سنو محمد علی سد پارہ! تم ہمارا فخر ہو۔۔۔۔منصور ندیم

تم نے اس دھرتی کو تبدیلی کی راہ دکھانے کی کوشش کی ہے، جو پچھلی تین دہائیوں سے صرف بندوقوں سے انسانی جسموں کو فتح کرنے کی ایک مذموم روایت پر چل پڑے تھے، محمد علی سدپارہ اس وقت دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کے لیے نکلے ہوئے تھے ،کل سے ان کی کوئی خبر نہیں ہے، اسی مہم میں پاکستان آنے والے بلغارین کوہ پیماہ اس مہم کے دوران حادثے میں ہلاک ہو گئے، بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما اتانس جارجیوف سکاتوف 19 دسمبر 2020 کو پاکستان پہنچے تھے۔۔

اسلام آباد میں مہم کے حوالے سے تمام متعلقہ لوازمات پورے اور مراحل طے کرنے کے بعد وہ 29 دسمبر کو کے ٹو کے بیس کیمپ پہنچے تھے۔ بد قسمتی سے پانچ فروری کو 11 بج کر 20 منٹ پر وہ کیمپ تھری کے علاقے سے نیچے گر گئے۔ حادثے کی وجہ حفاظتی رسے کا ٹوٹ جانا بنی۔ کیمپ تھری 24700 فٹ کی بلندی پر ہے۔ کوہ پیما اتانس جارجیوف سکاتوف کی لاش ایڈوانس بیس کیمپ جو 18000 فٹ کی بلندی پر ہے، سے ملی۔ اتانس کی لاش کو آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے چار بجے سکردو منتقل کیا گیا تھا۔

 

تانس جارجیوف سکاتوف 24 جون سنہء 2014 کو وہ اس وقت مشہور ہوئے تھے، جب انہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا تھا پھر اکتوبر سنہء 2019 تک انہوں نے دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں پر چڑھنے کی کوششیں جاری رکھیں اور ان میں سے 10 کو سر کیا۔ سنہء 2017 میں انہوں نے الاسکا میں ڈینالی چوٹی کو بھی سر کیا، اور اپنا نام ان کوہ پیما کے طور پر دنیا میں منوالیا جنہوں نے دنیا کی سات بڑی چوٹیاں کامیابی کے ساتھ سر کیں۔لیکن کے ٹو K-2 سر کرنے کی مہم ان کی زندگی کی آخری مہم ثابت ہوئی۔

 

پاکستانی کوہ پیما ساجد علی سدپارہ (جو علی سد پارہ کے بیٹے ہیں) جو کہ اس مہم میں اپنے والد کے ساتھ ہی تھے، آکسیجن ریگولیٹر میں خرابی کے باعث سی تھری میں کل دن میں ہی واپس آچکے ہیں۔ کیونکہ ان کا آکسیجن ریگولیٹر کام نہیں کر رہا تھا، ساجد علی سدپارہ کل صبح دس بجے پہاڑ کی باٹل نیک پر تھے جو 8200 میٹر بلند ہے اور اس وقت سب کچھ ٹھیک تھا، سب لوگ بہتر رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے، تاہم سورج غروب ہونے کے بعد مسائل پیدا ہوئے اور ان کے آکسیجن ریگولیٹر نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ساجد علی سدپارہ کے والد محمد علی سدپارہ کی جانب سے 4 فروری کی رات کو ٹویٹ کی گئی تھی کہ ٹیم رات بارہ بجے اپنی مہم پر نکل گئی ہے، انہیں وہاں سے کے ٹو کے ٹاپ (8611 میٹر) تک پہنچنے میں 14 گھنٹے لگنے تھے، لیکن اب 25 گھنٹوں سے بھی زائد ہوگیا ہے ۔

محمد علی سدپارہ اور ان کے بیٹے ساجد علی سدپارہ دنیا کی اس دوسری بلند ترین چوٹی کو بغیر آکسیجن سر کرنے کی کوشش کرنے کی کوشش سے نکلے تھے، اگر یہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو گا۔ جبکہ پچھلے ہفتے نیپالی کوہ پیماؤں کی ٹیم نے پہلی بار کے ٹو موسم سرما میں سر کیا تھا۔ ابھی تک کسی پاکستانی کوہ پیما نے سردیوں میں کے ٹو K-2 کو سر نہیں کیا، محمد علی سدپارہ اور جان سنوری کی تلاش میں اب ریسکیو آپریشن شروع کیا جارہا ہے۔ کیونکہ 24 گھنٹوں سے زائد ہونے کے باوجود دونوں کوہ پیماؤں سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا، اس ریسکیو میں پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر حصہ لے رہے ہیں ۔

 

اس وقت پوری قوم ان کی بحفاظت کامیابی اور واپسی کے لیے دعا گو ہے، وہ بخیریت ہوں اور اس دھرتی کی مٹی کو ان پر مان ہوگا کہ اس مٹی نے ایسے سپوت جنے ہیں۔

 

سنو محمد علی سد پارہ!

تم نے پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنےکی کوشش کی، اگر تم کامیاب نہ بھی ہوئے تب بھی تم نے 22 کروڑ لوگوں کے دلوں کو فتح کرلیا ہے ، ہمیں نہیں معلوم کہ تم ابھی کہاں ہو، مگر یقین جانو تم اس قوم کے بیٹوں کو فتوحات کا حقیقی سبق سکھانے کا آغاز دے گئے ہو۔ تم ہی ہمارے ہیرو ہو جو آنے والی نسلوں کو بندوقوں اور تلواروں سے ہٹ کر سوچنے کا نیا ڈھنگ دے رہے ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

سنو محمد علی سد پارہ ! تم اس قوم کافخر ہو۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply