جغرافیہ کے قیدی (13) ۔ چین ۔ تبت/وہاراامباکر

ہمالہ کا سلسلہ چین اور انڈیا کی سرحد ہے اور یہ قراقرم تک جا ملتا ہے جو پاکستان، افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر ہے۔ یہ قدرت کی عظیم دیوار ہے۔ دنیا کے دو سب سے بڑے ملک ایک دوسرے کے ساتھ طویل سرحد والے ہمسائے ہیں۔ اور عسکری اور معاشی طور پر کٹے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دونوں کے آپس میں تنازعے ہیں۔ چین انڈیا کے صوبے اروناچل پردیش پر دعویٰ رکھتا ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے اکسائی چن پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اگرچہ اس قدرتی دیوار کے آرپار توپوں کے رخ ایک دوسری کی طرف ہیں لیکن کسی کی ایک دوسرے سے برسرپیکار ہونے کی خاص خواہش نہیں رہی۔ (آخری بار یہ 1962 میں ہوا تھا جب بڑے پیمانے پر پہاڑوں میں لڑائی ہوئی تھی)۔ لیکن کشیدگی ہمیشہ رہتی ہے اور دونوں اطراف اس کے ساتھ احتیاط سے معاملہ کرتی ہیں۔
صدیوں تک چین اور انڈیا کے درمیان تجارت بہت کم رہی ہے۔ اور ان کی سرحد تبت اور انڈیا کی سرحد ہے اور اس وجہ سے چین اس کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
یہ خوف کی عالمی سیاست ہے۔ اگر چین تبت کو کنٹرول نہ کرے تو اسے خطرہ ہے کہ انڈیا ایسا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو یہ انڈیا کو ایسی بیس فراہم کر دے گا جہاں سے چین کے مرکز میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کے تین بڑے دریاؤں، دریائے زرد، یانگسی اور میکانگ کے سوتے تبت میں ہی ہیں اور اس وجہ سے تبت کو چین کی پانی کی ٹینکی کہا جاتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ اس پر کنٹرول کھو دینا چین کے لئے ناقابل قبول ہے۔
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ انڈیا چین کے دریاؤں کی سپلائی کاٹنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا نہیں۔ لیکن ایسی صلاحیت کا ہونا اہم ہے۔ اور چین صدیوں سے اس کوشش میں رہا ہے کہ ایسا کبھی نہ ہو۔ “آزاد تبت تحریک” یہاں پر چینی قبضے کی ناانصافی کی بات کرتی ہے اور اب ہان النسل لوگوں کو تبت لا بسانے پر احتجاج کرتی ہے لیکن دلائی لامہ، تبت کی تحریک، ہالی وڈ کی فلموں کا مقابلہ کمیونسٹ پارٹی سے ہو تو جیت ایک سائیڈ کی ہی ہونی ہے۔
اور جب مغرب میں رہنے والے (خواہ ہالی وڈ کے ایکٹر ہوں یا امریکی صدر) تبت کی بات کرتے ہیں تو یہ چین کو تنگ کرتا ہے۔ وہ اسے انسانی حقوق کی نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ geopolitical security کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اس علاقے میں چینی سیکورٹی کو خطرہ نہیں، خواہ علیحدگی کی تحریکیں جاری رہیں۔ ڈیموگرافک اور سیاست کی وجہ سے تبت کو آزادی ملنے کا کوئی امکان نہیں ہیں۔
چینی یہاں پر تعمیرات کر رہے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں یہاں سڑکوں کی تعمیر شروع کی گئی تھی اور تبت کو چینی مرکز سے ملایا گیا تھا۔ سڑکیں اور اب ریلوے یہاں کی قدیم بادشاہت کو جدید دنیا سے ملا رہی ہیں اور ساتھ ہان بھی یہاں پہنچ رہے ہیں۔
بہت عرصے تک کہا جاتا رہا کہ تبت کی وادیوں، پہاڑوں اور برف میں ریلوے بنانا ناممکن ہے۔ یورپ کے بہترین انجینر، جنہوں نے کوہِ ایلپس میں ریلوے بنا لی تھی، اس کو ممکن نہیں سمجھتے تھے۔ 1988 میں پال تھیروکس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “کنلن رینج اس چیز کی گارنٹی ہے کہ لہاسا میں ٹرین کبھی نہیں پہنچے گی اور یہ اچھی بات ہے۔ تبت مشینی دور سے دور قدرتی خوبصورتی کی جنت رہے گی”۔ لیکن چینیوں نے یہ بنا لی۔ اس کا افتتاح 2006 میں ہوا۔ شنگھائی اور بیجنگ سے ہر روز چار ٹرینیں لہاسا تک پہنچتی ہیں۔
یہ اپنے ساتھ بہت کچھ لاتی ہیں۔ صارفین کے لئے مال، کمپیوٹر، موبائل فون، ٹیلی ویژن ۔۔ یہ اپنے ساتھ سیاح بھی لاتی ہیں جن سے مقامی معیشت کو تقویت ملتی ہے۔ یہ اس جدید اور غریب علاقے میں جدت بھی لاتی ہیں اور بہتر معیارِ زندگی بھی۔ صحت کی سہولیات بھی اور تبت کی مصنوعات کو باقی دنیا تک بھی لے کر جاتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ کئی ملین ہان آبادکار بھی لے آئی ہیں۔
ایک وقت میں مینچوریا میں مینچورین، منگولیا میں منگولین اور سنکیانگ میں ایغور اکثریت تھی۔ اب ان تینوں علاقوں میں ہان اکثریت ہے۔ شاید تبت میں بھی ایسا ہو جائے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہان کے خلاف ہونے والے مظاہرے شاید جاری رہیں گے۔
چین کے مرکز میں آبادی بہت زیادہ اور گنجان ہے اور یہ باقی علاقوں تک پھیلتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply