• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حقیقی انقلابی پارٹی کی تعمیراور بین الاقوامیت۔۔محمد عرفان چوہدری

حقیقی انقلابی پارٹی کی تعمیراور بین الاقوامیت۔۔محمد عرفان چوہدری

پاکستان ميں حقيقی انقلابی سياسی کارکنوں کے ليے يہ سوال ہميشہ ہی اہميت کا حامل رہا ہے کہ کس طرح ايک انقلابی پارٹی کو تعمير کيا جائے جو لوگوں کے ساتھ  جڑی ہوئی ہو اور محنت کش طبقات کی نچلی پرتيں پارٹی اور اس کی قيادت پر بهرپور اعتماد کا اظہار کرتی ہوں، بلکہ اگر يوں کہا جائے کہ انقلابی پارٹی اور تنظيميں اس طرح سے جڑے ہوئے اداروں کا نام ہے جن کے اندر کوئی باہر سے آنے والا  قيادت اور کارکن کا فرق بهی نہ کر سکے تو غلط نہ ہو گا۔ ايسی جماعتيں ہی انقلاب کرتی ہيں کيونکہ اس طرح سے جڑی پارٹياں ہی رياست کے ظالمانہ اداروں کا مقابلہ کر سکتی ہيں۔ اس طرح سے جڑی ہوئی پارٹيوں کو رياست آسانی سے ختم نہيں کر سکتی۔
اور بُرے سے بُرارياستی جبر بهی انقلابی پارٹی کو عوام اور محنت کش طبقات کی صفوں ميں سے نہيں نکال سکتے۔يونانی ديومالائی کہانيوں کا کردار اينوٹس جِسے دهرتی ماں کا ديوتا گردانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ وه برائی کی قوتوں کيساتھ لڑتا ہوا جب شکست کها کر زمين پر گرتا ہے تو دهرتی ماں کا ديوتا ہونے کے ناطے دوباره دهرتی سے قوت حاصل کر کے کهڑا ہو جاتا تها اور برائی کی قوتوں کے خلاف دوباره جدوجہد کا آغاز شروع کرديتا ہے۔ جب دشمن قوتيں اينوٹس کی اس لافانی قوت کا ادراک کر ليتی ہيں تو پهر دشمن قوتيں اسے دهرتی سے عليحده کر کے فضاء ميں کهڑا کر کے مارتی ہيں۔

اس کہانی کو بيان کرنے کا مقصد يہ تها کہ جن طبقات کی نمائندگی کرنے کا ہم دعوی کرتے ہيں تو ہميں پهر ان کے ساتھ  جڑ کر رہنا ہو گا۔ ان طبقات کے ساتھ  جڑے رہنا ہی ہماری بقاء کی علامت ہے۔ ان طبقات کی زبان، کلچر اورتہذيب کے ساتھ جڑ کر رہنا ہی ہميں اور ہماری جدوجہد کو دوام بخشتی ہے۔ يہی وه چيزيں ہيں جن کی بنياد پر کوئی بهی انقلابی پارٹی اپنے عوام کا اعتماد حاصل کر سکتی ہے۔
اگر انقلابی پارٹی  اپنے عوام کے ساتھ  جڑنے کی بجائے ايسی راه پر چل نکلے کہ جس سے عوام (محنت کش طبقات) اور پارٹی کے درميان فرق ختم ہونے کی بجائے بڑهنا شروع ہو جائے تو ايسی صورت ميں انقلابی پارٹی  جدوجہد سے نکل کر ڈرائنگ روم تک محدود ہو جاتی ہے۔ايسا ہی مسئلہ ہميں جہاں پاکستان ميں محنت کش طبقات کی نمائنده انقلابی جماعتوں اور تنظيموں کے اندر نظر آتا ہے
پاکستان ميں انقلابی جماعت کی تعمير ميں ہميشہ ہی عوام (محنت کش طبقات) کے ساتھ  جڑنے کا فقدان پايا گيا ہے۔ سرد جنگ کے عرصہ ميں جہاں انقلابی سياست کا دعوٰی کرنے والی جماعتيں سوويت يونين کے دوروں پر کمربستہ نظر آتی  ہيں اور انقلابی محاذوں پر کام کرنے والے کارکنوں کے اپنے ملک ميں دورے کم اور سوويت يونين کی سپانسر ورکشاپوں، سيميناروں ميں شرکت زياده نظر آتی ہے۔
اس کے ساتھ  ساتھ بين الاقواميت کے نام پر سوويت يونين کی تعليم دوست پاليسيوں سے اپنے رشتہ داروں، بہنوں اور بيٹيوں کو مستفيد کرانا۔ يہ ايسے اقدام تهے جن کے نتائج خلوص کے باوجود بہت منفی نکلے اور انقلابی جماعت کی تعمير کے عمل کو شديد نقصان پہنچانے کا سبب ہے اور پارٹيوں کے اندر ٹوٹ  پهوٹ اور گروه بندی کا باعث بنے ۔سوويت يونين کے ٹوٹ جانے کے بعد يہ عمل رکا
نہيں بلکہ ايک نئی شکل ميں اس سے بهی بهيانک صورت ميں آگے بڑهنا شروع ہوا جس کے نتيجہ ميں بائيں بازو کی سياست انتہائی موقع پرستی کا شکار ہو کر آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ قيادت اور عوام کے درميان اعتماد کا رشتہ دوراست بلکہ قيادت اور کارکن کا رشتہ ہی شديد طرح کی بد اعتمادی کا شکار نظر آتا ہے جو کہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ سوويت يونين کی شکست و ريخت کے
عمل کے دوران جہاں تيسری دنيا اور بالخصوص پاکستان ميں غير ملکی اين جی اوز نما سياسی تنظيموں کی يلغار بہت زور و شور سے آگے بڑهی اور جہاں اين جی اوز نے بائيں بازو کی جماعتوں کے سياسی کارکنوں کی مايوسی، بددلی اور موقع پرستی کو خوب کيش کرايا اور فائيو سٹار ہوٹلوں کے سيمينار، غير ملکی کانفرنسز اور ورکشاپوں نے گهيرا اس قدر تنگ کر ديا کہ کوئی مست ملنگ سياسی کارکن ہی ہوگا جو اس يلغار سے محفوظ ره سکا ہوگا۔ مزدور بين الاقواميت کے نام پر کسانوں، مزدوروں اور عورتوں کی عالمی کانفرنسيں اور اس کے ليے پاکستان اور تيسری دنيا کے عوامی محاذوں پر کام کرنے والے ليڈروں کے دوروں کا رش اس قدر بڑھ گيا کہ عوامی محاذوں پر کام کرنے والی قيادت بهی اپنے ورکرز اور کارکنوں سے کٹ گئی اور بداعتمادی پارٹی اداروں سے سرائيت کرتی ہوئی نيچے تک پہنچ گئی۔ اگر ان ليڈروں کے پاسپورٹ چيک کيے جائيں تو ملک کے صوبائی دارالخلافوں کے دورے کم اور بيرون ملک دورے زياده نظر آئيں گے۔ ہمارے يہ ليڈران شايد بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کبهی نہيں گئے ہوں گے ليکن دنيا کے سات براعظموں کے اہم ملکوں ميں دورے اور کانفرنسيں اور ورکشاپس زياده اٹينڈ کی ہوں گی۔ جہاں مزدور بين الاقواميت کے نام پر دوره جات پر بات کرنے کا مقصد ہرگز يہ نہيں ہے کہ ہم محنت کش طبقے کی بين الاقواميت پر يقين نہيں رکهتے اور اس کے خلاف بات کر رہے ہيں بلکہ ہم محنت کش طبقے کے نام پر جعلی مزدور بين الاقواميت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔ ہمارے خيال ميں غير ملکی کانفرنسز اور ورکشاپ کو اٹينڈ کرنا محنت کش طبقے کے ساتھ  اصل يکجہتی نہيں ہے بلکہ اصل اور حقيقی يکجہتی يہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر سب سے پہلے اُس نظام کونشانہ بنائيں جو ہر ملک ميں محنت کش طبقے کے استحصال کا موجب ہے۔

کامريڈ چی گويرا نے ويتنام کے ساتھ  اظہاِر يکجہتی کے ليے منعقده ٹرائی کونينٹل کانفرنس (Conference Tricontinental (ميں اپنے بهيجے گئے پيغام ميں کہا تها کہ ويت نام کے ساتھ  اصل يکجہتی يہ نہيں ہے کہ ہم اس کانفرنس ميں بلند و بانگ تقريريں کريں اور مقالے پڑهيں بلکہ اصل اور حقيقی يکجہتی يہ ہے کہ ہم لاطينی امريکہ ميں جگہ جگہ ويت نام تعمير کريں اور امريکی سامراج کی شکست و ريخت کو يقينی بناديں۔آج ہميں بائيں بازو کی انقلابی سياست کو آگے بڑهاتے ہوئے ان تلخ ليکن انتہائی اہم سوالوں پر ازسرنوغور کر کے
بداعتمادی کے ان رشتوں کو ختم کرنا ہے کيونکہ بداعتمادی کے ان رشتوں کو ختم کيے بغير ہم جہاں کوئی حقيقی انقلابی متبادل تعمير نہيں کر سکتے ہيں۔ کامريڈ لينن نے کہا تهاکہ انقلابی جماعت رياست کے اندر رياست کی مانند ہوتی ہے۔

کامريڈ لينن نے جس پارٹی کی تعمير کی بات کی ہے کہ وه اس وقت تک تعمير نہيں ہو سکتی جب تک ہم عوام (محنت کش طبقہ) کيساتھ ايک قابل اعتماد رشتہ نہيں بناسکتے تاکہ عوام اور پارٹی کارکن پارٹی اداروں پر اعتماد کريں اور اس کے فيصلوں کو من و عن تسليم کريں۔
ہمارے خيال ميں پارٹی اور عوام کے درميان مضبوط اور قابل اعتماد رشتہ اس وقت تک تعمير نہيں ہو سکتا جب تک پارٹی اور اس کے کارکنوں کا رشتہ قابل اعتماد اور مضبوط نہ ہو۔ اس ليے پارٹی اداروں اور کارکنوں کے درميان بداعتمادی کا خاتمہ ہر سطح پر ناگزير ہے جس کے بغير آگے بڑهاہی نہيں جاسکتا۔
پارٹی اداروں ميں فيصلوں کا طريقہ کار مارکسی ليننی تنظيمی اصول کے مطابق جمہوری مرکزيت کے تابع ہونا چاہيے اور ہر سطح کے فيصلوں ميں اس کا اطلاق ضروری ہے۔ ہمارے اس مضمون کا موضوع چونکہ پاکستان ميں بائيں بازو کی جماعتوں کے اندر غير ملکی دوروں کے حوالوں سے پارٹی جانيوالی کنفيوژن اور بداعتمادی کی فضاء ہے تو اس ليے ہم اپنی دانست ميں چند ايک گزارشات لکهنا
ضروری سمجهتے ہيں۔ ہمارے نزديک حاليہ تين دہائيوں کی پيدا شده اس بداعتمادی کو ختم کرنے کيلئے صرف اين جی اوز سے سرسرلاتعلقی کا اعلان کرنا ہی کافی نہيں ہے بلکہ اس کے ليے چند ايک واضح اور اصولی فيصلے کرنے کی ضرورت ہے جو کہ ہماری دانست ميں مندرجہ ذيل ہونے چاہيے۔

غير ملکی پارٹی کانفرنسوں اور دوسری مختلف عوامی محاذوں کی ورکشاپوں(عورتوں کے حوالے سے کانفرنس، ماحوليات کے حوالے سے کانفرنس، نوجوانوں کے حوالے سے کانفرنس، پناه گزينوں کی کانفرنسوں، کچی آباديوں کے مکينوں کی کانفرنسيں، کسانوں اور کهيت مزدوروں کی کانفرنسيں، مزدور فيڈريشنوں کی کانفرنسوں) ميں شرکت کے حوالے سے ايک کميٹی تفصيلی غوروخوص کے ليے
بنائی جائے جو اس سلسلے ميں تنظيمی اداروں اور عوامی محاذوں کو کوئی گائيڈ لائن دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر اس طرح کی کانفرنسوں ميں شرکت کرنا ضروری ہو تو وه شرکت برابری کی بنياد پر ہو اور اس نمائندگی کے ليے بھیجے  گئے،نمائندوں کا کرايہ اور دوسرا ضروری خرچ تنظيم کس طرح برداشت کرتی ہے اس کا ادراک تنظيم کو ہونا چاہيے۔ مزدور بين الاقواميت کے ليے ايسی پارٹی کانفرنسوں اور عوامی محاذوں ميں شرکت کرنی چاہيے جہاں تنظيم خود اپنے نمائنده کے آنے جانے کا خرچ برداشت کر سکے اور ايسی کانفرنسوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہيے جہاں پچهلی تين دہائيوں کے مروجہ اصولوں کے مطابق کانفرنسوں کے مبصروں کا خرچ وہاں کی پارٹی خود کر رہی ہو کيونکہ يہ رويہ تنظيموں کے درميان برابری کے رويہ کو ختم کرتا ہے اورDependancy کے رويہ کو فروغ ديتا ہے۔
اس طرح کے واضح اور چند ايک اصولی فيصلے پارڻی قيادت اور کارکنوں کے درميان بداعتماد ی کو ختم کرنے ميں مددگار ہو سکتے،ہيں اور پارٹی ايک جان ہو کر اپنے حقيقی مقصد کے حصول کے ليے آگے بڑه سکتی ہے اور پهر عوام کی نچلی پرتوں ميں اپنی حيثيت کو اينوٹس جيسے جدوجہد کے لافانی کردار ميں تبديل کر سکتی ہے۔
مارکس ازم لينن ازم زنده باد
محنت کش طبقے کی بين الاقواميت پائنده باد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”حقیقی انقلابی پارٹی کی تعمیراور بین الاقوامیت۔۔محمد عرفان چوہدری

  1. آرگینک لیڈرز کا فقدان ہے آرٹیفیشل لیڈرز سے مایوسیاں ہی آڑے آتی ہیں، اور آرگینک لیڈر عوام کے درمیان سے ہی پیدا کئے جا سکتے ہیں جس کے لئے کوئی تیار نہیں

Leave a Reply