مسلمانوں کو سزا دو۔۔محمود اصغر چوہدری

برطانیہ میں کچھ شر پسندوں نے تین اپریل کا دن ” مسلمانوں کو سزا دینے کا دن“ منانے کا اعلان کیا ہے ۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں بذریعہ ڈاک ایسے لیٹر بھیجے گئے ہیں جس میں برطانوی شہریوں کو مسلمانوں کو نقصا ن پہنچانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔پچھلے مہینے برطانیہ میں چار مسلمان ممبران پارلیمنٹ کو بذریعہ ڈاک ایسے پیکٹ بھیجے گئے ہیں جن میں انسانی صحت کے لئے خطرناک کیمیکلز کی موجوگی کا انکشاف ہوا ہے ۔ ان پیکٹس میں بھی وہی خط موجود تھے جو برطانیہ کے مختلف شہریوں میں  بذریعہ ڈاک بھیجے گئے ہیں ۔اس لیٹر کا عنوان ہے “پنش اے مسلم ڈے “punish a muslim day یعنی مسلمان شہریوں کو سزا دیں

نفرت کے بیوپار یوں نے برطانیہ بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی تشہیرکرنے والے اس خط میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے صلے میں شہریوں کو پوائنٹ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ پوائنٹس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

کسی مسلمان کو زبانی ہراساں کرنے پر 10پوائنٹس، کسی مسلمان عورت کے سر سے سکارف کھینچنے پر 25پوائنٹس ،کسی مسلمان کے چہرے پر تیزاب پھینکنے پر 50پوائنٹ ، کسی مسلمان کو زودو کوب کرنے پر 100پوائنٹس ، کسی مسلمان کو بجلی کے جھٹکوں وغیرہ سے ٹارچر کر نے  پر 250 پوائنٹس ، کسی مسلمان کو پستول، چاقو، گاڑی یا دیگر طریقوں سے ہلاک کرنے پر 500پوائنٹس ، کسی مسجد کو بم سے اڑانے یا آگ لگانے پر 1000پوائنٹس اور مکہ پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ کرنے پر 2500پوائنٹس کا اعلان کیا گیا ۔

یہ لیٹر برطانیہ میں موجود مسلمان شہریوں کے لئے تشویش کا باعث ہے اور انہیں ان خطوط کے بعد محتاط بھی رہنا چاہیے  ۔ برطانوی پولیس اس سلسلے میں تحقیقات کر رہی ہے  کہ یہ کس گروپ کی شرارت ہے البتہ فیس بک پر “برطانیہ پہلے ” والے نفرت انگیز پیج کو ختم کروا دیا گیا ہے ۔برطانوی کاؤنٹر ٹیرر ازم ادارے کا خیال ہے کہ یہ سب گزشتہ سال داعش کی جانب سے برطانیہ میں ہونے والے چاردہشت گردانہ حملوں کے جوابی رد عمل کا شاخسانہ ہو سکتا ہے ۔کیونکہ ایک آن لائن خط میں یہ نفرت آمیز جملے تھے ”انہوں نے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے اور تمہارے پیاروں کودکھ دیا ہے تو تم اس کا  بدلہ لینے کے لئے کیا کر رہے ہو ؟ “

یادرہے اسی سال ایک اڑتالیس سالہ برطانوی شہری ڈیرن اوسبورن کو عدالت کی جانب سے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ ڈیرن نے گزشتہ رمضان دہشت گرد انہ کارروائی  کرتے ہوئے ، لندن کی ایک مسجد سے تراویح ادا کر کے نکلتے نمازیوں پر اپنی گاڑی چڑھا دی تھی۔ جس کے نتیجے میں ایک نمازی شہید اور 12زخمی ہو گئے تھے ۔ مسجد کے نمازیوں نے اسے پکڑ کر برطانوی پولیس کے حوالے کر دیا تھا اور اس کی گاڑی سے بھی ایک نوٹ نکلا تھا  جس  میں اس نے مسلمانوں کو” جنگلی “اور لندن کے مسلمان مئیر صادق خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اسی طرح برطانیہ کے شہر لیسٹر میں پچھلے ہفتے ہی ایک 21سالہ برطانوی نوجوان کو عدالت نے بیس سال قید کی سزا سنائی ہے کیونکہ اس نے ایک حجاب پہنے مسلمان خاتون اور اس کی 12 سالہ بچی کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی ۔خیال کیا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ خطرہ بھی اب لیسٹر میں ہی ہو سکتا ہے۔

لیسٹر میں مسلمان شہریوں کی تعدادکل آبادی کا 20فیصد ہے ۔ البتہ لیسٹر پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اس سے نپٹنے کی بھر پور تیاری کی ہوئی ہے۔ 3اپریل کومسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے تمام سکیورٹی اقدامات کر لئے گئے ہیں ۔ پولیس چیف پاؤل مور کا کہنا ہے کہ ہم نفرت انگیز جرائم کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔

لیسٹر میں مسیحی اور مسلمان تنظیمات نے اس دن کو خوشگوار بنانے کے لئے مختلف پروگرا م تشکیل دئیے ہیں جس میں مسلمان اورغیر مسلم شہری مل کر بچوں کے فیس پینٹنگ اور دیگر کھیلوں کی سرگرمیاں منعقد کریں گے تاکہ دہشت گردوں کو پیغام ملے کہ برطانوی معاشرہ متحد ہے ۔ کچھ شہروں میں تو برطانوی تنظیمات نے اسی دن کو مسلمانوں سے محبت کرنے کادن منانے کا پیغام دیا ہے ان کہنا ہے کہ وہ اس دن مسلمانوں کو پھول پیش کریں گے انہیں کافی پلائیں  گے اور ایسے اقدامات کرنے والوں کو پوائنٹس دیں گے۔

البتہ پنش اے مسلم ڈے کے خطرے کو بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیا گیا ہے ۔سعودی سفارت خانہ اس سلسلے میں برطانوی اتھارٹیز سے رابطہ کر کے اپنی تشویش کا اظہار کرچکا ہے اور دوسری جانب برطانیہ میں موجود اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کاکہہ چکا ہے ۔ برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے پنشن اے مسلم ڈے کے خطوط کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے اور وہ ہر شہر میں انتظامات کر چکے ہیں کہ کوئی بھی شر انگیز اپنی کارروائی میں کامیاب نہ ہو سکے۔

کچھ مسلمان تنظیمات اس دن ہڑتال کی کال دے چکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایک دن پورے برطانیہ کو جام کر کے یہ بتایا جائے کہ ہم اس ملک کے لئے کتنے اہم ہیں ۔ میں ذاتی طور پر اس ہڑتال کو ایک غیر سنجید ہ عمل سمجھتاہوں ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ لیٹر بھیجنے والے اتنے بزدل ہیں کہ وہ چھپ کر وا ر کر رہے ہیں اور ان کا مقصد برطانیہ میں مسلمانوں اوردیگر شہریوں کو آپس میں لڑوانا ، ان کے درمیان نفرت پیدا کرنا اور انہیں تقسیم کرنا ہے۔ ہڑتال کرنے سے ہم ان کے سارے مقاصد پورے کر دیں ۔

سب سے پہلے تو ہم برطانوی عوام کی اکثریت کو پریشان کریں گے جو پہلے ہی ہمارے حق میں بیان دے چکی ہے  کہ وہ ایسے شر پسندوں کے خلاف ہے ۔ تو ایسے میں چند شرپسند عناصر کی وجہ سے اکثریت کو تکلیف پہنچاناانتہائی نا مناسب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شر پسندوں کا ایسی نفرت انگیز تشہیر کا مقصد مسلمانوں کو ڈرانا ہے ۔ اگر ہم اس دن واقعی گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جاتے ہیں تو وہ بغیر ہتھیار اٹھائیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔اس طرح تو وہ ہر مہینے ایسے لیٹر تیار کرنا شروع ہو جائیں گے ۔

ویسے تو پولیس اور دیگر رضاکارانہ تنظیمیں  اس دن کی سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کا عندیہ دے چکی ہیں اور برطانیہ میں موجود مسلمان لیڈرز بھی متحد رہنے کا سبق دے چکے ہیں لیکن اس کے باوجو د ہمیں اس دن احتیاط ضروربرتنی چاہیے ۔ سڑک پر چلتے اپنے ارد گرد کے لوگوں پرنظر رکھیں ۔ کسی ٹریفک سگنل پر اگر کوئی آپ کی گاڑی کے پاس آئے تو شیشہ کھولنے میں احتیاط کریں کیونکہ انہی لیٹرز میں تیزاب پھینکنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

جو مسلمان خواتین حجاب یا دوپٹہ  اوڑھتی  ہیں  وہ خاص طور پر اپنے آگے پیچھے آنے والوں  سے محتاط رہیں۔ اس دن اپنے چھوٹے بچوں کوگھر سے باہر تنہا نہ نکلنے دیں۔ لیکن براہ  مہربانی اپنے روزمرہ کے سارے کام معمول کے مطابق ادا کریں احتیاط ضرور کریں لیکن ڈر کر گھر نہ بیٹھ جائیں!

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply