کامیاب ہونے کے لیے مطلوبہ اوصاف/عاصمہ حسن

جن میں تنہا چلنے کے حوصلے ہوتے ہیں
ایک دن انہی کے پیچھے قافلے چلتے ہیں
آج تک کامیابی کی کوئی جامع تعریف ممکن نہیں ہو سکی کیونکہ ہر انسان کے لیے نہ صرف اس کے معنی بلکہ اہمیت بھی مختلف ہوتی ہے ـ کچھ لوگ اچھی نوکری’ کاروبار’ پیسہ’ نام’ شہرت’ بنک بیلنس’ برینڈڈ کپڑے’ اسمارٹ فون ‘ گھڑی’ کاروں وغیرہ کے حصول کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں لیکن وہیں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان تمام آسائشوں کو کامیابی تصور نہیں کرتے ـ۔

عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ تمام عمر مادیت پسند رہتے ہیں اور ان تمام چیزوں کے حصول کے لیے اپنے دل کی آواز نہیں سن پاتے خواہشات لامحدود ہوتی ہیں جن کو پورا کرتے کرتے زندگی کا سنہری دور گزر جاتا ہے اور پھر ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنی مراد’ ارمان پورے کرنے کے باوجود خوش اور مطمئن نہیں ہوتے ـ ان کی زندگی میں سب آسائشیں اور مراعات ہونے کے باوجود کمی رہتی ہے جو انھیں ہر وقت بے چین رکھتی ہے ـ وہ کمی دراصل وہ راستہ ہے جو وہ کسی بھی وجہ سے اپنی زندگی میں اختیار نہیں کر سکے یا اپنے اندر کی آواز کو زندگی کی دوڑ دھوپ میں سن نہیں سکے ـ انھیں ادراک نہیں ہو پاتا کہ ان کی اصل خوشی کس چیز میں ہے ـ اکژ لوگ اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں اپنے خواب ضرور پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ـ بہتر تو یہی ہے کہ اس وقت جب پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ میں نہ رہے’ اس سے پہلے ہی اپنے خوابوں یا مقاصد کو پورا کر لیا جائے کیونکہ زندگی دوسرا موقع نہیں دیتی ـ۔

کامیابی کیا ہے ؟ اگر یہ سوال کیا جائے تو عمومی طور پر ہم سب کے جواب مختلف ہوں گے کیونکہ ہم سب کی سوچ اور ترجیحات ایک دوسرے سے منفرد ہیں ـ دراصل کامیابی وہ ہے جس کام کے کرنے میں انسان خوشی محسوس کرتا ہے اور وہ کام اس کو تھکنے نہیں دیتا ـ

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ کامیابی کوئی معجزہ نہیں ہوتی نہ یہ اچانک سے حاصل ہو جاتی ہے اس کے پیچھے دن و رات کی ان تھک محنت و لگن کارفرما ہوتی ہے ‘ جستجو’ لگن اور وہ کسک ہوتی ہے جو ہمیں اس وقت تک بے چین رکھتی ہے جب تک ہم اپنا مقصد حاصل نہ کر لیں یا اپنی منزل تک نہ پہنچ جائیں ـ مقصد یا منزل ایک قدم بڑھانے سے نہیں مل جاتی بلکہ ایک طویل اور خاردار سفر ہوتا ہے جو ہمیں طے کرنا ہوتا ہے ‘ لائحہ عمل بنانا ہوتا ہے ‘ اس منزل تک پہنچنے کے لیے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس کام کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا پڑتا ہے جنھیں مائیل اسٹون کہتے ہیں پھر آہستہ آہستہ پیش قدمی کرنی پڑتی ہے اور یہ عمل مستقل مزاجی’ استقامت اور صبر کا دامن تھام کر طے کیا جاتا ہے ـ اس کے علاوہ ناکامی کا سامنا اس سفر کی شرط ہے لیکن اس کا کیسے سامنا کرنا ہے اور ٹوٹ کر بکھرنے کے بعد کیسے خود کو اور اپنی توانائیوں کو یکجا کرنا ہے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ہارکے ڈر اور خوف سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ آنے والے مسائل اور چیلنجز کے لیے خود کو پہلے سے ہی تیار رکھتے ہیں ـ اپنی سوچ کے ذریعے کامیابی کے دروازے تک پہنچنے کے راستے ہموار کرتے ہیں کیونکہ کٹھن راستے ‘ خاردار جھاڑیاں ‘ مصائب ‘ صعوبتیں ‘ ناکامیاں سب ان کے چٹان حوصلے کے آگے اہمیت نہیں رکھتے اگر اہم ہے تو صرف ان کا جذبہ’ ان کا خواب اور ان کا مقصد جو ان کو حوصلہ بخشتا ہے ـ

خواب دیکھنا بہت آسان ہے ہم اپنی کھلی آنکھوں سے بھی خواب دیکھتے ہیں ‘ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتے رہتے ہیں کہ ایسا کر لیں ویسا کر لیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو کل پر ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کر لیں گے ابھی بہت وقت پڑا ہے یا فلاں کام پہلے کر لیں پھر دیکھتے ہیں ـ اس طرح کامیابی حاصل نہیں ہوتی ـ نہ ہی دوسروں کو کامیاب ہوتے ‘ یا کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر ‘ اپنی قسمت کو کوس کر کامیاب ہوا جا سکتا ہے ـ

نائجل کمبرلینڈ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اپنے آپ کو پہچانیں اور نہ صرف پہچانیں بلکہ خود کو جیسے آپ ہیں ویسے ہی قبول کریں اور خود کا دوسروں سے موازنہ کرنا بند کر دیں ـ کیونکہ ایسا کرنے سے ہم صرف اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اور اپنی ساری توانائیوں کا غلط استعمال کرتے ہیں ایسا کرنے کی بجائے ہمیں اپنا آپ تلاش کرنا چاہئیے کہ ہم خود میں کیسے تبدیلی لا سکتے ہیں کون سی اصطلاحات کو بروئے کار لا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں ـ۔

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ” ” کامیابی آپ کے پاس نہیں آئے گی بلکہ آپ ہی ہیں جو اس کامیابی کو تلاش کریں گے ‘جس کے لیے خود کو جاننا’ خود پر کام کرنا’ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا’ درست سمت میں پیش قدمی کرنا’ استقامت اور مستقل مزاجی سے کام کرنا ‘ وقت کا صحیح استعمال کرنا اور خود کو ایسے لوگوں سے بچانا جو صرف تنقید کرتے ہوں یا حوصلہ شکنی کرتے ہوں بہت ضروری ہے ـ ”

اپنی تلاش سے اپنی منزل تک کا سفر ہمیں خود ہی طے کرنا پڑتا ہے کیونکہ جو خواب ہمارے ہیں ان کو کوئی اور نہیں سمجھ سکتا اور نہ وہ تڑپ محسوس کر سکتا ہے جوہمارے دل میں ہے ـ ہاں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ پہلے پہل لوگ مزاق اڑاتے ہیں ‘ تضحیک آمیز یا ہتک آمیز جملے کستے ہیں ‘ آپ کا دل توڑنے اور اس مقصد سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن جن آپ اپنی کاوشوں اور مستقل مزاجی کی بدولت کامیابی کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں یا اس پیش رفت کے نتائج دنیا کے سامنے آنے لگتے ہیں تو اردگرد کے لوگ آپ کے شریک سفر بننا شروع ہو جاتے ہیں ـ اب ہوتا کیا ہے کہ وہ سفر جو آپ تنہا شروع کرتے ہیں اب کارواں بن جاتا ہے ـ۔

پہلے آپ تنہا تھے لیکن وقت کے ساتھ ایک قافلہ آپ کے پیچھے ہوتا ہے جو آپ کی پیروی کرتا ہے کیونکہ دیکھا دیکھی لوگ ساتھ مل جاتے ہیں ـ سراہنا شروع کر دیتے ہیں ـ اب وہ منزل آ جاتی ہے جہاں لوگ آپ کی کامیابی پر تو نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے پیچھے کی ریاضت ‘ تکالیف اور طویل سفر کی تھکاوٹ اور رکاوٹوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کامیاب ہونے کے لیے ہمیں اپنے مقصد کا معلوم ہونا چاہئیے ـ اس کو لکھ لینا بہت ضروری ہے ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ان میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے لیکن مقاصد کو وقت کی دوڑ میں باندھنا ضروری ہے یعنی ٹائم فریم ضروری ہے کہ اتنے عرصے میں یہ مقصد حاصل کرنا ہےـ دو’ تین مہینے یا سال تک میں یہ کام کر لوں گا اور اپنی منزل تک پہنچ جاؤں گا یا فلاں کام اتنے عرصے میں کرنا ہے ـ ایسا نہیں ہونا چاہئیے کہ ہم سوچیں کہ جب مناسب وقت آئے گا دیکھ لیں گے یا فلا ں کام کر لیں گےـ کیونکہ وقت گزرتا جاتا ہے بس وہ مناسب وقت نہیں آتا جس کے انتظار میں ہم بیٹھے رہتے ہیں اور اپنے مقاصد کو ‘ خوابوں کو منوں مٹی تلے خود اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیتے ہیں اور پھر رونا قسمت کا روتے رہتے ہیں ـ۔
کامیابی حاصل کرنے کے لیے خود کو ‘ اپنی سوچ کو بدلیں اور خود کو منظم کریں ـ ایک دفعہ ارادہ باندھ لیں تو پھر منزل تک پہنچ کر ہی سانس لیں ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply