مذہب کا سیاسی استعمال۔۔حسان عالمگیر عباسی

ایک مذہبی معاشرے میں اور بالخصوص بقول ڈاکٹر اسرار صاحب رح جس معاشرے کی ماں جمہوریت اور باپ اسلام ہو اور جمہوریت کے بطن سے وطن کا وجود ممکن ہوا ہو تو فطرت یہ ماننے پہ مجبور ہوجاتی ہے کہ مذہب کا جگہ جگہ استعمال ناگزیر ہے۔ مذہب سے خالی سیاست کے علم بردار یا دوسرے الفاظ میں سیکولرازم کا پرچار کرنے والے جب مرحوم و مغفور جناب بھٹو شہید صاحب اور ان کی دختر کی قبور مبارک پہ چادریں چڑھا کر اور پتیاں نچھاور کر کے مذہب سے رسمی تعلق کا تاثر دینے لگیں تو باقی کچھ رہ نہیں جاتا۔

مذہب سے تعلق کی مضبوطی موضوع نہیں ہے, غالب گمان ہے کہ سیکولرز ‘ود ان دا سٹیٹ’ مذہب کی آزادی کا تصور لیے دین داروں یا اسلام بحیثیت نظام کا نعرہ لگانے والوں سے زیادہ نمازی پرہیز گار ہوں یا اس سطح یعنی مذہب کو لے کر دونوں طبقات میں برابری کا تعلق پایا جاتا ہو۔ موضوع دراصل یہ ہے کہ معاشرہ ہی جب ٹھیٹھ مذہبی ہے (مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اسلام آئینی طور پہ سرکاری مذہب ہے) تو مذہب کا استعمال جگہ جگہ ہونا کوئی انہونیوں میں سے نہیں ہے۔ جو مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کے حامی ہی نہیں ہیں لیکن قول و فعل میں تضاد لیے گھومتے ہیں اور ہر موقع پہ استعمال کر کے مذہبی مینڈیٹ یا ایسی سوچ رکھنے والی عوام سے ووٹیں کھسوٹتے ہیں کیسے دین کے علم برداروں کو کہنے لگتے ہیں کہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنا اوچھا ہتھکنڈا ہے۔ جو دین کو بحیثیت نظام اور متبادل کی بات کرتے ہیں وہ حق رکھتے ہیں لیکن جن کا نظریہ ہی الٹ ہے کیسے مذہبی عوام کو کھینچنے اور مائل کرنے کے لیے اپنے حق میں استعمال کر لیتے ہیں۔

یہاں تو ختم نبوت کے نام نہاد مجاہد بھی ایک نہیں کئی وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں حالانکہ جس نام پہ ووٹس کھسوٹتے ہیں ان کا ایوانوں میں نام تک لینے سے ان کے نزدیک بیرونی آقاؤں کی ناراضی مول لینے جیسا ہوتا ہے۔ مذہب کا حربے کے طور پہ یا غلط استعمال دین دار لوگوں کا نہیں بلکہ بیرونی آقاؤں کے جدی پشتی غلام حکمرانوں کا کام ہے۔ دین کو نظام ماننے والوں کا تو حق ہے وہ اسے آگے بڑھ کے استعمال کریں کیونکہ وہ سیاست کو عین عبادت سمجھتے ہوئے عوام الناس کے سامنے وضاحت پیش کر چکے ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ بنا زیر زمین جائے جمہوری طریقوں سے اعلانیہ خدا کے نظام کی کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ دورنگی تو یہاں جنم لیتی ہے جو مذہب کے استعمال کو برائی اور دین داروں کے خلاف ہتھکنڈے کے طور پہ لے کر چلتے ہیں لیکن خود بھی اسی کے سہارے ایوانوں تک پہنچتے پائے جاتے ہیں۔

آپ کا اور ہمارا جی ایچ کیو سے پرورش پانے والا حالیہ وزیر اعظم مذہب کے استعمال کے نتیجے ہی میں امامت کر رہا ہے۔ جی ایچ کیو خود بھی مذہب کے استعمال میں آگے آگے ہے۔ ملک میں مذہب کے نام لیواؤں کو طرح طرح سے لانچ کرنا اور ذاتی مقاصد کی تکمیل کے بعد کچرے کی ٹوکری میں پھینکنا مذہب کا ذات کے لیے استعمال جیسا ہی ہے۔ چند مہینوں قبل فیض آباد بند کروا کے کیا کچھ حاصل کیا گیا, خدا جانتا ہے۔ جہاد، شہادت، اور اسلام کے دیگر ناموں کا استعمال سب سے زیادہ تو انہی   صفوں میں مل رہا ہے۔ ترانوں کو ذریعہ بنا کر جہاد اور شہادت جیسے ناموں کا استعمال عام ہے۔ جب ایک سپر پاور سے مل کر اپنے ہی مسلمانوں کو مارنا دہشت گردوں کے خلاف جنگ کہلائی جائے اور بعد میں تسلیم کر لیا جائے کہ وہ جنگ مسلط کی گئی تھی تو یہ تسلیم کرنا بھی از حد ضروری ہے بلکہ ان چاہے واضح ہو چکا ہے کہ وہ دراصل مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار تھے کیونکہ جنگ ہی پرائی تھی تو اس کی صراحت بھی مقصود ہے کہ مسلمانوں کو مارنے پہ شہادت کے تمغے ذات کے دفاع میں کیوں استعمال کیے گئے۔ اب جب جہاد ترجیحات میں ہی نہیں ہے اور زمینیں اور بیٹیاں پیالوں میں اغیار کو پیش کی جا رہی ہیں، اور مقصد خدا کے نظام کا نفاذ ہی نہیں رہا تو مذہب کا اب تک استعمال کس حساب سے درست قرار دیا جا سکتا ہے۔

مسلم لیگ یعنی مسلمانوں کی جماعت اور ساتھ ہی یہ بھی کہ دائیں بازو کی جماعت ہے کا منجن بیچ کر مذہب کا استعمال ہی تو ہو رہا ہے۔ مذہب پسند حضرات جن کا اسلام بحیثیت نظام رجحان ہی نہیں ہے اس جماعت کی نمائندہ عوامی قوت ہے تو پرانے لیکن پھر سے تیار حکمرانوں کو بتانا ضرور چاہیے کہ مذہب کی خدمت کب اور کیسے کی گئی ہے۔

تمام جماعتیں خواہ بائیں بازو یا دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں مولانا فضل الرحمان صاحب کی صدارت میں پرچموں تلے جمع ہو کر واضح پیغام دے رہی ہیں کہ ایک مذہبی شخص ان کے ذاتی مفادات کے لیے ان کا ‘فیس’ یا چہرہ ہے حالانکہ یہ الگ موضوع ہے کہ مولانا صاحب کیسے اپنے اور اپنے مذہب کے سروائول کے لیے نیلے پیلے جھنڈوں تلے ان مفاد پرستوں سے مذہبی و مسلکی مفادات سمیٹ رہے ہیں۔

مقصود یہ ہے کہ جو مذہب اور سیاست کو جدا جدا سمجھتے ہیں, ایک مذہبی معاشرے میں مذہب کا طرح طرح سے استعمال کر کے تاثر دے رہے ہیں کہ ان کی سوچ دو رنگین ہے۔ جب مذہب کی خدمت مقصود ہی نہیں ہے اور بنیادی سیاسی نظریہ ہی الٹ ہے یا بیرونی آقاؤں کو حکومتی سطح پہ مذہب یا دین کی خدمت پسند ہی نہیں ہے تو ایوانوں تک پہنچنے کے لیے پیروں، درگاہوں، مسجدوں، مزاروں، اور مذہبی تعمیرات کو پارلیمان کا دروازہ کیوں تصور کرتے ہیں۔ یہی یعنی مذہب کا استعمال اگر دین پسند یا اسلامسٹس اپنا بنیادی حق سمجھتے ہوئے کریں تو خوب صورت لگتے ہیں کیونکہ ایک مذہبی معاشرے خصوصاً جس کی ماں جمہوریت اور باپ اسلام ہے میں اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ نیلے پیلے سرخیلے بھی اس سے اب جان نہیں چھڑا سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بھٹو شہید کا قادیانیوں کے حوالے سے کارنامے یا ان کی اپنی سطح پہ کوشش کو لیڈران بھلے بھول گئے ہوں کارکنان اسے پی پی کا کارہائے نمایاں اب بھی تصور کرتے ہیں لہذا مذہب کا استعمال درست ہے کیونکہ مذہبی معاشرے میں ایسا ہونا فطرت کے عین مطابق ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دین داروں کی طرح ڈٹ کے استعمال کریں اور جب مذہب کا استعمال کامیابی دلا دے تو حتی المقدور خدمت بھی کر دینا ضروری ہے۔ جو لوگ مذہب کی خدمات میں پیش پیش ہیں ان کے راستوں میں رکاوٹ نہ بننا بلکہ راہوں کو ہموار کرنا ہی حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں سے بڑا کام لینے جیسا محسوس ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply