سکوک جاری کرنے کا فیصلہ۔۔محمد ارسلان طارق

صکوک یا سکوک کے حوالے سے آج کل خبریں گردش میں ہیں جس کے مطابق حکومت پاکستان نے اسلام آباد ایکسپریس وے ، علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور F-9 پارک اسلام آباد کے عوض سکوک جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مگر سکوک ہے کیا ؟
سکوک شرعی اصولوں کے تحت جاری کیے جانے والے اسلامی بانڈز ہیں جوایسے بانڈز کے متبادل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں جو سود پر مبنی ہوتے ہیں جس میں حکومت عوام سے قرضے کی صورت رقوم لیتی ہے جس پر ایک مخصوص ریٹ پر سود دیا جاتا ہے اور ان کے بدلے عوام کو بانڈز سرٹیفیکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔

جبکہ سکوک اثاثہ جات پر مبنی بانڈز ہوتے ہیں جس میں حکومت کی طرف سے ایک علیحدہ فرم (special purpose vehicle) کو وجود میں لایا جاتا ہے حکومت اس فرم کے ذریعے اپنے مخصوص اثاثہ جات عوام کو بیچ دیتی ہے اور عوام ان اثاثہ جات کی خریداری کے لئے اسی فرم کے ذریعے حسب ضرورت انویسٹمنٹ کر کے اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔

اس انویسٹمنٹ کے بدلے عوام یعنی سرمایہ کاروں کو حکومت کی جانب سے سکوک سرٹیفیکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی سرمایہ کاری کے بقدر ان حکومتی اثاثہ جات کے مالک ہوتے ہیں۔
مخصوص فرم کے ذریعے جب ان اثاثہ جات کی ملکیت سرمایہ کاروں / سکوک سرٹیفیکیٹ ہولڈرز کو منتقل ہو جاتی ہے تو پھر یہی اثاثہ جات حکومت کو لیز پر یعنی کرایہ پر دے دیے جاتے ہیں اور حکومت ان اثاثہ جات کو استعمال کرنے کے بدلے سرمایہ کاروں / سکوک سرٹیفیکیٹ ہولڈرز کو رینٹل پیمینٹس (کرایہ) عوام کو دیا جاتا ہے۔

اور بالآخر لیز کی یا سکوک سرٹیفیکیٹس کی مدت ختم ہونے کے بعد حکومت یہ اثاثہ جات واپس خرید لیتی ہے جس صورت میں عوام یعنی سرمایہ کار / سکوک سرٹیفیکیٹ ہولڈرز کو ان کی اصل رقم واپس مل جاتی ہے۔

اور یاد رہے یہ سکوک پہلی دفعہ موجودہ حکومت کے دور میں ہی جاری نہیں کئے جا رہے بلکہ پچھلی حکومتوں کے ادوار میں بھی موٹر ویز اور جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ جیسے اثاثہ جات کی بنیاد پر بھی یہ سکوک جاری کیے جا چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزید یہ کہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر سکوک سرٹیفیکیٹس جاری کرنے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ سال 2019 کے اختتام تک 1247 بلین ڈالرز کے سکوک عالمی سطح پر جاری کیے جا چکے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply