ایک خیالی انٹرویو(زنگار/عامر ہاشم خاکوانی)۔۔محسن علی خاں

تھکاوٹ کے باعث کروٹیں کم بدلیں اور آنکھیں جلد بند کر لیں، نیند آدھی موت ہے کے مصداق، روح جسم سے جُدا ہوئی، وادیوں، چشموں، باغوں بہاروں سے ہوتی ہوئی عالم اروح کی طرف نکل گئی۔ شعور میں کُھلی آنکھیں بس اتنا ہی دیکھ سکتی تھیں جتنا شدید ترین دُھند میں ایک ٹمٹماتا چراغ دکھائی دے۔ جلد ہی شعور نے بھی الوداع کیا، لاشعور نے برق رفتاری سے ذِی طُوَی کے مقام پر اس کا خیر مقدم کیا۔ منازل پر منازل طے کرتا ہوا بالآخر عالم ارواح پہنچ کر روح میں جذب ہو گیا۔

وہیں میری ملاقات ایک شریف الطبع، سفید نکھرا ہوا رنگ، گول چہرہ، کشادہ پیشانی، لب و لہجہ میں ملاحت، وضع داری اور متبسم مروت کا سرچشمہ، شخصیت میں وقار و خلوص، گفتگو عالمانہ و فلسفیانہ لیکن انداز بیان انتہائی شُستہ، سادہ و عام فہم اور ملن سار روح سے ہو گئی۔ کچھ ہی دیر میں پتہ چل گیا کہ ان کا سونا بیٹھنا، رہنا سہنا، جینا جاگنا، اوڑھنا، بچھونا صرف لکھنا اور مطالعہ کرناہے۔ اُن کی صحبت میں کچھ دیر بیٹھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ہم دونوں میں ایک لکیر حائل تھی، اس طرف مطمئن لوگ تھے، میں اس طرف کھڑا تھا جہاں ہم سب بے چین تھے، لیکن حیرت کی بات یہ تھی، ہمارے گروپ میں بڑے بڑے صاحب علم بھی تھے، اس پر تجسس ہوا کہ یہ لوگ تو مطمئن والی ٹولیوں میں ہونے چاہیے تھے، یہ ادھر کیوں گھوم پھر رہے۔ دائیں بائیں سے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ انہوں نے علم کی سیڑھیاں تو پھلانگ پھلانگ کر بلند منازل طے کیں لیکن ہر گزرا زینہ کاٹتے رہے تاکہ کوئی اور نہ پیچھے آۓ اور ان کی زنبیل میں چھپی علم کی میراث کند اذہان کے لیے گمشدہ رہ جاۓ۔ جب منزل پر پہنچ کر دل میں وسوسہ آیا کہ مبادا کوئی کاٹے ہوۓ زینے مانگے تانگے کی میخوں سے جوڑ کر پیچھے ہی نہ آتا ہو۔ اس فکر میں انہوں نے بلندی سے جُھک کر جب نیچے دیکھا تو اپنی شملہ سنبھال نہ سکے،وہ سر سے اُتری کشش ثقل کی مار کھاتی ہوئی زمین پر جا گری۔ محنت اکارت گئی، ایک پل میں مطمئن سے غیر مطمئن ہو گئے۔

چونکہ ابھی نیند میں ہیں، تو واپس دنیا میں جانے کا موقع ہے۔ اچھا، تو واپس جا کر کیا کریں گے؟ واپس جا کر اب اپنے علم کو قلم کے راستے لوگوں تک پہنچائیں گے، اُن کے قلب میں آبیاری کریں گے۔ اپنی زنبیل کاٹ ڈالیں گے اور میراث سب میں بانٹ دیں گے۔ اس کا مطلب اصل بات صرف علم کی نہیں، علم کو قلم سے پھیلانے میں ہے، ناخواندہ کو خواندہ بنانے میں ہے۔

میں نے فوراً اس خوش اخلاق شخص کی طرف نگاہ کی، جو کسی گہری سوچ میں گُم مسکرا رہا تھا۔ یہ کیا؟ ہاتھوں میں جنبش ہے اور قلم ہے۔ آہ۔ اسی لیے مطمئن ہے۔ قلم سے خوب لکھتا ہو گا، جو پڑھتا ہو گا اس کو آگے پھیلاتا ہو گا۔ یہ تو بہت خوبصورت بات ہے۔ اس عاجز و انکسار کے پتلے سے بات تو کر کے دیکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جناب۔ آداب۔ میں ایک خیالی صحافی ہوں، زندہ رویے والے احباب سے گفتگو کرتا رہتا ہوں، کیا میں آپ سے کچھ بے ترتیب سوال کر سکتا ہوں؟
“جی آپ کر سکتے ہیں
، لیکن میرا ہر جواب ایک ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل ہو گا”۔
میں آپ کے جوابات سے عنوان نکال کر یہاں لکھ دوں گا، آپ کے مکمل جوابات آپ کی کتاب ” زنگار ” کے توسط سے تمام دوست احباب تک پہنچا دوں گا۔ تو آپ سے بات شروع کرتے ہیں۔
سوال: آپ کو مخاطب کرنے کے لیے آپ کا نام؟
جواب: زنگار
سوال: آپ ایک ہیں؟
جواب: ابھی ایک ہوں، دوسرا وجود تکمیل کے مراحل میں ہے۔
سوال: اُس کو زنگار ٹو ہی سمجھیں؟
جواب:جی ہاں
سوال: آپ کا حرف تشکر؟
جواب: خدا کو اس کی رحمتوں سے پہچاننا
سوال: قلم کا استعمال؟
جواب: لکھنے کا سفر، کچھ یادیں، کچھ باتیں
سوال: کب تک لکھیں گے؟
جواب: لاہور کا آخری داستان گو بننے تک
سوال: کوئی حد؟
جواب: یوٹوپیا سے ڈسٹوپیا تک
سوال: افسردگی؟
جواب: بوڑھے کرنل کی موت
سوال: کس کا ساتھ چاہتے؟
جواب: بُک بکٹ میں، میری پسندیدہ کتابیں
سوال: مطمئن ہونا آسان ہے؟
جواب: کامیابی کا رستہ مختصر نہیں ہوتا
سوال: اس جہاں سے پہلے کہاں تھے؟
جواب: خس و خاشاک زمانے
سوال: کیا پڑھتے ہیں؟
جواب: پہلے سے بتا دی گئی موت کا روزنامچہ
سوال: دل کب بوجھل ہوتا ہے؟
جواب: جب کلچر بدل جاتا ہے، کلچر کی قوت
سوال: آج کا انسان کیا ہے
جواب: مشین
سوال: دیر تک کس کو دیکھا؟
جواب: ٹکڑوں میں بٹی تصویر
سوال: پسندیدہ ناول؟
جواب: ناول جو خواب دیکھنا سکھاتا ہے
سوال: کیا حاصل کریں؟
جواب: عظمت کا راز
سوال: کیسے؟
جواب: خیال کی طاقت سے
سوال: ابھی کیا پڑھنے کے لیے چاہتے ہو؟
جواب: پُرانے اخبار کا ٹکڑا
سوال: نوجوان کیا کریں؟
جواب: اپنے آپ سے مقابلہ، ڈیڈ لائن کرائسس سے باہر آئیے
سوال: طریقہ؟
جواب: ترقی کا آٹھ نکاتی فارمولا
سوال: مستقبل؟
جواب: پلاسٹک کارڈ اکانومی
سوال: فوری عمل؟
جواب: موبائل کا ضابطہ اخلاق
سوال: بزرگ کیا کریں؟
جواب: کام میں لگے رہیں، بنیادیں درست کرنے کی ضرورت ہے
سوال: اگر عمل نہ کیا تو؟
جواب: انجام
سوال: ہمارے عمل کا راستہ؟
جواب: صرف ایک خوبی، راہ اعتدال، عافیت
سوال: آپ ابھی کیا کھائیں گے؟
جواب: نہاری
سوال: کتنی دیر تک؟
جواب: صرف آدھا گھنٹہ
سوال: پیٹو شخص کیا کرے؟
جواب: نئے ذائقے دریافت کیجیے
سوال: آج کل کون پسند ہے؟
جواب: واٹس ایپ کا بانی
سوال: امیر ہونے کا نسخہ؟
جواب: زندگی میں سمسٹر نہیں ہوتے، شارٹ کٹ نہیں، لائف از ناٹ فیئر، غربت صرف مرنا نہیں سکھاتی
سوال: صاحب علم ہونے کے واسطے کیا درکار؟
جواب: ایک ننھی سی شمع
سوال: زندگی میں کیا واپس چاہیے؟
جواب: کیلنڈر سے چرایا ہوا ایک گھنٹہ
سوال: چیلنج سے ڈر لگے تو؟
جواب: لفٹ سے باہر نہ نکلیں
سوال: درویش کون ہیں؟
جواب: اُخوت،روشنی پھیلانے والے ڈاکٹر انتظار بٹ
سوال: مشکل وقت میں کیا سوچتے ہیں؟
جواب: یہ وقت بھی گزر جاۓ گا
سوال: تصوف؟
جواب: کرنا چاہیے اور کر دینے میں فرق
سوال: نعمت
جواب: اللّٰہ کا فصل
سوال: کیسے پائیں؟
جواب: تھوڑے پر اکتفا، جو ضرورت سے زائد ہے
سوال: ولی؟
جواب: جو دِلوں کو جوڑتے ہیں
سوال: علم
جواب: نامعلوم کی آگہی
سوال: سیاست؟
جواب: چپاتی کا سفر،
سوال: زوال؟
جواب: قومیں نہیں، قیادت ناکام ہوتی ہے، تب فصیلیں زمیں بوس ہوتی ہیں۔
سوال: مثال؟
جواب: ہیلن آف ٹراۓ
سوال: کس کا سایہ چاہتے ہیں ؟
جواب: اُم الکتب
عامر خاکوانی صاحب پاکستان کے ایک مایہ ناز مصنف/ادیب/کالم نگار/موٹیویشنل لکھاری ہیں۔ زندہ دِل انسان ہیں۔ صرف مثبت باتیں کرتے ہیں۔ قلم سے علم پھیلا رہے ہیں۔ معلوماتی اور فکری جلا بخش تحاریر کے ذریعے معاشرے کو آکسیجن فراہم کرنے کی کوششوں میں جُٹے ہوۓ ہیں۔ اپنی کتاب ” زنگار ” میں بہت عرق ریزی سے ان تحاریر کا انتخاب کیا ہے جس کو ہر گھر کا سربراہ لازمی اپنے گھر میں نہ صرف خود پڑھے، اپنے بچوں و خواتین کو بھی پڑھاۓ۔ وجہ صرف ایک ہے۔ عملی زندگی میں اچھے رویے کا اطلاق اور خرابیوں سے بچاؤ۔ نوجوان جو اپنے متعلق تذبذب کا شکار ہیں، آپ کے ایک دن کی پاکٹ منی سے بھی آدھی قیمت کی یہ کتاب، آپ کی آنے والی بہترین زندگی کا پہلا زینہ بھی ہو سکتی۔ آگے بڑھ کر کتاب خریدیں، زینہ چڑھیں، منزل پائیں۔

Facebook Comments