ماسکو سے مکّہ (6)ڈاکٹر مجاہد مرزا

مدینہ میں کاروبار حیات نماز فجر کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اب تو ویسے بھی دن روشن ہو چکا تھا۔ جمشید ایک بار پھر خریداری کے چکر میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکے میں چیزیں مہنگی ہوتی ہیں، بہتر ہے یہیں سے لے لی جائیں۔ میں کسی قسم کی خریداری نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ حج کوئی شاپنگ ٹور نہیں جیسے لوگوں نے سمجھ لیا ہوا ہے۔ بہر حال صافی نے کوئی دس کلو کھجوریں خرید لی تھیں۔ ہم ہوٹل میں واپس آ گئے تھے۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ لگتا تھا جیسے بخار ہو گیا تھا ۔ پہلے روس فون کیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ بہت مہنگا ہے پھر پاکستان فون کیا تھا جو بہت سستا تھا اس لیے اپنی پریشانی اور تاثّرات میں پاکستان میں اپنے بچوں کی ماں اور اچھی دوست ڈاکٹر میمونہ کو فون کرکے بانٹتا رہتا تھا۔ طبیعت کی کسالت کے باوجود میں باقی نمازیں پڑھنے مسجد نبوی بھی گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد جب میں مسجد کے احاطے سے نکل کر بغلی راستہ عبور کرکے سڑک پہ نکلا تھا تو ایک منظر دیکھ کر طبیعت اوبھ گئی تھی۔ وہی بیچاری عورتیں جو چلچلاتی دھوپ میں ریڑھیاں کھینچ کر مشقت کرتی ہیں ان کی ریڑھیاں نارنجی وردیوں میں ملبوس میونسپل کمیٹی کے بنگلہ دیشی و ہندوستانی اہلکار اٹھا اٹھا کر ٹرک میں ڈال رہے تھے۔ ایک سعودی عمّال ہاتھ میں واکی ٹاکی پکڑے ہوئے ان پر بری طرح برس رہا تھا۔ جو بیچاریاں ریڑھیاں کھینچتے ہوئےبھاگ کر اپنا سامان بچانے کی کوشش کر رہی تھیں، سعودی شکرا چیخ کر ماتحتوں کو حکم دیتا ہے کہ دوڑو اور اس کا مال ضبط کرو۔ میری طرح دو ایک اور عازمین جب یہ اذیت ناک تماشا دیکھ کر رکے تو وہ عمّال ہم پہ بھی برسنے لگا۔ اس کی معاونت کرنے والے پولیس اہلکار نے “یاحجّی، یاللہ” کہہ کے ہمیں دھتکار کر آنکھیں چرا کر نکل جانے کو کہا تھا۔ اوہ میرے خدا، غریب تیرے نبی کے شہر میں بھی اسی طرح پریشان ہے جس طرح کسی بے برکت شہر میں۔

طبیعت ویسے ہی خراب تھی۔ برقعہ پوش مسلمان محنت کش خواتین کے ساتھ اسلامی فلاحی ریاست کے اہلکاروں کے اس غیر انسانی رویے کو دیکھ کر کسلمندی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ہوٹل میں آ کر بستر پہ دراز ہو گیا تھا، آنکھوں پہ اپنی پسندیدہ سیاہ پٹی باندھ لی تھی۔ سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی تھی۔ انکل داؤد نے بیدار کیا تھا کہ نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے۔ وضو کیا تھا اور سوئے مسجد چل پڑے تھے۔ حدت کم ہوتی ہوئی دھوپ میں بے چینی کی بجائے سکون مل رہا تھا خاص طور پہ مسجد نبوی کے طویل احاطے کو عبور کرتے ہوئے دل کر رہا تھا کہ دھوپ میں ہی کھڑا رہوں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بخار بھی ہو رہا تھا۔ میں نے اور جمشید صافی نے طے کیا تھا کہ عصر کے بعد جنت البقیع جائیں گے۔ جنت البقیع نام کا یہ قبرستان مسجد نبوی کے اس پار تھا۔ نماز ظہر کے بعد واپسی سے پہلے میں اس کے کنارے تک گیا تھا لیکن معلوم ہوا تھا کہ اسے لوگوں کے لیے عصر کے بعد کھولا جاتا ہے۔ جنت البقیع کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مجھے وہاں اس لیے بھی جانا تھا کہ میرے ایک بھتیجے کی اہلیہ نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ وہاں جا کر حضرت فاطمۃالزہرا رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کا سلام پہنچا دوں۔ یوں میں اور جمشید طے کردہ مقام پر ملے تھے اور جا کر جنت البقیع میں داخل ہو گئے تھے۔ یہ ایک وسیع و عریض میدان تھا جس کے بیچ میں سیمنٹ سے گذرگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ زمین کے مختلف سپاٹ قطعات میں بے نام پتھر دھرے تھے جو قبروں کی نشاندہی کرتے تھے۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ صحابہ کرام یا تابعین عظام کی قبریں کہاں تھیں۔ کچھ قبریں پرانی تھیں، ان کے پاس سعودی دینی مدرسے کے طلباء یہ کہنے کے لیے کھڑے تھے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ یہ قبر کس کی ہے لیکن چونکہ پرانی قبر ہے اس لیے بہت پہلے کے کسی شخص کی ہوگی۔ میں نے ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر سب کے لیے بشمول صحابہ کرام و اہلبیت کے لیے فاتحہ پڑھ دی تھی اور تھوڑی سی بلند آواز میں بی بی فاطمہ کو شبنم کا سلام بھی پہنچا دیا تھا۔ سعودی حکام نے یہ خوب کیا ہوا ہے ورنہ لاکھوں عقیدت مند مسلمان نہ جانے کہاں کہاں دھجیاں نہ باندھ دیتے، نامے نہ اَڑس دیتے، دانے نہ بکھیر دیتے اور بس چلتا تو دھمال ڈالنے سے بھی باز نہ آتے۔ ان حرکتوں کا ایک نمونہ مجھے اگلے روز فجر کی نماز سے پہلے دکھائی دیا تھا۔ جنت البقیع کو چند سالوں کے بعد تازہ کر دیا جاتا ہے اور اس میں نئے لوگ دفن ہوتے رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply