چُوڑے کو پھانسی دو۔۔حبیب شیخ

اس حبس سے بھرے ہوئے بدبو دار سیل میں سہیل مسیح اونگھ رہا تھا ہمیشہ کی طرح۔ گال پچکے ہوئے اور آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں۔ اگر کبھی اس کی آنکھ لگ بھی جاتی تو جلّاد کی شکل، پھانسی کا پھندہ، یا مشتعل ہجوم کی دھندلی تصاویر اسے فوراً جگا دیتیں۔ اس کو صحیح طریقے سے سوئے ہوئے پندرہ سال گزر چکے تھے۔ لیکن آج کسی مختلف آواز نے اسے اٹھا دیا تھا۔
’سہیل مسیح۔‘ یہ کتنی رعب دار آواز تھی۔
’جی سرکار۔‘ پندرہ سالوں میں نجانے کتنی بار اس نےان الفاظ کو دہرایا تھا۔
’سپریم کورٹ نے تمہاری باعزت رہائی کا حکم جاری کر دیا ہے۔ کاغذی کاروائی کےبعد تمہیں صبح دس بجے رہا کر دیا جائے گا۔ کسی نے تمہارے لئے کپڑے بھجوا دیے ہیں جو تمہیں نو بجے مل جائیں گے۔‘

سہیل مسیح کلرک کو اپنی سکڑی ہوئی آنکھیں پھاڑے دیکھتا رہا جیسے اس کو اردو بالکل سمجھ نہیں آتی۔
اس دفعہ کلرک نرمی سے بولا۔ ’تمہیں کچھ سمجھ میں آیا کہ ابھی میں نے کیا کہا ہے‘
’جی سرکار۔ ‘ اس نے گردن ہلا کر کہا ۔

کلرک قریب آ کر بولا۔ ’تم موت کے منہ سے نکلے ہو، دعائیں دو عدالت کو۔‘ پھر وہ ہلکے سے مسکرایا ۔

کلرک کے جانے کے بعد سہیل مسیح کا جسم کانپنے لگا۔ ’کل میں گھر چلا جاؤں گا، آزاد ہو جاؤں گا۔ پندرہ سال بعد۔۔ پندرہ سال گزر گئے، یہ پندرہ سال مجھے کون واپس کرے گا! باہر کی دنیا کتنی بدل چکی ہو گی، پچھلے سال میری جوان بیوی 14 سال میں بوڑھی ہو کر مر گئی، ماں باپ تو پہلے ہی موت کی سزا کی خبر برداشت نہ کر پائے اور خدا کے پاس چلے گئے۔ میں کس کے پاس جاؤں گا، کیسے رہوں گا، کس سے ملوں گا بلکہ کیا کوئی مجھ سے ملنا پسند کرے گا‘ وہ ساری رات اونگھتا رہا اور سوچتا رہا۔ ’ میں باہر کیا کام کروں گا۔ ترکھان کا کام تو میں بھول چکا ہوں ویسے بھی ہاتھوں میں رعشہ آگیا ہے۔ شاید مجھے دوبارہ چوڑا بننا پڑے۔ پھر ہر کوئی مجھے کمتر نگاہوں سے دیکھے گا۔ لوگ مجھے اؤے چوڑیا  کہہ کر ہتک سے بلائیں گے اور مجھے ادھورا انسان سمجھیں گے۔

ناشتہ کرنے کے بعد سہیل نے نہا کر کپڑے بدلے اور رہا ہونے کے لئے تیار ہو گیا۔ دس بجے وہ جیل کے دروازے سے تھیلا اٹھائے ہوئے باہر نکلا تو انسانیت تنظیم کے دو کارکن اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اسے ٹیکسی میں بٹھا کر ایک صاف چھوٹی عمارت کے ایک کمرے میں لے گئے۔ راستے بھر سہیل خوفزدہ آنکھوں سے دونوں طرف دیکھتا رہا۔

ایک کارکن نے آگے بڑھ کر سہیل سے کہا۔ ’اس کمرے میں تمہاری ساری ضرورت کی چیزیں موجود ہیں۔ تم یہاں دو تین دن آرام کرو۔ پھر ہم تمہارا میڈیکل چیک اپ کرائیں گے اور اس کے بعد تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیں گے۔ نیچے ہمارے اسٹاف کا کمرہ ہے، وہ تم سے رابطے میں رہیں گے۔‘
سہیل کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ’میرا گھر‘
’تمہارا گھر جو سنت پورہ میں ہے۔ ہم نے اس کی صفائی کروا دی ہے۔‘
’وہ میرا گھر تھا۔ اب تو وہاں نہ چمپا ہے نہ میرے ماں باپ۔ میں وہاں کیسے رہوں گا، کیا کروں گا‘
’تم فکر نہیں کرو۔ چرچ کا ایک کارکن روز تمہارے پاس آئے گا اور تمہیں سیٹ ہونے میں مدد کرے گا۔‘

 ایک ماہ بعد !
’یہ آلو کیا بھاؤ ہیں؟ ‘ صاف نیلے رنگ کی قمیض شلوار میں ملبوس سہیل نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ وہ بھرے بازار میں سب سے نظریں چرا رہا تھا۔
ٹھیلے والا سہیل کو غور سے دیکھ رہا تھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
’اوئے چوڑیئا، تو باہر آگیا ‘ وہ اونچی آواز سے بولا۔ ’مجھے پتا چلا تھا کہ تو رہا ہو گیا ہے۔‘
’ہاں جی، عدالت نے مجھے با عزّت بری کر دیا ہے۔‘ سہیل نے سر جھکا کر کہا۔
ٹھیلے والا زور سے ہنسا۔ ’اوئے دیکھو اس چوڑے کو۔ یہ کسی حرامزادے وکیل کی جھوٹی دلیلوں سے باہر آ گیا ہے تو معصوم بن گیا ہے۔ تجھ کو عدالت سزا نہیں دے سکتی تو ہم کس لئے ہیں۔ ‘

اب سہیل کانپ رہا تھا اور اس کے جسم کے ہر حصے سے پسینہ بہہ رہا تھا۔ ’خدا کی قسم، کسی نے مجھ سے بدلہ لینے کے لئے تھانے میں تمہارے رسول کی توہین کی جھوٹی رپٹ لکھوا دی تھی۔ میں بے گناہ ہوں یسوع مسیح کی قسم، خدا کی قسم۔ میں نے کبھی تمہارے رسول کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔

دیکھتے ہی دیکھتے مجمع اکٹھا ہونا شروع ہو گیا۔ سہیل ٹھیلے والے سے پَرے سِرک گیا، پھر تیز تیز چلنے لگ گیا۔ کچھ لوگ اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ دو تین لوگوں نے انہیں باتوں میں الجھا کر روکنے کی کوشش کی۔ ’دیکھو، اس کو تنگ نہیں کرو۔ اس کو عدالت نے بری کیا ہے۔ تم لوگ قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔‘

’تم بڑے آئے قانون والے، ہمارا مذہب ہمارا قانون ہے۔ ابھی ہم یہیں اس کا حساب کتاب چکتاکرتے   ہیں۔‘ ایک جیالا چیخا۔
’تم لوگ عدالت کے فیصلے کا احترام کرو۔ یہ تمہارا فرض ہے۔

اتنی دیر میں سہیل مسیح بازار میں واقع تھانے میں گھس چکا تھا اور میز پر بیٹھے ہوئے پولیس والے کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا۔ پولیس اہلکار نے اسے اوپر سے نیچے تک   دیکھا۔ ’بتا، کیا کرنے آیا ہے ادھر؟‘

سہیل نے ٹوٹتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ ’مجھے پچھلے مہینے سپریم کورٹ نے باعزت بری کیا تھا۔ آپ مجھے واپس جیل بھجوا دیں۔‘

Advertisements
julia rana solicitors

باہر سے ہلکی ہلکی نعروں کی آواز اب بلند ہوتی جا رہی تھی۔ ’چوڑے کو پھانسی دو، چوڑے کو پھانسی دو۔‘

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply