غلطیاں؟ (18)۔۔وہاراامباکر

نہ صرف سائنس سے ہم اصولی طور پر “ٹروتھ” تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ ماضی بعید اور قریب میں ہم غلطیاں کر چکے ہیں۔ ایسی غلطیوں کو سائنسدان نظرانداز اس لئے کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہی شعبے کی تاریخ پڑھنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ اگر اپنے شعبے کے ماضی کو پڑھ لیتے تو یہ جلد ہی جان لیتے کہ ہر دور میں لوگ یہ اعتماد رکھتے رہے ہیں کہ ان کے پیشرو غلط تھے لیکن وہ خود درست ہیں۔ تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی اس حقیقت کو واضح کر دیتا ہے کہ اس گمان کی ایسی کوئی وجہ نہیں جس بنیاد پر ہم یہ کہہ دیں کہ ہم انسانی تاریخ میں کوئی خاص اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ یہ کہانی اسی طریقے سے جاری نہ رہے۔
اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ اسی حققیت کو جب ہم دوسرے نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو یہ بتاتا ہے کہ سائنس اپنی غلطیوں کی تصصیح کرنے والی اور علم جمع کرتے جانے والی کاوش ہے۔ آج کی بڑی غلطیوں کو آئندہ برسوں اور دہائیوں میں ٹھیک کرنے کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن نے کہا تھا، “اس بات کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں کہ ایٹم سے توانائی کبھی بھی حاصل سکے گی۔ یا لارڈ کیلون (جو انیسویں صدی کے بہترین سائنسدانوں میں سے تھے) کا کہنا تھا کہ “مجھے یقین ہے کہ ایکس رے اصل شے نہیں۔ یہ دھوکا ثابت ہوں گی”۔ یا آسٹرونومر رچرڈ وولی، جنہوں نے 1956 میں کہا تھا، “خلائی سفر کے بارے میں ہونے والی یہ باتیں بالکل بکواس ہیں”۔ اس سے پانچ سال بعد یوری گیگرین خلا میں جانے والے پہلے شخص بن چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کی مایوس کن ناکامی اور اس کے بعد ہونے والی زبردست کامیابی کی ایک مثال لارڈ کیلون (سر ولیم تھامپسن) اور چارلس ڈارون کی زمین کی عمر کے بارے میں ہونے والے تنازعے کی ہے۔
تھامپسن ہر لحاظ سے بہت متاثر کن شخصیت تھے۔ بہترین سائنسدان اور قابلِ تعریف انسان۔ یہاں تک کہ تھامس ہکلسے (جو ہر وقت لڑنے کو تیار رہتے تھے) نے بھی ان کے ساتھ لڑائی کے باوجود ان کے مہذب رویے پر ان کی تعریف کی ہے۔ مہذب یا غیرمہذب، ان کا ایک مسئلہ ڈارون کے ساتھ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ڈارون کی تھیوری کی پیشگوئی تھی کہ زمین کی عمررسیدہ ہے۔ بہت ہی عمررسیدہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشپ اوشر کے اس خیال کہ زمین تئیس اکتوبر 4004 قبلِ مسیح کو تو خیر کوئی بھی سنجیدہ نہیں لیتا تھا لیکن اس وقت یہ پتا نہیں تھا کہ اس کی عمر کتنی ہے۔ (اوشر نے سترہویں صدی میں اس کو بائبل میں آنے والے ناموں کو ترتیب میں رکھ کر نکالا تھا)۔
تھامپسن سائنسی طریقے سے زمین کی عمر معلوم کرنا چاہتے تھے۔ اپنے وقت کے سب سے بااثر فزسسٹ تھے، جن کے کئی کارناموں میں ایک کلاسیس کے ساتھ ملکر تھرموڈائنامکس کے دوسرے قانون کی دریافت بھی ہے جو فزکس کی تاریخ کا سب سے بنیادی اصول ہے۔ ان کی بات کو نظرانداز کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔
تھامپسن نے اس کیلکولیشن کے لئے جو بنیادی مفروضہ لیا، وہ اس وقت معقول تھا۔ سورج ایک بڑی موم بتی کی طرح ایندھن خرچ کر رہا ہے۔ اس کے سائز اور ماس کے اچھا تخمینے کی مدد سے تھامپسن نے جو نتیجہ نکالا، وہ یہ کہ اس کی عمر دس کروڑ سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ فاسل ریکارڈ سے حاصل کردہ ڈیٹا کے لئے یہ وقت ڈاروینین ارتقا کے لئے کافی نہیں تھا۔ ڈارون ریاضی میں اچھے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے جارج کو تھامپسن کی کیلکولیشن کی پڑتال کیلئے کہا۔ اس کا نتیجہ؟ تھامپسن کا طریقہ کار اور اس کا نتیجہ درست تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارون نے اپنی تھیوری ترک نہیں کی۔ ان کے پاس اس کے حق میں بہت سے ایمپیریکل شواہد تھے۔ انہوں نے یہ فرض کر لیا کہ تھامپسن کی کیلکولیشن میں کہیں کچھ غلطی ہے۔
جیسا کہ بعد میں جا کر معلوم ہوا کہ ستاروں کی روشنی کیمیائی نہیں بلکہ نیوکلئیر ہے، جو ہائیڈروجن اور دوسرے عناصر کے ادغام سے آتی ہے (اس کا انحصار ستارے کی عمر اور قسم پر ہے)۔ انیسویں صدی کے آخر میں ریڈیو ایکٹیویٹی دریافت ہوئی۔ جارج ڈارون نے اس پر نیچر میں مضمون لکھا کہ ان کے والد کا تھامپسن کے نتیجے پر کیا جانے والا شک درست تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کہانی کا بنیادی خیال یہ نہیں کہ تھامپسن غلط تھے یا ڈارون درست تھے۔ بلکہ یہ سائنس کی نیچر ہے۔ بیک وقت متضاد نتائج کا ہونا غیرمعمولی نہیں۔ تھامپسن کی ستاروں کی ایندھن کی تھیوری اپنے بنیادی مفروضے کی غلطی کی وجہ سے ختم ہو گئی۔
دوسری طرف، اپنی تمام شخصی خوبیوں کے باوجود تھامپسن نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ وہ غلط ہے۔ اور یہ ہمیں ایک اور نکتے کا بتاتا ہے کہ سائنسدان بھی اتنے ہی آبجیکٹو ہوتے ہیں جتنے میں، آپ یا میرا ہمسایہ (جو بہت معقول انسان ہے)۔
سائنسدان معروضیت کی مشین نہیں ہوتے۔ ان کی بھی وہی خواہشات اور ترغیبات ہیں جو دنیا کے کسی بھی اور انسان کی۔ (شہرت، دولت، اچھا شریکِ حیات وغیرہ وغیرہ)۔ لیکن سائنس بالکل درست طور پر یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ یہ نیم آبجیکٹو ہے۔
بڑا نکتہ یہ نہیں کہ لارڈ کیلون یا آئن سٹائن جیسے سائنس کے عظیم ترین نام بھی اپنے ہی مہارت کے شعبے کے بارے میں غلط نکلے۔ بڑا نکتہ یہ ہے کہ لارڈ کیلون یا آئن سٹائن جیسے سائنس کے عظیم ترین نام بھی جہاں غلط تھے، وہاں پر ان کے خیالات باقی نہیں رہے۔
ہم آگے بڑھ گئے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply