زندگی کو بدلنے کے اوصاف۔۔عاصمہ حسن

ہر انسان کو تعریف اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے پھر چاہے وہ بچہ ہو یا بوڑھا ہو ـ، اہمیت اس امر کی ہے کہ ہمارے اردگرد ایسے مخلص دوست ‘ احباب یا رشتہ دار ہونے چاہئیں جو ہمارا حوصلہ بڑھا سکیں، ـ جب ہم تھک کر’ ٹوٹ کر ،گر جائیں تو وہ ہمیں بکھرنے نہ دیں بلکہ اس نازک وقت  پر اپنے لفظوں سے ہمار ےزخموں پر  مرہم رکھیں اور ہماری حوصلہ افزائی کریں، ـ ان کی طرف سے کی گئی تعریف یا امید افزا الفاظ ہمارے اندر تبدیلی لانے کا باعث بن سکتے ہیں ـ۔

بعض اوقات ہمارے اردگرد ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو چننے میں ہمارا اپنا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے لفظوں کے نشتر چلا کر ہماری ہمت توڑ دیتے ہیں اور حالات کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہی ہماری ہمت جواب دے جاتی ہے اور خوداعتمادی چکنا چور ہو جاتی ہے۔ ـ دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہماری کامیابی سے خوش نہیں ہوتے اور حالات ایسے پیدا کر دیتے ہیں جن کی بدولت ہم اپنی منزل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں ـ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ان لوگوں سے دور رہا جائے اگر ممکن نہیں تو ان کی باتوں پر کان کم دھرا جائے اور وہ کیا جائے جو آپ کو مناسب لگتا ہے اور جس کام میں آپ کو خوشی محسوس ہوتی ہے ـ۔

ہم زندگی کو بدلنے کے خواہشمند تو ہوتے ہیں لیکن خاطر خواہ تگ و دو نہیں کرتے ـ جس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے ہم  مسائل کا مناسب تدراک نہیں کر پاتے مزید یہ کہ ہمیں اپنی خامیوں کا اندازہ نہیں ہوتا یا ہم تسلیم کرنا نہیں چاہتے ـ اکثر ہم جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں ـ ۔اس مقصد کے لئے ہمیں اپنے ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے ‘ اپنا احتساب کرنا اور خود پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے، ـ جب ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری خامی کیا ہے یا ہمارا کمزور پہلو کیا ہے تبھی ہم خود میں تبدیلی لا سکیں گے ـ۔

پھر آتا ہے کہ ہم اس خامی کو تسلیم کر کے اس کو دور کرنے یا بدلنے کے خواہش مند بھی ہوں ـ صرف خواہش کر لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر کام کرنا پڑتا ہے ـ کوئی بھی عادت ختم کرنی یا اپنانی ہو اس کو وقت درکار ہوتا ہے۔ ـ جو کام بھی کریں اس کو درمیان میں نہ چھوڑیں ،چاہے خاطرخواہ نتائج حاصل ہوں یا نہیں ـ کیونکہ مثبت تبدیلی لانا انتہائی مشکل اور آزمائش والا کام ہوتا ہے ـ اس میں صبر’ مستقل مزاجی ‘ محنت و لگن کا اہم کردار ہوتا ہے ـ۔

خود کو بدلے بغیر حالات کو یا لوگوں کو بدلنے کی خواہش رکھنا بے وقوفی اور کم عقلی ہے ـ ہم خود کو بدل کر جگنو بن سکتے ہیں اور اپنے وجود سے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں ـ
حالات مشکل نہیں ہوتے بس فرق یہ ہوتا ہے کہ ہم کمزور پڑ جاتے ہیں اور ہمت ہار دیتے ہیں ـ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ” مصائب اور مشکلات اتنی ہی شدید ہوتی ہیں جتنا کہ آپ نے ان کو بنا دیا ہوتا ہے اور وہ آپ کی ساری زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہیں ـ ساری زندگی نہیں ہوتیں اور بندہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ساری کی ساری زندگی برباد ہو گئی ہے ‘ تباہ ہو گئی ہے” ـ۔

کامیابی بھی انہی لوگوں کو ملتی ہے جو ماضی سے جان چھڑاتے ہیں ـ عقلمندی اور دانشمندی کا یہی ثبوت ہے کہانسان غلطیوں سے سیکھے اور ان کو دوبارہ نہ دہرائے ـ۔
ہمیں زندگی کے اہم فیصلے کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے ـ اکژ لوگ کہتے ہیں کہ خطرہ مول لئے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوتا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم بنا سوچے سمجھے خطرناک منصوبوں پر کام کریں ـ۔

جو لوگ ناکامی کے ڈر سے قدم نہیں اٹھاتے یا کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے ان کا مقدر ناکامی ہی ہوتا ہے لہٰذا سب سے اہم کام خود پر اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا ہے ـ اللہ تعالی کبھی محنت رائیگاں جانے نہیں دیتے اور محنت کا میٹھا پھل بھی ضرور ملتا ہے ـ ہاں دیر سویر ہو جاتی ہے ـ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان بھی ہے کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے تو پھر پریشانی کیسی ؟
خود پر بھروسہ ہی ہمیں دوسروں سے ممتاز بناتا ہے ـ۔

مثبت سوچ’ فعال نقطہ نظر اور خود اعتمادی وہ عناصر ہیں جو ہمیں کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں ـ علم اور معلومات کا ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے وہ جہاں سے اور جس سے بھی ملے حاصل کرلینا چاہیے۔ ـ
بہت ساری باتیں ہم اپنے والدین اور اساتذہ  سے سیکھتے ہیں ـ کتابوں کے مطالعہ سے بھی علم وسیع و گہرا ہوتا ہے جس سے ہم بہتر فیصلہ لینے کے قابل بن جاتے ہیں ـ مزید یہ کہ زندگی کے اتار چڑھاؤ بھی ہمیں بہت کچھ سکھا جاتے ہیں لہٰذا سیکھنے کے عمل کو ہمیشہ جاری رہنا چاہیے اور ان باتوں سے اجتناب بہتر ہے جو ہمارے حق میں نہیں۔

خود کا مقابلہ یا موازنہ کسی دوسرے سے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ رب العزت نے ہم سب کو نہ صرف مختلف بنایا ہے بلکہ مختلف سوچ’ انداز فکر اور صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے ـ
وقت و حالات پر گہری نظر اور مثبت حکمت عملی ہمیں ہماری منزل کے قریب کردیتی ہے اس کے ساتھ یہ سوچ کہ ہر کام اللہ تعالی کی طرف سے بہترین ہوتا ہے کیونکہ وہ ذات ہمارا برا یا غلط سوچ ہی نہیں سکتی لہٰذا ذہنی دباؤ محسوس کرنے سے فائدہ نہیں ہوگا بلکہ صحیح سمت میں محنت و لگن اور مستقل مزاجی سے کام کرنے کا ثمر ملے گا ـ۔

تشکر بڑھانے سے زندگی خوبصورت ہو جاتی ہے ـ روز رات کو سونے سے پہلے سوچیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے جن کا ہم چاہ کر بھی شکر ادا نہیں کر پاتے ـ کیونکہ بہت ساری نعمتیں ہم جذبات میں پس پشت ڈال دیتے ہیں کبھی کسی ہسپتال جا کر دیکھیں رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے لوگوں کی تکالیف دیکھ کر، شکر الحمدللہ آپ کی زبان پر خود بخود آ جائے گا ـ اسی طرح بھوک افلاس میں مرتے لوگوں کو دیکھیں تو احساس ہو گا کہ ہمارا دسترخوان بھرا ہونے کے باوجود ہم کس قدر ناشکرے ہیں ـ بس۔۔

قرآن مجید میں فرمایا گیا : “پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ـ ” بس شکر ادا کرنے والے بن جاؤ منزلیں آسان ہوتی جائیں گی ـ

سب سے اہم اپنی سوچ کو اور اپنے رویوں کو بدلنا ہے جس کے لئے اپنی اندرونی تبدیلی ضروری ہے اندرونی تبدیلی مستقل مزاجی اور قوت ارادی سے حاصل ہوتی ہے ـ
جب ہمارا اندر کا ماحول بدل جاتا ہے تب ہمارا ظاہر بھی بدل جاتا ہے ـ۔
زندگی کے ماہ و سال بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ہم خود اپنے آپ کو بدلنا نہ چاہیں ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک بات کا خیال رکھیں کہ یہ راتوں    رات حاصل نہیں ہو جاتی اور اللہ بھی ان کی مدد کرتا ہے اور رستے آساں کرتا ہے جو خود کو بدلتے ہیں اور ڈالتے ہیں ستاروں پر کمند ـ
اپنی سوچ مثبت رکھیں’ منزل کا تعین کریں اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر مستقل مزاجی کا دامن تھام کر محنت کرتے چلے جائیں ـ کامیابی آپ کا مقدر بنے گی۔ انشااللہ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply