تحریر زندہ رہتی ہے۔۔شہلا نور

تحریر جسے ہم قلم کاری بھی کہتے ہیں کی تاریخ غالباً اتنی ہی پرانی ہے کہ جب رب کائنات نے قلم کی تخلیق فرمائی اوراسےلکھنے کا حکم دیا اور پھر قلم نے جس لوح پر لکھا اس لوح کو محفوظ فرمادیا، چنانچہ والقلم؀۱ میں جہاں قلم کی قسم کھاکر اسے عزت و بلندی کا شرف بخشا،جسے ہم تحریر کا پہلا ركن کہہ سکتے ،وہیں فی لوح محفوظ؀۲ کے ذریعے تحریر کے دوسرےرکن کی عظمت کومستحکم فرمادیا۔۔ لوح یعنی تختی۔۔۔ اس بات سے جہاں تحریر کی تاریخ سامنے آتی ہے وہیں اسکی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ ایک بات توجہ طلب ہے ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر لکھ دی ہے ،حالانکہ اسے لکھنے کی کیاضرورت تھی؟ وہ تو نسیان سے پاک ہے ۔ بلاشبہ اسکی حکمت وہی جانے، لیکن اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہےکہ اسکے لکھے ہوئے کو اسی کے فضل و کرم سےاسکےکچھ خاص بندے دیکھیں اور اس کے رازوں سے واقف ہوں اور علم سے مستفید ہوں کیونکہ تحریر ایسی چیز ہے جو دوسروں کوفائدہ پہنچاتی ہے۔
آگے چلتے ہیں:
جب نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم پر وحی نازل ہوتی توآپ اس لکھواتے حالانکہ اسکا یادرہنا تو اللہ پاک نے اپنے ذمے لیا تھا کہ

لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ و قرانہ؀۳

“تم یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو ،بے شک اس کا لکھنا اور محفوظ کرنا ہمارے ذمہ ہے”

تو دراصل آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تحریر کروانے کا ایک مقصد دوسروں کو مستفید کرناتھا،اوروہ ہستیاں جنہوں نے وحی الٰہی کو تحریر کیا ،کاتبان وحی کےلقب سےسرفرازہوئے ،اس سے لکھاریوں کامرتبہ واضح ہوتا ہے، کہ جو جتنی بلندمرتبہ، مفید اور احسن چیز تحریر کرے گا،اسکارتبہ بلند ہوتاجائیگا۔ پھر تحریر کو زیادہ مفیدبنانے کےلیے وحی کو ایک مصحف میں یکجا کردیا جاتا ہے اورحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورمیں مزید نسخے تیارکرواکے مختلف ریاستوں میں بھیجے جاتے ہیں ۔۔۔ یہ ہے تحریر کی افادیت۔

نبی کریم کی احادیث کریمہ کو یادکرنے والےحضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ جیسے مضبوط حافظے کے جہاں صحابی تھے وہیں حضرت عبداللہ بن عمرو پہلا مجموعہء حدیث بنام صحیفہ صادقہ سامنے لاتے ہیں ۔ تحریر کی اہمیت اس حدیث مبارکہ سے مزید واضح ہوجاتی ارشاد ہوتا ہے:

قیدو العلم بالکتابة؀۴
علم کو لکھ کر قید کرلو

پھر صحابہ کرام نے اسوہ حسنہ قرار دیئے جانے والی زندگی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احوال کوا س طرح جمع ومحفوظ فرمایا جو مسلمانوں کا خاصہ قرار پایا۔
اسلاف کو دیکھیں تو وہ نہ صرف دروس دیتے نظر آتے ہیں بلکہ اپنے علم کو تحریر کرنے کا التزام کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں، انہی  کی محنت تھی اور وہ اسکی ضرورت سے واقف تھے چنانچہ ابتدائی صدی ہجری کی کتابیں اسلامک  سٹڈیز میں بنیادی ذریعہ علم (primary source) ہیں۔وہ جانتے تھے کہ انسان مر جاتے ہیں تحریریں زندہ رہتی ہیں۔ لہذا تحریر اسلام میں ہمیشہ بلند مقام پر فائز رہی ہے اور مسلمانوں کے لیے فخر کا باعث۔۔ اگر ہم لکھاری کی بات کریں ،تو لکھاری بھی ایک مجاہد ہے چونکہ مسلمان کے لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر ضروری ہے اس لیے جس شخص کو اللہ پاک نے لکھنے کی صلاحیت ودیعت کی ہے ،ضروری ہے کہ وہ اس سے کام لے پھر اگر وہ حق کی سربلندی اور باطل کو جھٹلانے کا کام کرتا ہے تو بلاشبہ وہ جھاد بالقلم کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ یہاں ایک چیز کا ذکر فائدے سے خالی نہیں کہ تحریر دو طرح کی ہوتی ہے ایک مثبت اور مفید دوسری منفی و نقصاندہ ۔ وہ تمام تحریریں جو انسانی زندگی اور خاص کر اسلامی زندگی کے کسی شعبے کسی حصے کی طرف مثبت رہنمائی کرتی ہیں، بلاشبہ وہ مفید ہے اور ایسی تحریر جو منفی رجحان پیدا کرے وہ نقصاندہ تحریر ہے ۔ مثلاً  ایک لکھاری عریانی و فحاشی کے حق میں لکھتا ہے اور ایک اسکے برخلاف تو اس میں سے معاشرے کے افراد کے لیے مفید تحریر کون سی ہوگی؟؟؟ ظاہری بات ہے فحاشی کے نقصانات کا کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا—
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ بروز قیامت ہمیں اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا ہے— ہماری زبان کی کارگزاری تو کراما کاتبین تحریر کررہے ہیں جس سے مقررین کو اسکی نزاکت کا اندازہ کرنا چاہیے وہیں

الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم ؀۵

“جس دن ہم ان کے مونہوں پر مہرلگادیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ کلام کریں گے”۔۔کے ذریعے لکھنےوالوں کو بھی متوجہ کردیا گیا ہے کہ وہ ہاتھ سے کیا چیز تحریر کرتے ہیں۔

ہمیں تحریر کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو سمجھنا ہوگا۔ عصر حاضر میں جہاں یکے بعد دیگرے فتنے سر اٹھا رہے اور اسلام کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اشد ضرورت ہے کہ ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کے دور میں سوشل میڈیا ایک اہم ہتھیار ہے جس کے ذریعے چھوٹی سی بات لمحوں میں دنیا تک پہنچ جاتی ہے چنانچہ ہمیں تقریر و تحریر ہر دو ذریعے سے اسلام کی سربلندی کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ تصاویر و پوسٹرز پر مثبت جملے درج کرنا ہوں یا علمی تحریریں ‘ آپ لکھنا شروع کریں اپنا حصہ ملانے کی کوشش کریں آپکا جذبہ و اخلاص اور مشق جلد آپ کو ماہر اور پر اثر لکھاری بنادے گی، اور آپکی کارآمد تحریر ناصرف موجودہ بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو فائدہ دے گی۔
کیونکہ
“تحریر زندہ رہتی ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

حوالہ جات:-
۱: قلم: ۱
۲: بروج: ۲۲
۳: قیامہ : ۱۶
۴: دارمی و مصنف ابن ابی شیبہ
۵: یس : ٦٥

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply