• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میٹھے آم اور کڑوا سچ، قصہ 90 ہزار کٹے درختوں کا۔۔عامر عثمان عادل

میٹھے آم اور کڑوا سچ، قصہ 90 ہزار کٹے درختوں کا۔۔عامر عثمان عادل

دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے جی ہاں گاؤں کے بارے ہی کہا جاتا تھا کہ منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی سوشل میڈیا بھی گاؤں جیسا ہے، ذرا سی بات شیئر ہوئی  جھٹ سے وائرل ہو کر آناً فاناً  ٹرینڈ بن جاتی ہے۔

پچھلے چند دنوں سے ایک طوفان بپا ہے کہ ملتان میں ڈی ایچ اے نے آم کے باغات کا قتل عام شروع کر رکھا ہے پھر اس خبر کو باقاعدہ ایک کمپین کی شکل دے کر ایک ہی تیر سے ڈی ایچ اے پاک فوج اور حکومت کو شکار کرنے کی ٹھان لی گئی اور یار لوگوں نے اسے  کارِ  ثواب سمجھ کر دھڑا دھڑ شیئر کرنا فرض عین سمجھا ،چند دانشوروں نے تو کاٹے گئے درختوں کو شمار بھی کر لیا کہ 90 ہزار درخت تہ تیغ کر ڈالے گئے۔

آم اور پاکستان
پھلوں کا بادشاہ ہر دور میں نہ صرف بادشاہوں کی پسند رہا بلکہ اسے شاہی تحفے کا درجہ حاصل رہا اور آم تو سفارتکاری کا ذریعہ بھی بن چکے ہیں
مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ رسیلا خوش ذائقہ اور خوش رنگ آم میرے دیس پاکستان میں پیدا ہوتا ہے۔

آموں کی برآمد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پہ ہے، جبکہ زیر کاشت رقبے کے لحاظ سے یہ چھٹا بڑا ملک جانا جاتا ہے ہر سال اس کی برآمد سے پاکستان 24 ملین ڈالر زر مبادلہ کماتا ہے۔آم ایک ایسا درخت ہے جس کی گٹھلی سے پتوں تک افادیت ہی افادیت ہے۔

ملتان اور آم
اولیاء کی سرزمین ملتان جس کے بارے مقولہ عام ہے
چہار چیز است تحفہ ملتان
گرد ،گدا، گرما، و گورستان

اب یہ اپنے میٹھے آموں کے لئے شہرت عالم رکھتا ہے جس کا چونسہ اور انور راٹول اپنا کوئی  ثانی نہیں رکھتا، اسی لئے آموں کے شیدائی کہتے ہیں کہ میٹھے رسیلے آموں کی جنت کوئی  ہے تو وہ ملتان ہے۔

پاکستان میں سالانہ 18 لاکھ ٹن آم پیدا ہوتا ہے جس میں سے 13 لاکھ تو پنجاب کی پیداوار ہے۔

ڈی ایچ اے ملتان کے خلاف الزامات
سوشل میڈیا پر کٹے ہوئے درختوں سے لدی ٹرالی کی تصاویر اور ایک ویڈیو وائرل ہوئی  جس میں دکھایا گیا کہ یہ ویڈیو ڈی ایچ اے ملتان کی ہے جہاں آم کے باغات کو کاٹا جا رہا ہے۔ باقاعدہ یہ تک لکھا گیا کہ ڈی ایچ اے انتظامیہ نے 90 ہزار درخت کاٹ ڈالے۔بس پھر کارٹون ، میمز طنز پر مبنی مواد کی بھرمار ہو گئی۔ایک ہی سانس میں ڈی ایچ اے فوج اور حکومت کو کھری کھری سنا دی گئیں۔

الزامات کی حقیقت اور BBC کی رپورٹ
بی بی سی اردو سروس کے ملتان سے نمائندے نے اس ایشو پر باقاعدہ ایک رپورٹ تیار کی، جس میں مقامی پراپرٹی ڈیلرز آم کاشت کرنے والے زمیندار ملتان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے عہدیداران اور مقامی لوگوں کے بیانات شامل کئے گئے۔
بی بی سی کے نمائندے نے لکھا کہ مقامی لوگوں نے اس ویڈیو اور تصاویر کی تصدیق تو کی ہے لیکن یہ سات ماہ پرانی ہے اور مزید یہ کہ مذکورہ تصاویر اور ویڈیو سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے زیر قبضہ رقبے میں درخت کاٹے جانے کی ہیں۔
کسی نے ڈی ایچ اے کے زیر استعمال رقبے میں درخت کاٹے جانے کی تصدیق نہیں کی۔

ڈی ایچ اے کا قیام کب سے ؟
ڈی ایچ اے راتوں رات وجود میں نہیں آئی ،2013 میں اس سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی جس نے آہستہ آہستہ رقبہ خریدنا شروع کیا اور آج ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کے پاس 9000 ایکڑ اراضی موجود ہے۔

دیگر ھاوسنگ سوسائیٹیز
ملتان ایک گنجان آباد شہر بنتا جا رہا ہے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث رہائشیں کم پڑنے لگیں تو ہاؤسنگ سوسائیٹیز کی مانگ بڑھنے لگی۔اس وقت شہر میں ڈی ایچ اے کے علاوہ بحریہ اور سٹی ہاؤسنگ سوسائیٹیز جیسی دیگر بہت سی اتھارٹیز کام کر رہی ہیں اور ان بڑے بڑے ناموں کے علاوہ بے شمار چھوٹے چھوٹے پراپرٹی ڈیلرز بھی میدان میں موجود ہیں۔

ملتان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا موقف
بی بی سی کے نمائندے نے جب MDA کے نگران اعلیٰ  آغا علی عباس سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سٹی ہاؤسنگ سوسائیٹی کے زیر اہتمام بوسن روڈ اور شجاع آباد روڈ پر کام جاری ہے جسے فیز ون کے لئے تو تمام تعمیراتی کاموں کی اجازت تھی لیکن فیز 2 پہ سٹی ھاوسنگ کو کلی طور پر این او سی نہیں ملا تھا جس کی بنا پر اسے رقبے سے درختوں کی کٹائی سے روکا بھی گیا۔
آغا علی عباس کا کہنا تھا کہ لوگوں کا جو موروثی رقبہ زرعی زون میں نہیں آتا وہاں کوئ پابندی عائد نہیں کی جا سکتی کہ اس رقبے کو فروخت کرنے درخت یا باغات کاٹنے سے روکنا ممکن نہیں
ہاں لیکن ملتان میں 1500 سے 1600 ایکڑ رقبہ ایسا ہے جس پر باغات ہیں اور یہاں کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں دی گئی

آم کے زمینداروں کی ایسوسی ایشن کا موقف
اMango Growers ایسوسی ایشن کے صدر طارق خان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے اپنی منشاء سے زمینیں اور باغات فروخت کی ہیں اور لا محالہ ان لوگوں نے اپنا فائدہ سوچا جن کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہے باغات سے ہمیں خاطر خواہ آمدن نہ ہونے کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا۔

پراپرٹی ڈیلر کیا کہتے ہیں؟

شہر کے معروف پراپرٹی ڈیلرز کے نمائندے محمد پرویز نے بتایا کہ جس رقبے کی قیمت 20 سے 35 لاکھ فی ایکڑ تھی وہی رقبہ ڈی ایچ اے شروع ہونے کے بعد ایک کروڑ تک بکا اور آج یہ نرخ دو کروڑ تک جا پہنچے ہیں لوگوں نے کئی گنا زیادہ منافع لے کر نہ صرف رقبہ فروخت کیا بلکہ ان کو پلاٹ بھی حاصل ہو گئے۔

ایک بڑے زمیندار سے بات
میری ملتان کے ایک بڑے زمیندار سے بات ہوئی ، جس نے اپنا 200 ایکڑ رقبہ ڈی ایچ اے کو فروخت کیا جس میں سے صرف 40 ایکڑ پر آم کے درخت کھڑے تھے
اس کا کہنا تھا کہ میں نے یہ 200 ایکڑ بیچ کر رحیم یار خان میں 600 ایکڑ رقبہ خرید کر اس پر آم کے پودے کاشت کر لئے اس طرح میں تو ہر لحاظ سے فائدے میں رہا

DHA اور آم کے باغات
ڈی ایچ کے قبضے میں اس وقت 7000 ایکڑ زمین موجود ہے جو کئی سیکٹرز پر مشتمل ہے اس میں سے تقریبا 400 سے 500 ایکڑ رقبہ ایسا ہے جس پر وقت خرید آم کے باغات موجود تھے
محکمہ مال کا ریکارڈ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جس کھتونی میں باغات تھے وہاں آج بھی سرسبز و شاداب درخت کھڑے ہیں اس کے سیکٹر A , H B2 اور D میں باغات ہیں
درخت کٹے یا نہیں،
ڈی ایچ اے کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے یہ رقبہ خریدا گیا ہے صرف وہ درخت کاٹے گئے جہاں سڑک بنائی  گئی اور پالیسی یہ وضع کی گئئ کہ اگر ایک درخت کاٹا جائے گا تو اس کے نعم البدل کے طور پر دس پودے اگائے جائیں گے۔

90 ہزار درخت کاٹنے کے الزام کی حقیقت
اگر یہ الزام سچ مان لیا جائے کہ جو تصاویر اور ویڈیو وائرل ہوئی  ،اس کے مطابق ڈی ایچ اے انتظامیہ نے 90 ہزار درخت کاٹ ڈالے تو دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کتنے رقبے پر باغات موجود تھے اور اب موقع ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ کتنے کاٹ ڈالے گئے۔
ڈی ایچ اے کے ترجمان کے مطابق اگر 500 ایکڑ پر باغات ہوں تو ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔
زرعی ماہرین کے مطابق فی الوقت جو طریقہ رائج ہے اس کے مطابق فی ایکڑ کم سے کم 23 پودے اور زیادہ سے زیادہ 76 آم کے پودے لگائے جاتے ہیں۔
ہاں اگر جدید ترین طریقہ ہائے کاشت استعمال کئے جائیں تو پھر فی ایکڑ یہ پودے سینکڑوں میں لگائے جا سکتے ہیں۔
لہذا اگر 500 ایکڑ پر موجود باغات میں فی ایکڑ 76 درخت بھی لگے ہوں تو ان کی کل تعداد 38 ہزار بنتی ہے۔
تو پھر 90 ہزار درخت کہاں سے کاٹے گئے ؟

مینگو Enclave
ڈی ایچ اے ترجمان کا کہنا ہے کہ باغات پر مشتمل سیکٹر کو Mango Enclave بنا دیا گیا ہے جو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور بے مثال رہائشی منصوبہ ہے اگر آپ Google پہ جا کے Mango Enclave لکھیں تو آپ کے سامنے DHA ملتان میں قائم یہ اینکلیو دکھائی  دے گا۔

یہاں ایک دلکش طرز زندگی آپ کا منتظر ہے جہاں آپ چہل قدمی کرتے ہوئے نکلیں تو چاروں طرف آم کے سرسبز و شاداب اور گھنے درخت ملیں گے

مینگو تھیم پارکس
ڈی ایچ اے انتظامیہ نے آم کے باغات کی ترویج اور مینگو کلچر کو پروان چڑھانے کی خاطر 7 تھیم پارکس بنا دئیے ہیں جو مستقبل میں سیاحوں کے لئے ایک پرکشش مقام بن کر ابھریں گے۔

انہی درختوں کے جھنڈ میں ایک خوب صورت چڑیا گھر بھی زیر تکمیل ہے جو اپنے فطری ماحول کے باعث دیکھنے کے لائق ہو گا

عالمی سمپوزیم کا انعقاد
ڈی ایچ اے انتظامیہ نے پچھلے برس بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے اشتراک سے ایک عالمی سمپوزیم کا انعقاد کروایا جس میں ماحولیات کی بہتری درختوں کی اہمیت اور پاکستانی آموں کی بین الاقوامی منڈیوں تک بہتر پروجیکشن جیسے موضوعات پر بات ہوئی۔

50 ایکڑ پر محیط آم کی نرسری
ڈی ایچ اے میں 50 ایکڑ رقبے کو آم کے پودوں کی کاشت اور اس کی جدید طریقوں کے مطابق افزائش کے لئے وقف کر دیا گیا ہے یہاں قائم نرسری کو جدید خطوط پر مزین کیا گیا ہے۔

مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سے گفتگو
میں نے خاص طور پر رابطہ کیا Mango research institute Shuja Abadکے ڈائرکٹر سے جو کہ ملتان کا سب سے قدیم ادارہ ہے
ان سے درخواست کی جو شور مچا ہے سوشل میڈیا پر کہ ملتان میں آم کے درختوں کا قتل عام جاری ہے تو اس ضمن میں آپ کیا کہتے ہیں
ان نے بات کا آغاز ہی خوبصورت انداز میں کیا
کہنے لگے
رقبے کو فروخت کرنے والا خود آم کا کاشتکار
اس سے فائدہ اٹھانے والا بھی کاشتکار
اور اس کے خلاف واویلا کرنے والا بھی کاشتکار
ان کا کہنا تھا ملتان تو آموں کا گھر ہے آپ جس سمت کا رخ بھی کریں گے آپ کو آم ہی آم ملیں گے
اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ملتان میں آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے لہذا گھروں کی تعمیر کے لیے اب رقبہ تو درکار ہے اور لامحالہ اس کی زد میں یا تو زرعی زمینیں آئیں گی یا پھر آم کے باغات۔

انہوں  نے واضح کیا کہ اگر ملتان کے کاشتکاروں نے رقبہ فروخت کیا ہے تو حقیقت یہ بھی یے کہ اس کے بدلے میں بہت سے باغات نئے بھی لگ چکے ہیں
اور یہ زیادہ خوش آئند بات ہے کہ برسوں سے پرانے طریقوں پر رائج باغات کو اب کانٹ چھانٹ اور تبدیلی کی ضرورت تھی

اگر نئے باغات کو جدید خطوط پر مزین کیا جائے تو فی ایکڑ نہ صرف پودے زیادہ لگائے جا سکتے ہیں بلکہ آم کی پیدوار میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے
لہذا اگر کاشتکاروں نے بہتر نرخ لے کر اپنا رقبہ فروخت کردیا ہے تو وہ اب زیادہ بہتر طریقے سے آم کے باغات لگا سکتے ہیں اور جدت لا کر زیادہ نفع کما سکتے ہیں

ڈی ایچ اے نرسری اور ان کا موقف
ان کا کہنا تھا کہ اگر ڈی ایچ اے نرسری بناتی ہے تو اچھا ہے لیکن یہ اس کا فیلڈ نہیں

پیارے پڑھنے والو
اس معاملے کے سارے پہلو آپ کے سامنے رکھ دئیے گئے ہیں خلاصہ درج ذیل ہے
1۔ ملتان میں صرف ڈی ایچ اے اکیلی سوسائٹی نہیں دیگر بے شمار ہاؤسنگ سوسائیٹیز موجود ہیں
2۔ درخت کاٹنے کی تصاویر اور ویڈیو سٹی ہاؤسنگ کی ہے جس کا کوئی  نام نہیں لیتا
3۔ مقامی لوگوں نے پانچ گنا منافع کما کر اپنا رقبہ اور باغات فروخت کئے
4۔ ڈی ایچ اے انتظامیہ کے بقول 500 ایکڑ پر آم کے باغات قائم ہیں جہاں سے حاصل ہونے والے آموں کو ہر سال برآمد کیا جاتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

حاصل بحث
کچھ دوست کہتے ہیں زرخیز زمین پر ڈی ایچ اے بسایا ہی کیوں
تو دوستو بات یہ ہے کہ اس ملک میں یا تو قانون سازی کر لی جاتی کہ زرعی زمین ہو یا باغات اسے ہر گز کمرشل بنیادوں پر اور خاص طور پر ھاوسنگ سوسائیٹیز کو فروخت نہیں کیا جاسکتا پھر اعتراض بنتا
اب یہ حقیقت ہے کہ مقامی لوگوں نے برضا و رغبت منافع کما کر رقبہ فروخت کر دیا
اب اگر کچھ دوست محض پاک فوج اور حکومت کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں تو میدان کھلا ہے!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply