مہمان بلائے جان۔۔۔۔ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ

 ہماری آج کی روداد ان دکھی لوگوں کے نام جن کے گھر مہمانوں سے اٹے رہتے ہیں۔ ویسے تو مہمان رحمت ہوتے ہیں مگر کچھ مہمان ایسے بھی ہیں جن کے نہ آنے کا وقت مقرر ہوتا ہے اور جانے کا تو خیر بالکل ہی نہیں ہوتا۔ جب یہ آتے ہیں تو جانا بھول جاتے ہیں۔ کیا سمجھے آپ؟ کہ یہ بوریا بستر لے کے آتے ہیں؟ اجی نہیں حضرت۔ یہ ہمارے گھر بالکل خالی ہاتھ آتے ہیں اور ہمارے ہی بوریے و بستروں میں قیام ِلیل و نہار کرتے ہیں۔ ان کو ہمارے گھر پرمکمل تصرف حاصل ہوتا ہے بچوں کے کھلونوں سے لے کے ہماری الماری میں ٹنگے استری شدہ کپڑوں تک اور کچن میں موجود بسکٹ کے ڈبوں سے ہمارے موبائل تک ہر چیز کو بلا اجازت بلا تکلف بلکہ بے دھڑک یوں استعمال کرتے ہیں کہ ہم تو بس منہ ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے مہمان جن کو بلائے جان کہنا زیادہ مناسب ہوگا تقریبا ہر گھر کا مسئلہ ہیں۔ ہمارے ایک رشتے دار جن سے ہماری کافی دوستی بھی ہے خود کو فیس بکی دانشور کہتے ہیں اور یہ کہ فیس بک پہ ایک بڑا حلقہ ان سے مشورے لیتا ہے۔ عمران خان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پنکی سے شادی کرنے کا مشورہ بھی انھوں نے ہی دیا تھا۔ ایک دن ہم نے اپنے انہی فیس بکی دانشور دوست سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ دانشور صاحب نے چند لمحے سوچا اور فرمایا اب وہ مہمان جب آئیں تو ان کو کچھ رقم بطور قرض دے دینا۔ پھر دیکھنا وہ رقم کی واپسی کے تقاضے سے بچنے کے لئے تمھارے گھر کا راستہ ہی بھول جائیں گے۔ ہم یہ سن کے اچھل ہی تو پڑے دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا دانشور دوست کا ڈھیر سارا شکریہ ادا کرکے فورا گھر کا رخ کیا۔ میاں جی کو ایک طرف لے جاکے انھیں بھی شریک غم اور راز کیا۔ میاں جی نے ہمیں گھور کے دیکھا اور بولے بیگم مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں آپ ان کو زحمت سمجھتی ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے ۔ وہ تو ٹھیک ہے میاں جی ہم ہکلانے لگے مگر یہ رحمت ساری کی ساری ہمی پہ کیوں برس رہی ہے اس میں دوسروں کا بھی تو حصہ ہونا چاہیے۔ ہم نے دلیل دی۔ ساتھ ہی ناز سے ان کے کندھے پہ سر رکھ کے بولے دیکھیں نا ہمیں تو ان کی مہمانداری سے آپ کے لئے وقت ہی نہیں مل پاتا۔ یہ وار ایسا نہ تھا کہ خالی جاتا میاں جی کو راضی ہوتے ہی بنی۔ میاں جی نیم دلی سے راضی تو ہوگئے مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ دی کہ قرض دی جانے والی رقم تم دوگی۔ ہم بخوشی راضی ہوگئے اور گھریلو کرپشن سے کمائی دولت کا ایک بڑا حصہ میاں جی کے حوالے کردیا چند دن ہی گزرے ہوں گے کہ مہمان موصوف کی پھر تشریف آوری ہوئی۔ ہم نے اٹھ کے نہایت گرم جوشی سے ایسا والہانہ استقبال کیا کہ موصوف حیران ہی رہ گئے حال احوال کے بعد ہم نے سرسری سا لہجہ بنا کے ان کے کاروبار کی بھی خیریت پوچھ ڈالی بس پھر کیا تھا انھوں نے بتایا کہ ان کا کاروبار سرمائے کی کمی کی وجہ سے ڈوبنے کو ہے اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ہم نے دل ہی دل میں نہال ہوتے ہوئے فورا ہی انھیں اچھی خاصی رقم کی پیش کش کر ڈالی موصوف تو دم بخود ہی رہ گئے اور لگے شکریہ نوازش کی تکرار کرنے خیر قصہ مختصر ہم نے انھیں اسی دن ایک لمبی چوڑی رقم کا چیک میاں جی سے لکھوا کے ان کے ہاتھوں میں پکڑا دیا۔ مہمان موصوف اور ہماری باچھیں یکساں چری ہوئی تھیں ہم دل ہی دل میں ہنس رہے تھے اور کہہ رہے تھے لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا اگلے ہی دن موصوف چیک سنبھالے گھر کو روانہ ہوئے۔ ایسا ہمارے گھر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ وہ صرف ایک دن ہی ٹھیرے ہوں ہمارا دل اپنے پلان کی کامیابی پہ لڈیاں ڈالنے لگا۔ ہم نے فٹافٹ اگلے دن پکچر پہ جانے اور باہر ڈنر کرنے کا ارادہ بنا لیا۔ مگر یہ کیا؟ ابھی تو جشن منانے بھی نہ پائے تھے کہ وہ اگلے ہی دن پھر موجود اور اس بار وہ اکیلے نہ تھے بلکہ ان کے پانچوں بچوں کے علاوہ ان کی برقعہ پوش اہلیہ اور ایک ضعیف العمر جوڑا بھی تھا جن سے انھوں نے تعارف اپنے والدین کی حیثیت سے کرایا۔ بجلی تو ہم پہ جب گری جب تعارف کراتے ہوئے موصوف نے اپنی باچھیں چیرتے ہوئے کہا بھئی میں نے تو سوچا کہ میں تو آتا ہی رہتا ہوں اب کی بار بیوی بچوں کو بھی آپ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملنا چاہیے اور رہے اماں و ابا تو ابا کو میں نے بتا دیا کہ آپ کتنے خوشحال ہیں اور بڑے دل والے لوگ ہیں یہاں آپ سبھی کی خوب خوب خدمت ہو گی۔ بس دوستو وہ دن ہے اور ہم ہیں۔ سال ہوچکا ہے نہ وہ گھر جاتے ہیں نہ کام کرتے ہیں جب بھی ہم کو جانے کا کہتے ہیں تو کاروبار میں لگانے کو ایک اور موٹی رقم کا مطالبہ کردیتے ہیں۔ لو جی کر لو گل۔ اب ہم اپنے ہی گھر میں مہمانوں کی طرح رہتے ہیں ان کی، ان کے بچوں اور والدین کی خدمت کرتے اور آہیں بھرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply