آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔۔۔مبشر علی زیدی

جیونیوز کے ابتدائی دنوں میں میرا کام  سپورٹس پروگرام کے  سکرپٹ لکھنا تھا۔ ایک دن مجھے ایک نیا آئیڈیا سوجھا کہ کراچی کے اہم مقامات اور دلچسپ چیزوں پر پروگرام شروع کرنا چاہیے۔ میں نے پورا اسکرپٹ لکھ کر انصار بھائی کو دکھایا کیونکہ میں نے انھیں اس پروگرام کا میزبان تجویز کیا تھا۔
وہ آئیڈیا منظور نہیں کیا گیا کیونکہ اظہر عباس صاحب سمجھتے تھے کہ انصار بھائی کو نیوزروم مینجمنٹ  کے سوا کوئی اور کام نہیں کرنا چاہیے۔ اس پروگرام کے ابتدائیے کے ایک جملے پر انصار بھائی نے مجھے داد دی تھی: مہاجروں کے شہر میں، میں ہوں آپ کا میزبان انصار!

Advertisements
julia rana solicitors london

میں  سپورٹس ڈیسک پر کام کرتا تھا جس کے انچارج ایڈیٹر میرے استاد سید محمد صوفی تھے۔ ایکسپریس میں بھی میری ملازمت انھوں نے کروائی تھی اور جیو میں بھی۔ وہ مجھ پر بہت مہربان تھے لیکن یہ بھی چاہتے تھے کہ میں مستقل طور پر  سپورٹس ڈیسک پر کام کرتا رہوں۔ مجھے احساس تھا کہ ترقی کرنے کے لیے  سپورٹس ڈیسک سے آگے جانا ضروری ہے۔
انصار بھائی مدد کو آئے۔ صوفی صاحب چند دن کی چھٹی پر گئے اور انصار بھائی نے میرا پاسپورٹ منگواکر ارجنٹ ویزا نکلوا لیا۔ یوں میں دبئی پہنچا جہاں سے ان دنوں جیو کی نشریات آن ائیر جاتی تھی۔ اس وقت جیو کا ایک ہی چینل تھا اور اسی پر ڈرامے اور خبریں نشر کی جاتی تھیں۔
اس کے بعد میں چار سال دبئی میں تعینات رہا۔ صرف چھٹی پر کراچی آتا جاتا رہا۔ انصار بھائی دو دو ماہ کے لیے دبئی آتے تھے۔ ان کے ساتھ وہاں دفتر میں بھی کام کیا اور باہر بھی بہت وقت گزارا۔ دل کی باتیں کیں اور نجی مشورے کیے۔
کراچی واپسی کے بعد میں ہیڈلائنز بناکر انصار بھائی کو ضرور دکھاتا تھا۔ انصار بھائی کی نشست سامنے ہی تھی لیکن کبھی کبھی وہ میٹنگ کے لیے پیچھے کے ایک کمرے میں چلے جاتے تھے۔ میں ایک بار ہیڈلائنز لے کر وہاں گیا تو دیکھا کہ انصار بھائی کے سامنے ایک لڑکی بیٹھی رو رہی ہے۔
میں واپس چلا آیا۔ انصار بھائی سے کچھ پوچھنا مناسب نہیں تھا۔ محض اتفاقاً پتا چلا کہ دفتر میں کسی لڑکے اور اس لڑکی میں دوستی تھی لیکن لڑکا اب کہیں اور شادی کررہا ہے۔ انصار بھائی بھلا کیا کرسکتے تھے۔ لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ لڑکی کو ان پر اتنا بھروسا تھا کہ ان کے سامنے دکھڑا رو سکتی تھی۔
سچی بات ہے کہ مجھے دکھ ہوا کہ میں جس انصار بھائی کو صرف اپنا خاص دوست، اپنا ہمدرد اور اپنا رازدار سمجھتا تھا، وہ دوسروں کے لیے بھی ویسے ہی تھے۔
تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں جیونیوز پر زیادہ سے زیادہ کوریج کے لیے نیوزروم فون کرتی تھیں اور اب بھی کرتی ہوں گی۔ انصار بھائی سب کو مناسب طریقے سے ڈیل کرتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتے تھے۔ ان کا تحمل لائق تقلید تھا۔ لیکن کبھی کبھی انہونی ہوجاتی تھی۔
ایک بار کراچی میں سپاہ صحابہ کا جلسہ تھا۔ دہشت گرد جماعت کے متکبر ترجمان نے انھیں فون کیا اور لائیو دکھانے کو کہا۔ براہ راست دکھانے میں خدشہ تھا کہ متعصب مقررین کے قابل اعتراض جملے اور کافر کافر کے نعرے آن ائیر نہ چلے جائیں۔ انصار بھائی نے پہلے خوش اخلاقی سے سمجھایا کہ ہم ریکارڈ کررہے ہیں۔ بعد میں خبر نشر کردیں گے۔ لیکن ترجمان نے بدتمیزی کی تو انصار بھائی نے فون پر اس کی طبیعت صاف کردی۔
اس کے بعد دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سپاہ صحابہ کے شدت پسندوں کو یاد آیا کہ انصار بھائی کے نام میں نقوی آتا ہے۔ انھوں نے ان کا نام، فون نمبر، حد یہ کہ وہ کہاں رہتے ہیں، یہ سب پھیلادیا۔ انصار بھائی کے فون پر اتنی کالز آئیں کہ انھیں سم بند کروانی پڑی۔ شاید گھر بھی بدلنا پڑا۔
لیکن ایک لمحے کے لیے بھی ان کے چہرے پر تشویش، موت کی دھمکیوں کا خوف یا گھبراہٹ دیکھنے کو نہیں ملی۔ البتہ وہ کبھی کبھی چپکے سے مجھے کہتے تھے، مبشر! آنے جانے کے راستے اور اوقات تبدیل کرتے رہا کرو۔
انصار بھائی مجھے سمجھاتے تھے کہ رپورٹر کی ہر خبر کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا کرو۔ اس پر سوال سوچا کرو اور رپورٹر سے ان کے جواب مانگا کرو۔ طلحہ ہاشمی، کامران رضی اور کئی دوسرے رپورٹر پیکج لے کر آتے تو میں بلیٹن پروڈیوسر ہونے کی اکڑ دکھاتا۔ جھوٹ موٹ غصہ کرتا۔ رپورٹ کو ہیڈلائنز میں شامل کرنے سے انکار کرتا۔
کچھ دیر میں انصار بھائی ہنستے ہوئے بلاتے۔ حکم دینے کے بجائے طلحہ ہاشمی یا کامران رضی کے سامنے ان کی سفارش کرتے۔ میرا بھرم بھی رہ جاتا، رپورٹرز کا کام بھی ہوجاتا۔
اظہر عباس صاحب کی موجودگی میں انصار بھائی ہمیں ڈانٹ سے بچاتے۔ وہی ہمارا حوصلہ بڑھاتے۔ اظہر صاحب کی عدم موجودگی میں انصار بھائی ان کے قائم مقام ہوتے تھے۔ وہی معاملات دیکھتے۔ وہی چینل چلاتے۔
اظہر صاحب ڈان چلے گئے تو ایک بڑے نام کے چھوٹے آدمی کو ڈائریکٹر نیوز بنادیا گیا۔ یہ صاحب غصے کے تیز، زبان کے خراب اور خوشامد پسند تھے۔ ان کے قریبی عملے میں لڑکیاں زیادہ ہوتی تھیں۔ ذومعنی گفتگو بھی کرتے تھے۔ سب لوگ پریشان تھے کہ چینل کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ انھوں نے کچھ الٹے سیدھے فیصلے بھی کیے لیکن انصار بھائی پس پردہ رہ کر معاملات درست کرتے رہے۔ آخر ان صاحب نے ایک درست فیصلہ کیا اور کسی اور چینل سے اچھی پیشکش حاصل کرکے رخصت ہوئے۔ ہماری جان چھوٹی۔
اظہر صاحب کے دوبارہ آنے تک انصار بھائی نے چینل بھی چلایا اور اپنی ٹیم بھی بنائی۔ جیو میں کام کرنے والے درجنوں افراد آپ کو مل جائیں گے جو فخر سے کہیں گے کہ وہ انصار بھائی کے خاص ساتھی تھے۔ کیونکہ انصار بھائی کو غصہ بہت کم آتا تھا۔ ان کی زبان خراب نہیں تھی۔ وہ خوشامد پسند نہیں تھے۔ وہ سب لڑکوں لڑکیوں کے بڑے بھائی تھے۔ ان جیسے لوگوں کی وجہ سے جیو آج بھی لڑکیوں کے کام کرنے کے لیے محفوظ ترین ادارہ ہے۔
خوشامد پسند کی تعریف یہ ہے کہ لوگ صرف اس کی ماتحتی میں اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس سے دور ہوجانے یا اس کے انتقال کے بعد کوئی اس کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتا۔
انصار بھائی بعض معنوں میں ہمارے مشکل کشا تھے۔ جہاں کوئی مشکل درپیش ہوتی، ہم بے دھڑک انھیں فون ملادیتے۔ ایک بار میں نائٹ شفٹ کا انچارج تھا کہ چار بجے الطاف حسین کا فون آیا۔ انھوں نے فرمائش کی کہ انچارج سے بات کروائی جائے۔ میں نے ریسیور اٹھایا ہی تھا کہ دوسرے فون پر ایم کیو ایم لندن کے ایک اور رہنما کی کال آگئی۔ انھوں نے اسائنمنٹ ایڈیٹر سے کہا کہ مبشر کے کان سے فون لگادو۔
میں ان رہنما کی آواز پہچانتا تھا۔ انھوں نے صرف ایک جملہ کہا، مبشر صاحب! الطاف بھائی غصے میں ہیں، ان کی خبر مت چلانا، غضب ہوجائے گا۔ آپ کے تو ویسے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔
ادھر الطاف بھائی کہہ رہے تھے، آپ کا نام کیا ہے؟ ٹھہریں، میں ڈائری میں لکھ لوں۔ مبشر زیدی، انچارج جیونیوز، مقیم کراچی، گفتگو کا دن اور وقت۔۔۔ ہاں تو مبشر صاحب! فوراً جیو پر خبر چلائیں کہ الطاف حسین نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے اور آج کے بعد میرا ایم کیو ایم سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔
میں نے اسائنمنٹ ایڈیٹر کو ایک کاغذ پر لکھ کردیا، انصار بھائی کو فون ملاؤ۔ پھر الطاف حسین سے کہا، الطاف بھائی ایک منٹ ٹھہریں میں قلم اور کاغذ لے کر لکھ لوں ذرا۔ جی آپ کیا فرمارہے تھے؟
انصار بھائی سوتے سے اٹھ گئے۔ میں الطاف بھائی کے جملے دوہراتا گیا، انصار بھائی سنتے گئے۔ میں نے الطاف بھائی کو تسلی دے کر فون بند کیا تو انصار بھائی فون پر ہنس رہے تھے۔ کہنے لگے، مبشر! تیرا تو کام ہوگیا بس۔ میری آواز رونے والی ہوگئی تو انصار بھائی نے کہا، اچھا الطاف بھائی کی خبر لندن والی بیم پر چلادو اور پاکستان میں مت چلاؤ۔ الطاف بھائی بھی خوش ہوجائیں گے اور پاکستان والوں کو بھی پتا نہیں چلے گا۔
صبح سے پہلے الطاف بھائی کا موڈ بحال ہوگیا اور انھوں نے وہ ایم کیو ایم دوبارہ جوائن لی جسے چھوڑنے کی خبر کا اہل پاکستان کو پتا ہی نہیں چلا۔
انصار بھائی ان چند صحافیوں میں سے ایک تھے جو یہ جانتے تھے کہ کون سی خبر چلانی ہے، کون سے نہیں چلانی اور کون سی کتنی دیر روکنی ہے۔ میں درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں جب انھوں نے ایک خاص ڈھنگ سے خبر نشر کی تو پورا پاکستان ہل گیا۔ جیسے خروٹ آباد کا واقعہ۔ یا انھوں نے خبر کو روک لیا یا احتیاط سے چلایا تو اس کے اثرات بہت دیر تک محسوس کیے گئے۔ جیسے راولپنڈی کے جلوس کا واقعہ۔ دہشت گردی کے درجنوں واقعات ہیں۔ فوج اور طالبان کے متعدد معاملات ہیں۔
انصار بھائی کی بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں لیکن ایک واقعہ میں نے کبھی نہیں سنایا اور کوئی اور بھی نہیں سنائے گا، وہ آج لکھ دیتا ہوں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس واقعے میں انصار بھائی کہیں موجود نہیں ہیں۔
اظہر صاحب بول جاچکے تھے اور جیو کو دو کنٹرولر چلارہے تھے۔ ان پٹ کنٹرولر انصار بھائی تھے اور آؤٹ پٹ کنٹرولر میرے امیجیٹ باس۔ شکیل الرحمان صاحب نے ان دونوں کو اعتماد میں لیے بغیر ایک تیسرے باس کو ملازم رکھ لیا۔ یہ تیسرے باس جنگ اور جیو گروپ میں پہلے بھی بہت عرصہ کام کرچکے تھے۔ میں ان سابق امیجیٹ باس اور ان تیسرے باس کا بہت احترام کرتا ہوں اور ان دونوں کو بھی اپنا استاد مانتا ہوں۔
لیکن دفتر میں اختیارات کے مسائل ہوتے ہیں اور خوش گوار تعلقات کے باوجود نزاع کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس الجھن کو سلجھانے کے لیے شکیل صاحب نے انصار بھائی اور غالباً تیسرے باس کو بھی دبئی بلایا تاکہ معاملات طے ہوجائیں۔
ملاقات کے بعد انصار بھائی، تیسرے باس اور میر ابراہیم رحمان ایک ہی پرواز سے کراچی آئے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ بڑی خبر سن کر جہاز میں بیٹھے یا ان کی نشستیں پہلے سے بک تھیں۔
میں نے وہ خبر اس طرح سنی کہ ایک سینئر فون پر زور زور سے بات کررہے تھے اور پھر انھوں نے نیوزروم میں بتایا، میں نے حامد میر کو فون کیا تھا۔ وہ کہہ رہا ہے کہ اس پر حملہ ہوا ہے۔ کوئی اس کی گاڑی پر فائرنگ کررہا ہے۔
حامد میر ایک پروگرام کرنے کے لیے کراچی پہنچے تھے۔ خبر سن کر نیوزروم میں ہلچل مچ گئی۔ میں امیجیٹ باس کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا کرنا ہے؟ انھوں نے کہا، ابھی بتاتا ہوں۔ اس ابھی بتاتا ہوں کا مطلب ہوتا تھا، ہدایت آئے گی تو بتاؤں گا۔
میں نو بجے کے بلیٹن کا انچارج تھا اور اس کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ چند منٹ بعد باس نے آواز لگائی، مبشر! پی سی آر میں پہنچ۔
میں وہیں کھڑا تھا۔ ساری نشریات روک دی گئی اور بریکنگ نیوز شروع ہوگئی۔ اس کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹہ  کنٹرول میرے پاس تھا۔ میرے اندر گویا انصار بھائی کی روح حلول کرگئی تھی۔ ہر لفظ، ہر جملہ میں اینکرز کو بتارہا تھا۔ بیپرز کے لیے سوال لکھ کے دے رہا تھا۔ انھیں سختی سے سمجھارہا تھا کہ کتنی بات کرنی ہے اور کیا نہیں بولنا۔
بریکنگ نیوز میں اپ ڈیٹ نہ ہو تو ایک گھنٹے بعد نشریات ہلکی پڑجاتی ہے۔ حامد میر ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ عام نوعیت کے ردعمل آچکے تھے۔ میں نے امیجیٹ باس کے پاس جاکر کہا، نو بجے کے بلیٹن میں دو گھنٹے رہ گئے ہیں۔ کیا میں اس کی تیاری کروں یا بریکنگ نیوز چلتی رہے گی؟ انھوں نے کہا، ہاں، نو بجے کا بلیٹن زیادہ اہم ہے۔ تم تیاری کرو۔ میں کسی اور سے کہتا ہوں کہ لائیو نشریات سنبھالے۔
سات بجے کے آس پاس امیجیٹ باس کو کہیں سے ہدایت آئی اور انھوں نے کنٹرول روم کے پروڈیوسر کو من و عن بیان کردی۔ اچانک میں نے سنا کہ عامر میر کا بیپر ہورہا ہے۔ پھر بریکنگ نیوز میں آئی ایس آئی چیف کا ذکر آنا شروع ہوگیا۔
میں بھاگ کر باس کے پاس پہنچا۔ وہاں جیونیوز کے سینئر ایگزیکٹو پروڈیوسر نصرت امین موجود تھے۔ میں نے کہا، باس یہ کیا کردیا۔ میرے الفاظ تھے، سر! اس بریکنگ نیوز سے پہلے جیونیوز کے لیے دنیا کچھ اور تھی اور اب کچھ اور ہوجائے گی۔
نصرت امین صاحب نے مجھ سے اتفاق کیا اور باس سے بے تکلفی کی وجہ سے کچھ مزید باتیں بھی کہیں۔ باس نے کندھے اچکا کر کہا، میں کیا کرتا۔ مجھے انھوں نے کہا تھا کہ ایسے کرو۔ میں نے کردیا۔
پھر جو ہوا، وہ سب جانتے ہیں۔ لیکن میں سر تھام کے بہت دیر سوچتا رہا کہ انصار بھائی نیوزروم میں ہوتے تو صورتحال کچھ اور ہوتی۔ جیونیوز کے حالات کچھ اور ہوتے۔ دنیا کچھ اور ہوتی۔
میں جانتا ہوں اور سیکڑوں بار آزمایا ہے کہ جب آپ لاجک اور دلیل سے بات کرتے ہیں تو آپ کے باس اور مالک بھی مان جاتے ہیں۔ لیکن آپ حکم پر سوچے سمجھے بغیر عمل کریں تو اوپر کے غلط فیصلے کا خمیازہ اوپر سے نیچے تک سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔
بس یہ فرق تھا انصار بھائی میں اور دوسرے سینئر ایگزیکٹوز میں۔ انصار بھائی مالک کو، اپنے باس کو اور جونئیرز کو بتاتے تھے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ وہ خبر روکنا جانتے تھے۔ وہ الفاظ کے مناسب استعمال سے واقف تھے۔ وہ جرات اور احتیاط، دونوں سے وقت کے مطابق کام لیتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ غلط بات پر انکار کرنا جانتے تھے۔

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply