• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سائنس اور ٹیکنالوجی سے عاری لوگ دنیا کے امام نہیں بن سکتے۔۔اسد مفتی

سائنس اور ٹیکنالوجی سے عاری لوگ دنیا کے امام نہیں بن سکتے۔۔اسد مفتی

امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آدف سائنسز سے خبر آئی ہے کہ اکیڈمی میں کلوننگ کے بارے میں ریسرچ کرنے والے ادارے کے سائنس دانوں کے درمیان گزشتہ دنوں بحث و مباحثہ کے دوران یہ موقف سامنے ٓیا کہ انسانی کلوننگ کی کوشش ناکام ہوجائے گی۔

امریکی سائنس دانوں کے بقول اگرکلوننگ کے ذریعے بچے پیدا کربھی لیے گئے تو وہ معذور پیدا ہوں گے،کہ کلوننگ کی ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں،غیر موثر اور خطرات سے پُر ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق جب حیوانوں کی کلوننگ بھی کی جاتی ہے تو محض پانچ فیصد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے۔اس لیے وہ امریکی حکومت سے سفارش کریں گے وہ کلوننگ پر پابندی لگادیں۔
یہ تو تصویر کا ایک رُخ۔۔آئیے اب آپ کو بتاؤں کہ “بات”کہاں تک بڑھ چکی ہے۔س

جنگ کے قارئین کو یاد ہوگا کہ اسی سال جنوری میں نا صرف بلکہ کلوننگ بندر کی تصویر بھی شائع ہوئی تھی،کہ امریکی سائنسدانوں نے ایک بندر پیدا کرلیا ہے،جس میں کلوننگ کے ذریعے مصنوعی طور ہر جینی تبدیلیاں کرلی گئی ہیں۔بندر کا یہ بچہ جسے اینڈی کا نام دیا گیا ہے۔یہ بندر دنیا کا پہلا ایسا بندر ہے جس کو مطلوبہ جینی تبدیلیوں کے ساتھ وجود میں لایا گیا ہے۔سائنس دانوں کے اس کلوننگ کے کارنامے کی بنیاد پر یہ توقع یقین میں بدل گئی ہے کہ ا  س کامیابی کے خطوط پر تحقیق کرتے ہوئے انسانوں و لاحق ہونے والے بعض پریشان کُن امراض کا علاج ڈھونڈ نکالا جائے۔ایسی بیماریوں میں تمام قسم کا کینسر،پارکنس کا عارضہ،ذیابطیس،ہارٹ اٹیک اور ایڈز وغیرہ شامل ہیں۔

جینی تبدیلیوں اور کلوننگ والے بندر کو وجود میں لانے والی ڈاکٹروں کی ٹیم کے سربراہ پروفیسر جیرالڈ شاٹن (اس پروفیسر نے چند ماہ قبل ہالینڈ کا دورہ کیا تھا)نے بتایا کہ یہ کامیاب تجربہ بیماریوں کے علاج کے ضمن میں ایک اہم قدم ہے،اور ہم یہ محسوس کررہے ہیں کہ یہ کامیاب تجربہ انسانی تاریخ کے ایک غیر معمولی وقوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔جینی تبدیلیوں والا یہ بندر انسانی کلوننگ کا پیش خیمہ بن گیاہے۔

انسانی حیات کا معمہ سلجھانے میں سائنس کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

اس کی سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ موذی او موروژی امراض پر قابو پایا جاسکے گا۔اور نئے علاج اور دوائیں وجود میں آسکیں گی۔

دراصل قدرت نے جین اور کروموسومز میں حیات انسانی کی حیاتی کیمیائی ہدایات کا ضابطہ محفوظ کردیا ہے۔اسے کھولنا اور سمجھنا اب تک ممکن ہی نہیں تھا،اس کی بعض جزئیات کو سمجھا گیا تھا،لیکن مجموعی طور سے یہ ضابطہ معمہ بنا ہوا تھا،سائنس دان اس جستجو میں تھے کہ اسے کُلی طور پر سمجھ لیں،یہاں تک کہ برطانیہ اور مریککہ کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر ریسرچ اور تحقیقات کے ذریعہ کامیابی حاصل کرلی یہ اس قدر بڑی کامیابی ہے کہ اسے اب تک کے سب سے اہم سائنسی کارناموں میں شامل کیا گیا ہے،یہاں تک کہ یہ پہیہ کی ایجاد اور ایٹم کو توڑنے سے بھی بڑی کامیابی مانی گئی ہے۔

تاہم بعض حلقوں کی جانب سے اس تجربہ کی مذمت کی جارہی ہے جس میں مذہبی جذبات جاری رکھنے والے سائنسدانوں کا ایک معمولی گروہ شامل ہے ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کے تجربے خدا کی کاریگری میں مداخلت کی حیثیت رکھتے ہیں،لہذا ایسے تجربوں سے سائنس دانوں کو گریز کرنا چاہیے ان لوگوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ہوسکتا ہے ان تجربوں کو آگے بڑھاتے ہوئے سائن دان ایسے انسانوں کو بھی تخلیق کرنے لگیں جن میں مرضی کے مطابق جینی تبدیلیاں کی گئی ہوں اور اگر یہ سب کچھ انسان نے کرڈالا تو خدا کے لیے کرنے کو کیا رہ جائے گا،لیکن اوریگان ریجنل پرائی میٹ ریسرچ سنٹر ے پروفیسر شاٹن نے ان تمام خدشات کو بے بنیاد بتایا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جینی تبدیلیوں کے ساتھ پیدا ہونے والا یہ بندر صحت کے اعتبار سے بے حد چا و چوبند ہے اور اپنے دوسرے دوساتھیوں کے ساتھ خوب کھیلتا کودتا رہتا ہے،ان کو یہ اُمید ہے کہ اس تجربہ کی روشنی میں نہ صرف بیماریوں کے علاج میں بے پناہ مدد ملے گی بلکہ اس سے بعض کارآمد اعضاء بھی لیبارٹر ی ہی میں تیار کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس بندر کو اینڈی کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ جب اسے انگریزی میں اُلٹا پڑھا جائے تو یہ INDAبنے گا،جس کے معنی INSERTED DNA یعنی مصنوعی طور پر داخل کیا گیا DNA۔۔اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس بندر کی پیدائش کے لیے جو ڈٰ این اے استعمال کیا گیا،اس میں جیلی فش کا ایک اضافی جین الگ سے داخل کیا گیا تھا،اس طرح تبدیل شدہڈی این اے سے ایک بندریا کے جین کو کراس کیا گیا پھر اس سے بندر اینڈی وجود میں آیا۔

اس تجربہ کی بنیاد پر سائنس دان اب اس قابل ہوچکے ہیں کہ وہ کلوننگ کے علاوہ کسی بھی بیماری جیسے کینسر کی بیماری کے جین کو داخل کرکے اس سے اس بیماری کی مدافعت پیدا کرنے والا ویکسین تیار کرسکتے ہیں،جس سے نوع انسانی کو کس قدر فائدہ پہنچے گا،اسے ڈاکٹر حضرات ہی بخوبی سمجھ سکتے ہیں،

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر شاٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے بندر کا کلون تیار کرنے کے لیے اس لیے منتخب کیا ہےکہ اس سے قبل ڈوبی نامی بھیڑ کا کلون تیار کیا تھا اور چونکہ بندر اپنی ساخت اور فعالیات اور نفسیات کے حوالے سے انسانوں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں،لہذا اب ت کو تجربات چوہوں اور بھیڑوں پر کیے جارہے تھے،ان کو ترک کرے ہم نے بندر کومنتخب کیا ہے،اور ان سے نہائیت حوصلہ افزاء نتائج ہمارے سامنے آئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اب بندروں کے بعد براہ راست انسان کی باری ہے۔
محبت ندگی بن کر محیطِ بزم ِ امکاں ہے
اگر سِمٹے تو انساں ہے،اگر پھیلے تو یزداں ہے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply