ایسے لوگ جو اچھوتے لیکن متعلقہ سوال پوچھ سکیں، نایاب ہیں۔ اور ایسے لوگ ہی چھپی ہوئی ازمپشن ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ان لوگوں کو ہم وژنری کہہ سکتے ہیں۔ اور ایسا نہیں کہ یہ دوسروں سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ اچھا سائنسدان ہونے کے لئے یہ صلاحیت ضروری نہیں۔ اچھا سائنسدان ہونا کسی فن کے ماہر کاریگر ہونے کی طرح ہے۔ اپنے پیشے کی مہارتیں اور طریقے سیکھے جاتے ہیں۔
اچھوتے سوال جب غیرتربیت یافتہ لوگوں کی طرف سے آئیں تو یہ وقت کا ضیاع ہوتے ہیں، کیونکہ ان سوالات کی بنیاد لاعلمی پر ہوتی ہے۔ اس لئے اچھا وژنری سائنسدان وہ ہے جو اپنے پیشے میں تربیت یافتہ ہو۔ اس کی ایک مثال آئن سٹائن تھے۔
آئن سٹائن اپنے کیرئیر کے آغاز میں اچھی ملازمت حاصل نہیں کر سکے تھے اور اس کی وجہ تھی۔ آئن سٹائن حاضر جواب نہیں تھے۔ سوچنے میں برق رفتار نہیں تھے۔ جلد کنفیوز ہو جاتے تھے اور کئی دوسرے ریاضی میں ان سے بہتر تھے۔ آئن سٹائن خود اپنے بارے میں کہتے ہیں۔ “ایسا نہیں کہ میں بہت سمارٹ ہوں۔ صرف یہ کہ میں ایک مسئلے کے پیچھے دوسروں سے زیادہ وقت صرف کرتا ہوں”۔
نیلز بوہر اس سے بھی زیادہ ایکسٹریم کیس ہیں۔ مورخ مارا بیلر نے ان کے کام کو تفصیل سے پڑھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ریسرچ نوٹ بکس پر تصاویر بنی ہیں اور تحریری دلائل لکھے ہیں۔ لیکن ایک بھی کیلکولیشن نہیں ہے۔
ڈی بروئیے نے ایک زبردست تجویز دی تھی کہ اگر روشنی پارٹیکل بھی ہے اور لہر بھی تو شاید الیکٹرون اور دوسرے ذرات بھی لہر جیسی خاصیت دکھاتے ہوں۔ یہ ان کا 1924 کا پی ایچ ڈی تھیسس تھا۔ وہ اس میں فیل ہو جاتے اگر آئن سٹائن ان کو سپورٹ نہ کرتے۔ اس بڑی تجویز کے بعد ان کا فزکس میں کوئی بھی حصہ نہیں۔
آئزک نیوٹن ایسے سائنسدان تھے جو بیک وقت وژنری بھی تھے اور اپنے وقت کے بہترین ریاضی دان بھی۔
اس لئے وژنری سائنسدان کا کوئی خاص سانچہ نہیں۔ صرف یہ کہ سب سے پہلے اپنے فن میں مہارت حاصل کئے جانا ضروری ہے۔ (غیرماہر وژنری نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا مطلب تکے لگانا نہیں ہے)۔ جب بڑے خیالات کامیاب ہو جائیں تو صاحبِ بصیرت کہلائے جاتے ہیں اور جب کامیاب نہ ہوں تو “کچھ اور”۔
کسی بھی صحتمند گروپ کی طرح، سائنس میں بھی روایت کے احترام اور بغاوت کا توازن درکار ہے۔ ریڈیکل اور کنزورویٹو کا مکالمہ ہمیشہ سے رہے گا۔ باغی کبھی بھی پسند نہیں کئے جاتے۔ کامیاب گروہ وہ ہیں جہاں ان کو برداشت کر لیا جاتا ہے۔ کیونکہ خود ڈیفی نیشن کے مطابق ہی اچھوتے خیال مین سٹریم سے نہیں آ سکتے۔ جب تک یہ جاری رہتا ہے، ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن کی شخصیت کا ایک اور پہلو ان کے علم کے تنوع کا تھا۔ نہ صرف وہ کانٹ کے خیالات سے اچھی طرح واقف تھے بلکہ لائبنز اور نیوٹن کے تنازعے کی تاریخ سے بھی۔ اس وجہ سے ان کے لئے ریلیٹویٹی تک پہنچنا کسی دوسرے کے مقابلے میں آسان تھا، کیونکہ اس تاریخ سے واقفیت کی وجہ سے انہیں اس بارے میں چھپی ازمپشن کا علم تھا۔ ان کے لکھے ایک خط سے اقتباس۔
“میں اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ سائنس کی تاریخ اور فلسفہ اور طریقہ جاننے کی بڑی اہمیت ہے۔ لگتا ہے کہ آج کل اتنے زیادہ لوگ ایسے ہیں ۔۔۔ اور ان میں بہترین پروفیشنل سائنسدان بھی ہیں ۔۔۔ جنہوں نے ہزاروں درخت تو دیکھے ہیں لیکن جنگل کبھی نہیں دیکھا۔ تاریخی اور فلسفانہ پس منظر کا علم آج کے مروجہ تعصبات سے آزادی ممکن کرتا ہے جس کا شکار زیادہ تر سائنسدان ہوتے ہیں۔ میری رائے میں یہ آزادی ایک کاریگر یا سپیشلسٹ کو سچ کے طالب سے الگ کرتی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کونسا طریقہ بہتر ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔ بہترین سائنسدان کے لئے بھی نہ تاریخ جاننا ضروری ہے اور نہ فلسفہ۔
وژنری سائنسدانوں کے بہت سے بڑے خیالات غلط نکلتے ہیں۔ لیکن کوہنین انقلاب یا پیراڈائم شفٹ نارمل سائنس کے طریقے سے نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جہاں پر ہم غلط ہوتے ہیں، وہاں پر بڑے خیالات ہی ہمیں نکال سکتے ہیں۔ اس وجہ سے متفرق خیالات پر اہم ہیں۔
اور سائنس میں کمیونیٹی بنانے کا کام بھی کبھی بھی مکمل نہیں ہو گا۔ ہمیشہ قدامت پسندی، فیشن، سٹیٹس، اتھارٹی سے کشمکش رہے گی۔ کل کے باغی آج کی اسٹیبلشمنٹ ہوں گے۔ اصلاح در اصلاح کا عمل جاری رہے گا۔ کمیونیٹی بہترین کام اس وقت کرتی ہے جب یہ ہمارے غرور اور جذبے، خواہش اور بے چینی کے بہترین پہلووٗں سے فائدہ اٹھا سکے۔ رچرڈ فائنمین کے الفاظ میں، “سائنس ماہرین کی آراء پر اعتبار کے معاملے میں منظم تشکیک کا طریقہ ہے”۔
آج ہم بنیادی خیالات کے بارے میں اچھی پیشرفت نہیں کر پا رہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ دلچسپ ترین وقت ہے کیونکہ اب فاوٗندیشنل سوالات کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے۔ اور یہ دلچسپ کیوں ہے؟ کیونکہ سائنس کی پوری انٹرپرائز کا بڑا اور بنیادی سوال عملی نہیں، فاونڈیشنل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ،
“کائنات کام کیسے کرتی ہے؟”
اور انسان کے لئے یہی تو سائنس کی کشش ہے۔
Facebook Comments