میں اور میری بغیر ثبوتوں والی باتیں۔۔فراست محمود

اس دور پرفتن میں بے عمل مسلمان ایسے بے بنیاد مسئلوں میں خود کو الجھائے ہوئے ہیں جن کی روزِ حشر شاید ہی پوچھ ہو۔

ویسے تو ان ایشوز پہ بات نہ ہی کی جائے تو اچھا ہوتا ہے مگر اس بے رحم معاشرے میں رہتے ہوئے بات کیے بغیر چارہ بھی نہیں ہوتا۔اس لیے کبھی بات کرنا پڑتی ہے کبھی سننا پڑتی ہے کبھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ کبھی لفظوں کے نشتر نازک دل پہ سہنے پڑتے ہیں تو کبھی اندھا بن کر حقیقتوں سے نظر چرانا پڑتی ہے۔ مگر سب کچھ اس عارضی حیات میں ہی کرنا ہوتا ہے اور یہی آزمائش زندگی ہے۔
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھا ہوں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کروں

خلیل جبران نے کہا کہ “جس سچ کو ثابت کرنا پڑے وہ آدھا سچ ہوتا ہے” اس لیے آج ثبوتوں کے بغیر بات لکھنے کو دل کر رہا ہے۔ ویسے بھی ثبوتوں کو کون مانتا ہے۔ اگر ثبوتوں سے ماننا ہوتا تو کائنات کے سچے ترین انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتنے ہی دلائل اور ثبوت دیے مگر ابولہب و ابوجہل   نہ مانے۔

موضوع کا رخ کرتا ہوں۔ سوشل میڈیا پہ ہر روز ایسی ایسی باتوں پہ گفتگو دیکھنے، سننے اور کرنے کو مل جاتی ہے کہ دن پورا ہی غارت ہو جایا کرتا ہے اور زندگی چیخ چیخ کر پکار رہی ہوتی ہے کہ لو تیری زیست کا اک دن اور بیت گیا۔

ان تین چار دنوں میں شیعہ اور سنی مسالک کے لوگوں میں اتنی بحثیں دیکھ، سُن اور کر چکا ہوں کہ بات لکھنے تک آ گئی ہے۔

جو باتیں چودہ  صدیوں سے ان دو گروہوں میں حل نہ ہو سکیں وہ آپ کے یا میرے کہنے ،سننے یا لکھنے سے بھی حل نہیں ہونے والی ۔پھر بھی ہم لگے ہوئے ہیں ثبوتوں کے ثبوت دینے پہ۔فریقین نے اپنے اپنے مسالک کے حوالے سے تاریخی ثبوتوں سے بڑھ کر ثبوت رکھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی بات، دلیل اور ثبوت کو سمجھے بغیر صرف فریق مخالف کی دلیل سمجھ کر رد کرتے جا رہے ہیں۔ مخالف اگر قرآن مجید سے ثبوت پیش کر رہا ہے تو بھی غلط قرار دیا جا رہا ہے اور حدیث سے بات بیان کر رہا ہے تو بھی غلط ثابت کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟؟؟
کیونکہ ہم نے ابھی سیکھا ہی نہیں ہے کہ مخالف سے متفق ہونا کیا ہوتا ہے۔ متفق ہونے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ کوئی ہار نہیں ہوتی۔ کوئی ندامت نہیں ہوتی۔ کوئی عار نہیں ہوتی۔ بلکہ متفق ہونا تو محبت اور اتحاد کی علامت ہوتا ہے۔ اتفاق اور اخلاقی اقدار کی خوبصورتی کا مظہر ہوتا ہے۔ چونکہ ہم مسلمانوں کا خمیر اس مٹی سے شاید اٹھایا ہی نہیں گیا ہے جس میں محبت و یگانگت اور وحدت ہو اس لیے ہم متفق نہیں ہوتے اور ساری دنیا میں ہر ملک میں جدا جدا ہیں۔

ہمیں نفرت، اشتعال، تعصب، حسد، انتہا پسندی اور شدت سے اتنی شدید محبت ہے کہ ہمیں محبت بانٹنے کا کبھی خیال ہی نہیں آتا۔حالانکہ ہمارا دین و مذہب معتدل رہنے کو ہی بہترین قرار دیتا ہے مگر ہم مسلک کی آگ میں اس قدر جل رہے ہیں کہ یہاں اسلام کا میانہ روی اور معتدل رہنے والا سبق ہم بھول جاتے ہیں اور ایسا رویہ اختیار کر لیتے ہیں جس سے انسانیت کے پلے سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں بچتا۔

کافی شیعہ دوستوں سے بھی کھل کر باتیں کیں۔ دلائل کے انبار بھی دونوں نے لگائے، مگر دونوں ہی ایک انچ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل پائے۔
میں شیعہ اور سنی دونوں مسالک کے دوستوں سے ایک ایک سوال کروں گا۔ آپ جواب دے کر اپنے اپنے ضمیروں کو اطمینان دے سکتے ہیں، یا کم از کم مجھے اطمینان دلا دیں۔
سنی بھائی اہلِ بیت کو صحابہ کے برابر میں کیوں کھڑا کرکے اہلِ بیت کو صحابہ پہ فوقیت نہیں دیتے؟ حالانکہ اہلِ بیت اور صحابہ کرام دونوں ہی نسبتِ مصطفیٰ کی وجہ سے معتبر ہیں تو اہلِ بیت کے پاس دو طرف کی نسبتِ مصطفیٰ ہے (اہلِ بیت + صحابیت)

شیعہ بھائی اگر مولا علی علیہ السلام کو خلیفہ بلافصل سمجھتے ہیں تو نبی کی بیٹی کا حق کا مطالبہ ابوبکر صدیق سے کیوں کرتے ہیں اور اگر مولا علی علیہ السلام اسلام کے لیے خاموش ہوگئے تھے تو اب شیعہ بھائی کیوں مولا علی کی اس سنت پہ عمل پیرا ہوکر خاموشی اختیار نہیں کرتے؟
شب و شتم اور تبرا بازی کرنے والے کا مولا علی کے گروپ سے نہ کوئی تعلق تھا اور نہ اب کوئی ہے اور نہ بعد میں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(میں ذاتی طور پہ اہلِ بیت کی فضیلت کا قائل ہوں ہر صحابی کے مقابلے میں. جیسے انبیائے کرام علیہم السلام میں ہمارے پیارے نبی سے افضل ہیں مگر ظاہری طور پہ آخری نبی ہیں بعینہٖ اہل بیت اور مولا علی علیہ السلام ظاہری طور پہ چوتھے  خلیفہ  ہیں مگر فضیلت کے حوالے سے    اول ہیں).

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply