• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کے۔ٹو حادثے کا فکسڈ لائن کے تناظر میں تجزیہ۔۔عمران حیدر تھہیم

کے۔ٹو حادثے کا فکسڈ لائن کے تناظر میں تجزیہ۔۔عمران حیدر تھہیم

کوہ پیمائی ایک ایسا کھیل ہے جس میں باقاعدہ تحریری قواعد و ضوابط نہیں ہوتے بلکہ ہر پہاڑ کے مطابق اُسکے Base Camp کے زمینی حقائق، موسمی حالات اور اُس خاص وقت میں وہاں پر موجود کوہ پیماؤں کی ٹیمز کے مابین باہمی تعاون اور تال میل کے ذریعے روایات اور اخلاقیات کے مُسلّمہ اُصولوں کے مطابق summit push کو improvise کیا جاتا ہے۔ مُہم جُوئی پر آئی کوہ پیماؤں کی ٹیمز مختلف قومیتوں پر مشتمل اور مختلف ٹُور آپریٹرز کے زیرِ اہتمام ہوتی ہیں۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اُن کا آپس میں کوئی باقاعدہ مقابلہ تو نہیں ہوتا لیکن پیشہ ورانہ رقابت ضرور ہوتی ہے جو کہ زیادہ تر مثبت لیکن کبھی کبھار منفی درجے کی بھی ہو سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آج دو مختلف ٹمیز کے ممبر ماضی میں کسی دیگر مُہم جُوئی میں ایک ہی ٹیم کے ساتھی رہے ہوں اور آج کے ساتھی کل الگ ہو کر کسی اور کے ساتھ teamed-up ہو جائیں۔ کوہ پیمائی کے کھیل میں یہ معمول کی بات ہے۔

پاکستان میں اس سال K2 کی سرمائی مُہم جُوئی پر مختلف قومیتوں کے کُل 60 کے قریب کوہ پیماؤں نے قسمت آزمائی کی۔
آئس لینڈ کے جان سنوری، علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ پر مشتمل 3 رُکنی ٹیم 5 دسمبر جبکہ نیپالی شرپاؤں سمیت باقی تمام کوہ پیماؤں کی مختلف ٹیمز کرسمس یعنی 25 دسمبر کے بعد K2 کے BaseCamp پر پہنچیں۔

جیسا کہ مَیں نے عرض کیا کہ کوہ پیمائی کے کھیل میں حتمی کچھ نہیں ہوتا بلکہ مختلف possibilities ہوتی ہیں جو حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں اور کوہ پیما اُس کے مطابق پہاڑ پر اپنی حکمتِ عملی میں improvisation کرتے رہتے ہیں، بعض اوقات تو ٹیمز میں بھی ردّوبدل ہو جاتا ہے حتّیٰ کہ کلائمبنگ رُوٹس بھی تبدیل ہو جاتے ہیں جیسا کہ 2019 کی پولش ٹیم کی سرمائی کوشش ابتدا میں چیزن رُوٹ Cesan Route کے ذریعے تھی جو بعد ازاں Abruzzi Route پر شفٹ ہوگئی تھی تاہم ناکام رہی۔
ہمیشہ کی طرح اس سال کی K2 مُہم جُوئی میں بھی آخر تک کوہ پیماؤں کی improvisation جاری رہی۔

ابتداء  میں نیپالی شرپاؤں کی تین الگ الگ ٹیمز تھیں جن میں سیون سمٹ ٹریکس SST ، امیجن نیپال Imagine Nepal اور Nims Dai کی اپنی الگ ٹیم تھی۔ لیکن 14 جنوری کی summit push سے پہلے یہ تینوں ٹیمز merge ہوگئیں اور 10 شرپاؤں پر مشتمل ایک All Nepalese Sherpa Team نے 16 جنوری کو سمٹ کی۔

اِسی طرح اٹلی کی خاتون کوہ پیما Tamara Lunger اور رومانیہ کے Alex Gavan ایک ٹیم تھے جبکہ چلّی کے Juan Pablo اور سپینش کوہ پیما Surgie Mangote ایک الگ ٹیم تھے. نیپالیوں کی سمٹ والے دن Surgie Mingote کیپ۔1 سے گِرے اور Advance BaseCamp یعنی ABC تک لُڑھکتے ہوئے آئے جس سے سر میں چوٹ لگنے کے باعث اُنکی موت واقع ہوگئی۔ Sergie Mingote کی Alex Gavan کے ساتھ بہت زیادہ دوستی تھی چنانچہ Alex اپنے دوست کی موت کے دُکھ کو جھیل نہ پایا اور Tamara اور K2 کی مُہم جُوئی دونوں کو چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ نتیجتاً Tamara Lunger نے مرحوم Sugie Mingote کے بچ جانے والے ساتھی Juan Pablo کے ساتھ نئی ٹیم بنائی اور 3 فروری والی summit push میں کیمپ۔3 تک پہنچی۔ وہاں دونوں نے جان سنوری کی ٹیم کے ساتھ اُنکے ٹینٹ میں پناہ لی لیکن Tamara نے exaustion کے باعث اپنی summit push ختم کردی اور SST کی کلائنٹ کلائمبرز ٹیم کے ہمراہ نیچے اُتر آئی جبکہ اُسکے نئے ساتھی Juan Pablo نے جان سنوری اور علی سدپارہ کے ساتھ مزید بُلندی کا سفر جاری رکھا اور بالآخر یہ تینوں ہی ڈیتھ زون میں لاپتہ ہو گئے۔

اِس ساری تمہید کا مقصد آپ کو improvisation سے رُوشناس کروانا تھا کہ کوہ پیمائی میں آن فیلڈ کوئی بھی بات حتمی نہیں ہوتی اور پہاڑ چڑھنے کی حکمتِ عملی fragile یا recurrent ہوتی ہے۔
اب آتے ہیں فکسڈ لائن کے موضوع کی طرف۔۔۔

جتنے بھی بڑے ٹیکنیکل پہاڑ ہیں اُن پر کوہ پیمائی کے سازوسامان یعنی mountaineering equipment کے استعمال کے بغیر چڑھائی ناممکن ہوتی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے سیفٹی کو یقینی بنایا جاتا ہے جس میں کوہ پیما کےلیے سب سے بُنیادی سیفٹی یا یُوں کہہ لیجیے کہ اُسکی لائف لائن رسّی لگا کر بنائی گئی ایک فکسڈ لائن ہے۔ پہاڑ کی steepness کو مدّنظر رکھ کر ایک کیمپ سائیٹ سے دوسری کیمپ سائیٹ تک ice-screwing اور دیگر mountaineering tools کے ذریعے ایک فکسڈ لائن لگائی جاتی ہے جس پر سیفٹی کے ساتھ کوہ پیما چڑھائی کرتے ہیں۔ یہ فکسڈ لائن ٹاپ لیول کے کوہ پیما لگاتے ہیں جنہیں lead climber کہا جاتا ہے۔ اُنہوں نے اِس کام کے سپیشل ٹیکنیکل کورسز کیے ہوتے ہیں۔

اگر بات K2 جیسے پہاڑ کی مُہم جُوئی کی ہو تو اِس کےلیے مُہم جُوئی کرنے والے تقریباً تمام کوہ پیما اِتنے تربیت یافتہ لازمی ہوتے ہیں کہ وہ ضرورت پڑنے پر فکسڈ لائن خُود لگانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر کوئی نان ٹیکنیکل اور غیر تربیت یافتہ کھلاڑی بھی محض فٹنس کے بل بوتے پر کلائمبنگ کر سکتا ہے لیکن K2 پر ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ صرف ٹیکنکل کلائمبر ہی یہاں کامیاب ہو سکتا ہے۔ نان ٹیکنیکل تو اِس طرف سوچے بھی نہ۔

اِس سال K2 پر آئی ہوئی ٹیمز میں سب سے پہلے جان سنوری اور علی سدپارہ ٹیم نے ABC یعنی 5300 میٹر سے کیمپ 3 یعنی 7300 میٹر تک 5 دسمبر سے 13 جنوری کے درمیان رسّی لگائی اور اسی دوران اپنی acclimatization بھی مُکمّل کی۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر جان سنوری نے 14 جنوری کی weather window کو استعمال نہیں کیا اور summit push نہیں کی جبکہ نیپالی ٹیم نے اِس قیمتی موقع کو استعمال کیا اور 16 جنوری کو سمٹ کر ڈالی۔ فکسڈ لائن کی تنصیب کا جائزہ لیں تو دستیاب معلومات کے مطابق ABC سے کیمپ 3 تک علی سدپارہ کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن کو باقی تمام نے استعمال کیا جبکہ وہاں سے آگے یعنی 7300 میٹر سے 8611 میٹر یعنی K2 کی سمٹ تک جتنی بھی فکسڈ لائن تھی اُسے نیپالی شرپاؤں نے اپنے ذمّے لیا تھا۔ تمام 10 شرپاؤں نے اپنے اپنے حصّے تقسیم کر لیے تھی اور رسّی لگانی تھی۔ اِس ضمن میں یقیناً تمام stakeholders کی باہمی رضامندی شامل ہوگی۔ مُجھے قوی یقین ہے کہ نیپالی شرپاؤں نے علی سدپارہ کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن جان سنوری سے یہ کہہ کر استعمال کی ہوگی کہ کیمپ۔3 سے آگے جو فکسڈ لائن ہم لگائیں گے وہ آپ بھی استعمال کر لینا۔ لہٰذا فکسڈ لائن کے معاملے میں یہ باہمی تعاون زبانی طور پر طے کیا گیا ہوگا۔ جبھی تو جان سنوری نے اپنی summit push کے دوران یہ بتایا تھا کہ ڈیتھ زون کےلیے مُجھ سے Nims Dai نے 700 میٹر رسّی لی تھی اور ہم وہی فکسڈ لائن استعمال کریں گے۔ اب چونکہ جان سنوری ٹیم ڈیتھ زون میں لاپتہ ہوئی ہے لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ وہ نیپالیوں کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن کے رحم و کرم پر ہی تھے۔

یہ بات تو طے ہے کہ کیمپ 3 سے bottleneck تک لازمی فکسڈ لائن لگی ہوئی تھی کیونکہ اگر نہ لگی ہوتی تو ساجد سدپارہ لازمی بتا دیتے کہ رسّی نہیں لگی تھی۔ اُنہوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کیمپ 3 سے 8200 میٹر تک جہاں پر وہ جان سنوری ٹیم کو چھوڑ کے واپس آگیا تھا فکسڈ لائن موجود تھی۔

یہاں دو اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔۔۔
پہلا سوال یہ کہ کیا bottleneck section سے آگے traverse section پر فکسڈ لائن تھی یا نہیں؟
اور دوسرا سوال یہ کہ کیا فکسڈ لائن کو واپسی پر withdraw تو نہیں کرلیا گیا تھا؟

اِن دونوں سوالات کے جوابات یا نیپالیوں کے پاس ہیں یا پھر تین لاپتہ کوہ پیماؤں کے پاس۔ ساجد سدپارہ کے پاس اسکا جواب ہرگز نہیں ہے کیونکہ وہ 8250 میٹر سے آگے نہیں گیا اور traverse وہاں سے بھی اُوپر 8410 میٹر کے آس پاس ہے۔ جہاں سے ساجد سدپارہ واپس ہوا وہاں سے traverse کی فکسڈ لائن نظر نہیں آتی کہ آیا intact ہے یا نہیں۔ یہ جاننے کےلیے وہیں جانا پڑتا ہے۔
آئیے اب اسی فکسڈ لائن کے معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔۔۔

فرض کریں کہ bottleneck سے آگے traverse section پر فکسڈ لائن لگائی ہی نہیں گئی تھی اور نیپالیوں نے وہاں سے سمٹ تک free climb یعنی فکسڈ لائن کے بغیر چڑھائی کی، تو کیا یہ ممکن ہے؟

اِسکا جواب ہے کہ جی ہاں ممکن ہے۔
وہ اسطرح کہ بعض اوقات bottle neck سے نکلتے ہی traverse پر تازہ برف یا powder snow ہوتی ہے جس پر free climb آسان ہوتی ہے۔ تجربہ کار کوہ پیما وہاں سے بغیر فکسڈ لائن کے نکل جاتے ہیں۔ لیکن اکثر اِس جگہ پر blue ice یعنی پکّی برف ہوتی ہے جس پر پاؤں مُشکل سے ٹِکتے ہیں لہٰذا پِھسلنے سے بچنے کےلیے اکثر فکسڈ لائن ہی لگائی جاتی ہے۔

اِس اِمکان کو ردّ نہیں کیا جاسکتا کہ 16 جنوری کو جب نیپالیوں نے سمٹ کی تو اُنہیں وہاں powder snow ملی چنانچہ اُنہوں نے فکسڈ لائن نہیں لگائی اور ویسے بھی وہ اتنے اسٹرانگ کلائمبرز ہیں کہ وہاں سے فری کلائمب کر کے سمٹ کر سکتے ہیں۔ اِس ضمن میں نیپالیوں کی سمٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے موسمِ سرما کی ہمالین کوہ پیمائی کے ماہر سمجھے جانے والے عالمی شہرت یافتہ روسی کوہ پیما Denis Urubko نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ نیپالی اِسوقت خوش قسمت ترین ہیں کہ اُنہیں bottleneck سے آگے powder snow ملی، مُجھے تو ہمیشہ blue ice ہی ملتی رہی ہے۔

ہو سکتا ہے مَیں غلط ہوں لیکن مُجھے لگتا ہے کہ نیپالیوں نے bottleneck سے آگے فکسڈ لائن لگائی ہی نہیں یا پھر پاکستان کے عالمی شُہرت یافتہ کوہ پیما نذیر صابر صاحب کی یہ بات درست ہے کہ نیپالیوں نے عارضی طور پر رسّی لگائی اور واپسی پر retrieve کر لی۔

اِس صُورتحال میں لگتا یہی ہے کہ جب جان سنوری ٹیم وہاں پہنچی تو اُنہیں مجبوراً فری کلائمب کرنا پڑی اور اُنہوں نے یہ رسک بھی لے لیا او

ر نتیجتاً وہ پِھسل کر گِر گئے۔ مُجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ جب bottleneck section پر ٹیم پہنچی تو یقیناً علی سدپارہ ٹیم کی قیادت کر رہے ہونگے لہٰذا جب اُنہوں نے traverse کا جائزہ لیا ہوگا تو اُنہوں نے

اِس انتہائی خطرناک صُورتحال کے پیشِ نظر بھانپ لیا ہوگا کہ چونکہ میرا بیٹا ساجد سدپارہ hallucination میں ہے لہٰذا اُسے اِس خطرے میں نہ ڈالوں اور کم از کم اُسے واپس بھیج دوں۔ لہٰذا باپ کے حُکم پر ساجد سدپارہ نے واپسی شروع کردی اور کیمپ 3 پر پہنچ کر جب اُسکی hallucination ختم ہوئی تو اُس نے نیچے Base Camp پر رابطہ کیا۔

اِن تمام مفروضات کے حق میں فی الحال کوئی ٹھوس ثبوت تو کسی کے پاس نہیں ہیں لیکن اگر اس بارے باقاعدہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کی جائے تو حقائق سامنے آسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ: زیرِ نظر تصویر مُلاحظہ کیجیے traverse bend پر کوہ پیما powder snow کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فری کلائمب کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ اب تصوّر کیجیے اگر اسی جگہ blue ice جسے ہم کوہ پیمائی کی دیسی زبان میں شیشہ برف کہتے ہیں وہ ہو تو کیا یہ موت کا پھندا نہیں؟)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply