تفریق کا مسئلہ (3)۔۔وہاراامباکر

ہر کتے کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں”۔
یہ فقرہ منطقی طور پر درست اور باربط ہے۔
اس میں ابہام نہیں (یعنی گول مول الفاظ نہیں جن کے متعدد معنی نکالے جا سکیں)۔
اس کو ایمپریکل طریقے سے ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔
مشاہدات کے ذریعے اس کی نفی کی جا سکتی ہے۔ ٹھیک؟ تقریباً ٹھیک۔۔
فرض کیجئے کہ مجھے دو ٹانگوں والا کتا ملا جس اس میں کوئی پیدائشی نقص تھا۔ یہ کتا دو ٹانگوں پر کینگرو کی طرح چلنا بھی سیکھ گیا تھا۔ (اور ایسے کتے موجود ہیں۔ گوگل پر سرچ کر کے ان کو چلتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے)۔ کیا اس وجہ سے “کتے کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں” مسترد ہو جاتا ہے؟ کوئی بھی بائیولوجسٹ یا پھر کامن سینس رکھنے والا بتائے گا کہ ایسا کرنا بے وقوفی ہو گی۔ کتے کی چار ٹانگیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ استثنا ہیں اور اس مشاہدے کی وجہ سے ہم اس فیکٹ کو رد نہیں کر دیتے۔ ہم اس میں معمولی ترمیم ضرور کر سکتے ہیں کہ “عام طور پر کتوں کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں۔ کسی ایبنارملیٹی کی وجہ سے ان کی تعداد دو بھی ہو سکتی ہے اور ایسا جانور بھی کتا ہی کہلائے گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح، سائنسدان اپنی تھیوریاں محض اس لئے نہیں مسترد کر دیتے کہ کسی نئی آبزرویشن کی وضاحت نہیں ہو پا رہی (اور نہ ہی ایسا کیا جانا چاہیے)۔ ایسی صورت میں، وہ اس کی تہہ میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیا یہ کوئی استثنائی حالت میں لیا گیا ڈیٹا تھا جو تھیوری کی کور کو چیلنج نہیں کرتا؟ کیا آلے میں کوئی خرابی تھی جس سے حاصل ہونے والی ریڈنگ غلط تھی؟ ایسی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک نوآموز ہی شاید کہے کہ ایک آبزرویشن کی وضاحت دینے کیلئے کسی تھیوری میں ہی ترمیم کی کوشش کی جائے۔ اور یہی تو پوپر کا مرکزی نکتہ تھا۔ اگر نئے مشاہدے کی بنیاد پر تھیوری بدلی جا سکے تو پھر ہم سائنس کو چھوڑ کر مارکسزم یا فرائیڈ کی دنیا میں داخل ہو جائیں گے۔
اگر ہم وضاحت نہیں دے سکتے، تھیوری تبدیل نہیں کر سکتے، ڈیٹا تبدیل نہیں کر سکتے تو کیا تھیوری رد ہو جائے گی؟
یہاں پر معقول توازن کا مسئلہ ہے۔ اگر فالسیفائی کرنے کا معیار زیادہ کڑا ہو تو اچھی سائنس کو بھی باہر پھینک دیا جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف تھیوری میں زیادہ لچک رکھی جائے تو ہم سائنس نہیں، ریشنلائزیشن کر رہے ہیں۔ کیا کریں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سیریز میں ہم اسی طرح کے سوالات کا تجزیہ کریں گے۔ اور اس میں ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تمام سائنس ایک ہی قسم کی نہیں۔ یہ خیال کہ “سائنس کو کرنے کا کوئی ایک ہی طریقہ ہے یا ہو بھی سکتا ہے” ایک واہمہ ہے۔ کہیں پر طریقہ تجربات کا ہے تو کہیں پر سراغ رسانی جیسا۔ کہیں سائنس اور نان سائنس کے بیچ کا دھندلا علاقہ ہے۔ اور پھر ایسے دعوے ہیں جن کو “مہمل باتوں کا ڈھیر” ہی کہا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس حقائق کو پہچاننے کیلئے بہت طاقتور ٹول ہے۔ سائنسی حقائق کی تلاش میں وسیع تناظر کی بحث بھی شامل ہے۔ میڈیا اور سائنس کا گرم سرد تعلق۔ سائنس اور معاشرے کا ایک دوسرے پر گہرا اثر۔ سوڈوسائنس کی عام قبولیت۔ سائنسدان یا دانشور ہونے کا مطلب کیا ہے؟ سائنس کے نقادوں کی بہت سے بے وزن اور کچھ وزنی باتیں۔ اور یہ کہ شعبدہ بازوں، صحافیوں، سیاستدانوں اور سائنسدانوں سے کہاں پر خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ پوپر کے سوال کا سادہ جواب نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی جواب نہیں۔ سائنس کے ہماری روزمرہ زندگی پر ہونے والے اثر اور اس کی طاقت کا مطلب یہ بھی ہے کہ مہمل سائنس کی اچھی سائنس سے تفریق کرنے کو سیکھنا ضروری ہے۔ یہ صرف ذاتی تجسس کی تسکین کے لئے ہی ضروری نہیں۔ سازشی تھیوریوں اور مہمل باتوں کے ڈھیروں کی قبولیت دکھاتی ہے کہ ایسا کرنا اچھے معاشرے کے لئے بھی ضروری ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply