسے پوری اُمید تھی کہ تالا کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی قیدی فرطِ مسرت سے چیخ اُٹھے گا اوردروازے کی طرف لپکے گا لیکن ایسا بالکل نہ ہوا۔ تین منٹ گزر گئے۔ خاموشی کو کسی آواز یا حرکت نے نہ توڑا۔ اب اس نے کمرے میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ میز کے آگے جو آدمی بیٹھا تھا وہ عام انسانوں سے مختلف تھا وہ محض ایک انسانی ڈھانچہ تھا۔ غیر صحت مند، نحیف و ناتواں ہڈیوں پر سوکھی ہوئی انسانی کھال مڑھی تھی اور اس کے چہرے کا رنگ زرد مٹیالا تھا۔ گال سوکھ کر اندر دھنس گئے تھے۔ بال چاندی کے تاروں کی طرح چمک رہے تھے اور کوئی بھی شخص اسے دیکھ کر اس بات پر یقین نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی عمر صرف چوالیس سال ہوگی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ گہری غنودگی میں تھا. میز پر اس کے جھکے ہوئے سر کے نیچے ایک کاغذ پڑا تھا جس پر باریک لفظوں میں کچھ عبارت لکھی تھی۔
”چچ چچ ! بیچارہ وکیل تو چلتی پھرتی لاش ہے“ بینکار نے اس پر ترس کھاتے ہوئے دل ہی دل میں کہا۔ ”اس کو تو ٹھکانے لگانے کے لئے مجھے کچھ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ نیم مردہ ڈھانچے کو اٹھا کر پلنگ پر ڈالوں گا اور شہ رگ پر تکیہ رکھ کر زور سے دبا دوں گا۔ دوسرے دن کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ اس کی موت غیر طبعی طریقہ سے واقع ہوئی ہے لیکن اس سے پہلے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس نے کاغذ پر کیا لکھ رکھا ہے۔“ چنانچہ اس نے وکیل کے سامنے سے کاغذ اٹھایا اور پڑھنا شروع کر دیا۔
”کل رات ٹھیک بارہ بجے میری یہ پندرہ سالہ قید تنہائی ختم ہو جائے گی اور میری آزادی بحال ہو جائے گی اور میں دوسرے لوگوں سے مل سکوں گا اور سڑکوں پر محو رقص ہوسکوں گا۔ لیکن قبل اس کے کہ میں اس کمرے سے باہر نکلوں اور سورج کی روشنی کو دیکھوں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ تم سے کچھ باتیں کہہ لوں۔ مجھے اپنے پاک، صاف بے داغ ضمیر اور اس خداوند کی قسم ہے جو مجھے ہر وقت ہر لمحے دیکھ رہا ہے کہ میں تمہارے سامنے یہ اعلان کردوں کہ آزادی، زندگی اور صحت غرض ہر چیز میری نظروں میں بے حیثیت و بے وقعت ہے جسے تمہاری کتابیں دنیا کی نعمت قرار دیتی ہیں۔
پورے پندرہ سال تک میں نے بڑے انہماک سے زمینی زندگی کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ میں نے اس عرصے میں نہ زمین دیکھی اور نہ اس پر بسنے والے۔ لیکن تمہاری مہیا کی ہوئی کتابوں کے ذریعے میں نے اس زمین اور اس کی نعمتوں اور برکتوں کو اچھی طرح چکھا، پرکھا اور محسوس کیا۔ میں نے مہکتی ہوئی شرابیں پیئں، لہکتے ہوئے گیت گائے، جنگلوں، پہاڑوں، وادیوں اور مرغزاروں میں غزالوں کے پیچھے دوڑا، ہرنوں کا شکار کیا، عورتوں سے محبت کی اور خوبصورت عورتوں نے جو بادلوں کی طرح ہلکی، پاک شفاف بے ریا و بے داغ تھیں اور جنہیں تمہارے شاعروں نے اپنی غیر معمولی قوتِ تخیل سے تخلیق کیا تھا۔ مجھ سے چاندنی راتوں میں ملاقاتیں کیں اور میرے ساتھ تکیے پر سر رکھ کر سرگوشیوں کے انداز میں بے حد و حساب خوبصورت داستانیں سنائیں اور ان کے نشہ شباب سے میں پہروں مست رہا۔
تمہاری کتابوں کے ذریعے میں البرز جیسے بلند و بالا اور پُرہیبت پہاڑوں پر چڑھ گیا اور چوٹیوں سے میں نے سورج کو صبح کے وقت اُفق سے طلوع ہوتے اور شفق کے دامن میں غروب ہوتے دیکھا۔ میں نے تادیر نیلگوں اور سفید آسمان کے کناروں پر رنگوں کے طلسمات کھلنے کا نظارہ کیا۔ سمندروں کی چھاتیوں پر کرنوں کا رقصِ بسمل دیکھا۔ ہواﺅں کو ندیوں کا بدن چومتے پایا۔ پہاڑوں کے کناروں پر اندھیرے اجالے کے پھول کھلتے دیکھے۔ روپہلی کرنوں کو سفید بادلوں کی اوٹ سے جانکلتے اور سورج کی الوداعی شعاعوں کو سیاہ گھٹاﺅں کا سینہ چیرتے دیکھا۔ میں نے سرسبز و شاداب جنگل، ہرے بھرے لہلہاتے کھیت، بھرپور دریا اور لب لباب جھیلیں دیکھیں، ہنستے بستے شہر اور بستیاں دیکھیں، میں نے رقص گاہوں کے نیم وا دروازوں سے پھوٹ کر ہوا کی لہروں پہ تیرتی ہوئی موسیقی کی مدھر تانیں سنیں، میں نے ان خوبصورت اور پاکیزہ فرشتوں کے پروں کو چھوا جو میرے خوابِ وصال میں در آتے ہیں اور مجھ سے خدا کی باتیں کرتے تھے۔
تمہاری کتابوں کے ذریعے میں زمین اور سمندر کی عمیق پہنائیوں میں اتر گیا۔ مجھ سے معجزے رونما ہوئے۔ میں نے شہروں کو جلا کر مسمار کر دیا۔ نئے نئے مذاہب کی تبلیغ کی اور ایک عالم کو مسخر کیا۔
تمہاری کتابوں نے مجھے عقل و دانش عطا کی اور بے فکر ے دنوں سے لے کر آج تک انسانی ذہن نے جو کچھ بھی سوچا۔ وہ سب جوہر بن کر میری اس چھوٹی سی کھوپڑی میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا اور میں جانتا ہوں کہ میں تم سے کہیں زیادہ عقل و خرد کا مالک ہوں۔ تم سے کہیں زیادہ چالاک ہوں! مگر میں تمہاری ان کتابوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں، دنیاوی تخلیق اور دانش میرے سامنے بے وقعت چیزیں ہیں، ہر چیز بے حقیقت ہے، بے حیثیت ہے، فریب ہے، دھوکا ہے، سراب ہے، مانا کہ تم کو خود پر بڑا ناز ہوگا۔ خوبصورت بھی ہوگے اور عقل مند بھی! لیکن ایک ایسی بھی طاقت ہے جسے تم موت کہتے ہو جو زمین پر سے تمہارے وجود کو خاک کر کے رکھ دے گی جیسے تمہارا کبھی وجود ہی نہ تھا اور تمہاری خوشحالی کی یہ ساری داستانیں اور تمہارے غیر فانی فلسفیوں اور دانشوروں کا لافانی نام اور کام سب ایک نہ ایک دن اس دنیا کے ساتھ ہی مٹ جائے گا۔
تم سائیں لوک ہو، پاگل ہو، جنونی ہو، بھٹک گئے ہو، غلط راستے پر چلے گئے ہو، تم نے جھوٹ کو سچ سے ملا دیا اور بدصورتی کو سندر پن کی جگہ دے دی۔ اگر کل تم باغ میں جاؤ اور درختوں پر پھلوں کی بجائے مینڈک لگنے لگیں تو شاید تم تعجب کرو گے اسی طرح آج میں تم پر ہنس رہا ہوں۔ جس نے اس زمین کو جنت کا بدل سمجھ لیا ہے۔ خوبصورتی کا سودا بدصورتی سے کر رکھا ہے۔ میں تمہیں سمجھانے یا قائل کرنے کی ہرگز کوشش نہ کروں گا! تاہم میں تمہیں آئینہ ضرور دکھانا چاہتا ہوں اور ان چیزوں کے لئے اپنی نفرت کا کُھل کر اظہار کرنا چاہتا ہوں جن کے لئے اور صرف جن کے لئے تم زندہ رہ رہے ہو۔ میں بیس لاکھ ڈالر کی اس رقم سے دستبردار ہوتا ہوں جسے کبھی میں نے نعمت ارضی سمجھ کر پندرہ سال کی غلامی ہنسی خوشی قبول کر لی تھی۔ اب یہ رقم میرے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اس رقم کے حصول کے حق سے خود کو محروم کر دینے کے لئے میں تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کروں گا اور مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے قیدِ تنہائی سے نکل جاﺅں گا۔“
جب بینکار یہ عبارت پڑھ چکا تو اس نے کاغذ کو میز پر واپس رکھ دیا۔ قیدی کے جھکے ہوئے سر پر بوسہ دیا اور پھر اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ وہ کمرے کو پہلے کی طرح بند کرکے واپس چلا آیا۔ اس سے پہلے زندگی میں کبھی وہ اتنا نادم اور پشیمان نہ ہوا تھا۔ جتنا آج تھا۔ زندگی کے بڑے سے بڑے نقصان پر اس کی یہ حالت کبھی نہ ہوئی تھی اور آج سے پہلے کبھی وہ خود اپنی نظروں میں ذلیل اور حقیر نہ تھا۔ گھر آکر وہ بستر پر پڑا رہا لیکن ضمیر کی لعن طعن اور آنسوﺅں کے تسلسل نے نیند کو ایک پل کے لئے بھی اس کے نزدیک نہ آنے دیا۔
اگلی صبح غریب چوکیدار بدحواسی کے عالم میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس نے انکشاف کیا کہ قیدی روشن دان کے راستے بھاگ نکلا ہے اور اس نے خود اسے باغ کی دیوار پھلانگتے دیکھا ہے۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن قیدی جلد ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ یہ سن کر بینکار اپنے تمام ملازموں کو ساتھ لے کر قیدی کے کمرے میں پہنچا۔ سب کو قیدی کے فرار کا گواہ بنا لیا اور مزید کسی قانونی الجھن سے بچنے کے لئے اس نے میز پر چھوڑی ہوئی قیدی کی آخری تحریر کو اٹھا لیا اور واپس آکر اسے اپنی آہنی تجوری میں محفوظ کر لیا۔
انتون چیخوف کے شاہکار افسانہ “شرط” کا ترجمہ
عارف انیس

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply