بلوغت میں داخل ہوتے لڑکے لڑکیاں اور چڑچڑا پن۔۔شاہد محمود

اوّل یہ کہ سب بچے چڑ چڑے ہن کا شکار نہیں ہوتے۔
جن گھروں میں والدین میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے گھر کا ماحول تناو کا شکار رہتا ہے ،ایسے مسائل وہاں زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔
بلوغت کے ایام میں جسم میں ہارمونز کی وجہ سے متعدد تبدیلیاں آتی ہیں حتی کہ آواز بھی تبدیل / بھاری / ہو رہی ہوتی ہیں تو بعض والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ بدتمیزی سے بول رہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کریں، ان کی بات سنیں چاہے آپ کو غیر اہم ہی کیوں نہ لگے لیکن پوری توجہ سے بچے کی بات سنیں اس کا کوئی مسئلہ ہو تو حل کریں، اس کا کوئی سوال ہو تو جواب دیں اور بلوغت سے متعلق اسے ہلکے پھلکے انداز میں بتا دیں۔

اپنے بچے کی طبعیت کو سمجھیں۔ اس کا مزاج آشنا ماں باپ سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ماں اور باپ الگ الگ شخصیت کے مالک دو افراد ہوتے ہیں “اسی طرح بچہ الگ شخصیت کا حامل ایک فرد ہوتا ہے” اور یہ بنیادی نکتہ اگر سمجھ گئے تو آدھا مسئلہ حل ہو جائے گا اور باقی آدھا بچے کو اس کی شخصیت کے مطابق جگہ space دینے سے۔ یعنی وہ اپنے ہی گھر میں اپنی پسند ناپسند مطابق رہ سکے کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک بچے کی چیزوں کے متعلق پسند ناپسند develop ہو چکی ہوتی ہے اور مسلسل تبدیل بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ اور سب سے آخری اور ایم بات۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بعض والدین بچوں کو punching bag بنا کر اپنے دل کی ساری بھڑاس ان پر نکالتے ہیں کوئی چھوٹی سی بات پکڑ کر لیکچر شروع ۔۔۔۔ یا پھر ہر چند منٹ بعد بچوں کو کسی نہ کسی لایعنی کام سے آواز لگاتے رہتے ہیں تو اس طرح آپ اپنی اور بچے دونوں کی شخصیت کو شکست و ریخت سے دوچار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے اپنے بچے کی انفرادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے سمجھیں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔
سلامتیاں، ڈھیروں پیار اور محبت بھری پرخلوص دعائیں۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بلوغت میں داخل ہوتے لڑکے لڑکیاں اور چڑچڑا پن۔۔شاہد محمود

Leave a Reply