کون تھا عیسیٰ؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ضروری نوٹ
چین میں ایغور اور قازق مسلمان چینی باشندوں کو ان کے صدیوں پرانے گھروں سے اکھاڑ کر “تربیتی کیمپوں” میں بھرتی کر دیا گیا ہے، جہاں انہیں اسلامی روایات (نماز، روزہ، وغیرہ) کی پیروی نہیں کرنے دی جاتی ۔۔امریکہ نے چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور برادری کے افراد سے مبینہ بدسلوکی کے الزام میں 28 چینی اداروں کو ’بلیک لسٹ‘ کر دیا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ بیجنگ اکثریتی طور پر مسلمان اویغور افراد کو حراستی کیمپوں میں قید کر رہا ہے۔ دوسری جانب چین انھیں انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ’ہنرمندوں کے تربیتی مراکز‘ کہتا ہے۔ایک خبر کے مطابق ان دنوں چونکہ کرسمس کا  موقع ہے تو یہ ایغور مسلمان قیدی لکڑی کے کام کی تربیت کے پروگرام میں عیسےٰ کی چھوٹی چھوٹی شکلیں گھڑ رہے ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں یورپ، امریکا اور دوسرے عیسائی ملکوں کو بر آمد کی جائیں گی اور وہاں ڈالر اسٹوروں پر ایک ایک ڈالر میں بکیں گی۔ ان کے بنانے میں کوئی لاگت نہیں آتی کہ ایغور ، قزاق اور دوسرے مسلمان ان نام نہاد “تربیتی مراکز” میں یہ کام صرف اپنے رہنے کی قیمت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ راقم الحروف نے یہ نظم ایک مسلم ایغور ، جسے نماز ، روزہ اور دیگر اسلامی روایات سے دور رکھ کر یہ کام کرنے پر مجبور کیا گیا ہے ، کی زبان سے کہلوائی ہے، اور” نظم کہانی” کے طور پر پیش کر جا رہی ہے۔

کون تھا عیسیٰ؟

مجھ کو تو کچھ علم نہیں ہے۔۔۔ کون تھا عیسیٰ؟
میں تو لکڑی کا اک ادنیٰ کاریگر ہوں
میرا قصور فقط اتنا ہے ۔۔۔میں مسلم ہوں
میں “قازق” ہوں
میری ورکشاپ میں سارے
قازق ہیں یا دوسرے مسلم ” ایغور” ہیں

اب تو ہمیں یہ بھول گیا ہے
مسجد ہے کیا چیز، اذاں کیسی ہوتی ہے
یا نماز کے کیا اصول ہیں
روزہ رکھنا جرم ہے چین میں

اک چینی مسلم ہونے کے نا طے سے
میرے جرم کی یہی سزا ہے
اک قیدی سا
اس “تربیتی کیمپ” میں رہنا
کاٹ کاٹ کرلکڑی کی تصویریں گھڑنا

آج کل تو کرسمس کی آمدآمد ہے
ورکشاپ میں اپنے جیسے
دیگر کارکنوں کے ساتھ ہی
لکڑی کے تختوں کو کاٹ کے عیسیٰ کی شکلیں گھڑتا ہوں

کون تھا عیسیٰ؟ کون سے ملک کا باسی تھا وہ؟
کچھ تو علم ہے مجھ کو بچپن سے ہی ، لیکن
اب تو سب کچھ بھول گیا ہوں

تختہ بندی میں عیسیٰ کی
پتلی پتلی ٹانگیں
پاؤں میں کیلیں
گھُٹنے مُڑے تُڑے سے
بھوکا، پچکا پیٹ۔۔۔۔
ہر اک پسلی جیسے ابھری ابھری، سوکھی سوکھی
سولی کے دائیں بائیں دونوں تختوں پر
سیدھے ہاتھوں میں میخوں سے نیچے ٹپکے
سوکھے خون کے اک دو قطرے
جیسے خون کی گردش جسم میں رک سی گئی ہو
جھکی ہوئی گردن آگے کو
چہرے کے دائیں بائیں اک نور کا ہالہ!
اور سر پر؟ اک تاج، مگر تنکوں، کانٹوں کا

ماہر فن ہوں
جب بھی یہ تصویر بناتا ہوں تومجھ کو
یوں لگتا ہے
ساخت مجسّم ہو اٹھی ہے
عیسیٰ جیسے چین میں سچ مچ
اپنے آخری دم تک اس کرسمس میں آ پہنچا ہے
لیکن میں تو خود سے یہ پوچھا کرتا ہوں
کیا میں خود بھی عیسےٰ کا اوتارنہیں ہوں
جس کو اس کےمسلم ہونے کی پاداش میں
ساری عمر قید میں رہ کر
یہ بیگار کا کام ملا ہے؟

جانتا ہوں، یہ سب تصویریں، سارے کھلونے
باہر کے ملکوں کو بر آمد ہوتے ہیں
دو ڈالر کی قیمت کی پرچی چپکا کر
میں اس نئے بنے عیسیٰ کو
اک ڈھیری میں رکھ دیتا ہوں
نصف مکمل اک مورت دوجی ڈھیری میں
ایک نئے عیسیٰ کی شکل میں بننے کو تیار کھڑی ہے
میرا “کوٹا” ایک روز میں دس عیسیٰ ہیں

ساری دنیا میں مسلم آزاد ہیں ، لیکن
صرف چین میں کیوں غلام ہیں؟
کون یہ پوچھے ان سے بھائی؟
مسلم ملکوں کے حاکم تو جب دورے پر آتے ہیں ، تو
ان کو اس “تربیتی مرکز” کے بارے میں
کچھ بھی علم نہیں ہو سکتا!

میں تو، لوگو، اک قیدی سے بھی بد تر ہوں
کھانا، جوتے، وردی
اور سلاخوں کے پیچھے اک بسترکے بدلے میں
مجھ کو یہ سب کام دیا جاتا ہے
قیدی ہوتا تو میں اپنی
بیس برس کی جیل کاٹ کرباہر جاتا
اب تو، لیکن، موت کا پروانہ ہی میری رہائی ہو گا

کہتے ہیں عیسیٰ تو خدا کا ہی بیٹا تھا
اور اس نے تو
اپنے آپ ہی
سولی پر چڑھنے کی کلفت کو بھی
ہنسی ، خوشی برداشت کیا تھا
ان لوگوں کی خاطر
جو تائب تھے اور بخشش کی خاطر اس پر
اپنی ارادت لے آئے تھے

Advertisements
julia rana solicitors

کوئی مجھے بتلائے، کیا میں
دن بھرعیسیٰ کے چوبی بُت گھڑتے گھڑتے
اس کو “عیسےٰ علیہ اسلام” کا رتبہ دیتے دیتے
لمبی قید میں جیتے مرتے
چین میں رہ کر
ر وزہ، نماز کا فرض گنوا کر
اپنے سب نا کردہ گناہوں سے چھٹکارہ پا سکتا ہوں؟

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply