کون سی دولت ؟۔۔محمد اسد شاہ

کوئی مانے یا نہ مانے ، وہ وزیراعظم کی کرسی تک پہنچ تو گئے – خاں صاحب چوں کہ نہایت درجہ نرگسیت (خود ستائی ، خود پرستی) کے پیدائشی مریض ، اور دوسروں کے متعلق فلسفیانہ گفت گو کرنے کے شوقین ہیں ، اس لیے انھیں دو قسم کے سامعین سے واسطہ پڑتا ہے؛ ایک وہ جو انھیں بہت توجہ سے سنتے ہیں ان کی ہر بات کو پسند کرتے ہیں اور ان کے ہر بدلتے موقف کے دفاع کے لیے نئے نئے دلائل بھی گھڑ لیتے ہیں ، اور دوسرے وہ جو سالہا سال تک ان کے اقوال و افعال کا خوف ناک تضاد دیکھنے کے بعد اب ان کی باتوں کو اہمیت ہی نہیں دیتے –

مشاہدہ اور تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دوسری قسم کے لوگوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے – حتیٰ کہ پہلی قسم کے لوگوں میں سے بھی بہت سے دوسری طرف شامل ہو رہے ہیں – جب وہ کرکٹ کھیلتے تھے تب یہ کالم نگار سکول کا طالب علم تھا – لیکن جب سے وہ سیاست میں آئے ، ایک اپنی ذات کی تعریفیں ، اور دوسرے ہر شخص کے لیے واحد کا صیغہ استعمال کر کے منفی گفتگو کرتے آ رہے ہیں – اول تو ان کی گفتگو ہمیشہ سیاسی آداب اور شائستگی وغیرہ سے محروم نظر آئی ، دوسرا ان کا موضوع گفتگو ہمیشہ ایک ہی شخص رہا ہے –

ایک امکان یہ بھی ہے درحقیقت وہ اس شخص سے انتہائی متاثر ہیں اور وہ ان کے دل ، دماغ اور اعصاب پر سوار ہے – لیکن چوں کہ خاں صاحب اپنے علاوہ کسی کی تعریف برداشت نہیں کر سکتے ، چناں چہ اس شخص کے خلاف منفی گفتگو ہی کر سکتے ہیں – وہ کم از کم 2008 سے “نواز شریف فوبیا” میں بہت شدت سے مبتلا ہیں – انھیں سننے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آپ ایک ہی نوحہ بار بار سنیں ، ایک ہی سالن روزانہ کھائیں ، کتاب کا ایک ہی صفحہ کئی سال تک پڑھتے رہیں ، ایک ہی جوتا ہمیشہ پہنے رکھیں ، ایک ہی خبر ہر گھنٹے بعد سنتے رہیں ، یا ایک ہی لباس کو دھوئے بغیر کئی سال تک پہنے رکھیں

خاں صاحب جنرل ضیاء الحق کے پرستار رہے – کرکٹ کا کھلاڑی ہونے کے باوجود باقاعدگی سے ایوان صدر میں حاضری دیتے ، جنرل سے ملتے تو تصویر کھنچوانا کبھی نہ بھولتے – اقتدار پر غیر آئینی طور قابض ایک جنرل سے ہر ہفتے ملنے والا کھلاڑی دل میں کیا خواہش لے کے جاتا تھا ، اور کس موضوع پر گفتگو کرتا تھا ، ہم جانتے تو نہیں ، لیکن سمجھ ضرور سکتے ہیں – پھر جنرل پرویز مشرف آیا توخاں صاحب اس کے ہاں حاضریاں دینے لگے – ایک جعلی ریفرنڈم میں خاں صاحب اس جنرل کے “چیف پولنگ ایجنٹ” بن گئے – دن بھر پولنگ اسٹیشن سنسان ویران خالی پڑے رہے ، لیکن خاں صاحب نے چیف پولنگ ایجنٹ کی حیثیت سے ایسی خدمت کی کہ شام کو خالی ڈبوں سے بھی جنرل کی حمایت میں ووٹ برآمد ہو گئے ، اور ووٹ بھی اتنے کہ ان کی تعداد پاکستان کے تمام ووٹرز کی کل تعداد سے بھی زیادہ تھی – پھر میڈیا پر شور مچا تو دو گھنٹے بعد بہت مشکل سے تعداد “کم کر کے” دوبارہ بتانا پڑی –

اس دور میں عمران خان اور طاہر القادری ، دونو وزیراعظم بننے کے جنون میں مبتلا تھے ، اور جنرل پرویز کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے تھے – خاں صاحب کو یقین تھا کہ جنرل ضیاء نے اگر انھیں وزیراعظم نہیں بنایا تھا تو جنرل پرویز ضرور بنائے گا – لیکن جنرل پرویز نے بھی اس منصب کے لیے خاں صاحب کی بجائے ظفر اللّٰہ جمالی ، چودھری شجاعت اور پھر شوکت عزیز کو اہل سمجھا – خاں صاحب کو البتہ صرف دو کتوں کا تحفہ دے کے ٹرخا دیا – یہی موقع تھا جب خاں اور قادری ، دونو مایوس ہو کے جنرل پرویز سے علیٰحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے – جنرل پرویز ہی کی محبت کے رشتے میں دونو آپس میں “سیاسی کزن” کہلوانے لگے – اس کے بعد خاں صاحب نے ساری امیدیں جنرل حمید گل کے در سے وابستہ کر لیں ، جن کی کوششوں سے پھر مزید “غیر سیاسی شخصیات” بھی ان کی سرپرستی پر راضی ہو گئیں –

اس طرح 22 سالہ “جدوجہد” کا سفر مکمل ہوا اور آخر کار انھیں وزارت عظمیٰ کا منصب مل ہی گیا – کرسی کے حصول کی اس عظیم الشان “جدوجہد” کے دوران انھوں نے بہت بلند بانگ دعوے کیے جن پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے – اور پھر اقتدار ملتے ہی اپنے ان دعووں کا جو حشر انھوں نے کیا ہے ، اس پر تو کئی کتابیں لکھی جانا چاہییں – گزشتہ دنوں انھوں نے حسب عادت اور حسب مزاج ، ایک نیا وعدہ جاری کیا ہے – کہتے ہیں؛ “اگر اپوزیشن لوٹی ہوئی دولت واپس کر دے تو اگلے دن مستعفی ہو جاؤں گا-” کیسا زبردست بیان جاری فرمایا – نورتنوں اور مالشیوں کی فوج نے اپنے روز مرہ معمول کے مطابق جس پر تعریفات کے ڈونگرے برسائے – لیکن عوام کے ذہنوں میں نئے سوالات اٹھے – کون سی دولت ، کس نے لوٹی ، کب لوٹی ، کہاں ثابت ہوئی ، کتنی دولت ؟ اپوزیشن کسی ایک یا دو متعین شخصیات کا نام تو نہیں ہے –

آپ نام لیں ، دولت کی مقدار بتائیں ، لوٹ مار ثابت کریں ، مجرموں کو پکڑ کر وصول کریں اور بات ختم – لیکن یہ تقریروں کے ڈھکوسلے کس کے لیے ؟ اگر صرف الزام لگا کر ہی آپ ہر شخص کو مجرم کہنے لگ جائیں تو گزارش ہے کہ خود آپ کی شخصیت بھی تو الزامات سے پاک نہیں – بنی گالہ محل کیس میں ثاقب نثار نے آپ کو رعایت تو دے دی ، کیا عوام مطمئن ہیں؟ اسی طرح فارن فنڈنگ کیس ، بی آر ٹی ، بلین ٹری سونامی کیس ،خیبر پختون خواہ ہیلی کاپٹر کیس جسے بعض سنگین معاملات میں عوام حقیقت جاننے کے لیے ایک عرصے سے منتظر ہیں – اب آپ کہہ رہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس کریں —– تو پھر سوالات اٹھیں گے کہ کون واپس کرے ، کیوں ، کتنی دولت ، کون سی دولت ، کس کو واپس کرے ؟ اچھا ، پھر آپ کے اپنے دور میں آٹا ، چینی ، ادویات ، پٹرول ، گیس ، بجلی ، فیس ماسکس ، بلین درختوں وغیرہ جیسے بہت سے معاملات میں جو لوٹ مار جاری ہے ، اور جس کی رپورٹ آپ کی حکمرانی میں ظاہر ہوئی تھی ، اور جس کا سہرا آپ نے اپنے سر باندھنے کی بھی کوششیں کیں ، جن کی فرانزک رپورٹ کروانے اور جن پر آہنی ہاتھ ڈالنے کے دعوے آپ نے کیے تھے —– وہ سب کہاں ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors

یا ان سب لوگوں سے آپ نے لوٹی ہوئی دولت واپس لے لی ؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں لی ؟ پھر آپ نے کسی فرضی دولت کی واپسی سے اگلے دن مستعفی ہونے کا وعدہ کیا ہے – اگلے دن کیوں ؟ اسی دن کیوں نہیں ؟ پھر ایک اور سوال کہ کوئی آپ کے وعدے پر کیسے اعتبار کرے ؟ آپ نے تو سائیکل پر وزیراعظم آفس جانے کے وعدے بھی کیے ، وزیراعظم ہاؤس میں رہائش اختیار نہ کرنے کے بھی وعدے کیے ، 100 دنوں میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے بھی وعدے کیے ، ایک کروڑ نوکریوں کے بھی وعدے کیے ، پچاس لاکھ گھروں کے بھی وعدے کیے ، اور سانحۂ ساہی وال ، اسامہ ستی کے قتل ، ہزارہ قتل عام کے مجرموں کو سرعام لٹکانے جیسے بہت سے وعدے آپ نے کب پورے کیے ، جو یہ وعدہ پورا کریں گے – اپوزیشن کیا اب آپ سے سیاست سیکھے گی ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply