محمد کاظم کی علمی خدمات۔۔۔اسلم ملک

انجینئرنگ کے ایک طالب علم نے اپنے طور پر عربی پڑھی اور اتنی مہارت حاصل کرلی کہ مولانا مودودی کی چھ کتابوں کا ترجمہ کر ڈالا۔ تفہیم القرآن کے ترجمے کی بات چلی تو عربوں تک نے اصرار کیا کہ ترجمہ محمد کاظم سے ہی کرائیں۔

محمد کاظم نے مڈل کلاسز میں ابتدائی عربی پڑھی تھی، میٹرک میں بھی رکھ لی۔ ماموں کو بتایا تو وہ ناخوش ہوئے اور سائنس رکھنے کیلئے کہا۔ یوں عربی چھوڑنی پڑی۔ بالآخر علی گڑھ سے انجینئرنگ پڑھی۔ ایک دن “عربی کے دس اسباق” نامی کتاب کا اشتہار نظر سے گزرا تو عربی سے محبت جاگ اٹھی۔ پہلے پہلے وہ کتاب اور پھر کچھ اور کتابیں بھی منگوالیں۔ لائبریری جاکر عربی اخبار رسالے بھی دیکھنے لگے۔ اس خود آموزی سے عربی میں اتنی مہارت پیدا ہوگئی کہ مولانا مودودی کی چھ کتابوں کا ترجمہ کیا(کہ اس وقت ان سے محبت رکھتے تھے) مراکش کے رسالے ’’دعوۃ الحق‘‘ الجزائر کے ادبی ہفت روزہ ’’البصائر‘‘ مصر کے ادبی مجلّہ ’’الرسالۃ‘‘ اور بیروت کے ادبی ماہنامے ’’الآداب‘‘ میں تحریریں شائع ہوئیں۔

محمود الحسن کو انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ انجینئرنگ کے آخری امتحان کے دنوں میں بھی جب ایک پرچہ دے کر ہوسٹل آتے تو سب سے پہلے ایک دو گھنٹے عربی پڑھتے اور اس کے بعد اگلے پرچے کی تیاری شروع کرتے۔ ایک دن روم میٹ نے حیران ہوکر پوچھا ،امتحان میں کامیاب ہونے کا ارادہ ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا، جب تک کچھ دیر عربی نہ پڑھیں اگلے مطالعے کیلئے ذہن ہی نہیں کھلتا۔ پھر وہ انجینئر بن گئے۔ چالیس سال کی عمر میں پنجاب یونیورسٹی کا ایم اے عربی کا امتحان بھی درجہ اول میں پاس کرکے طمانیت حاصل کی۔

وہ بتاتے تھے کہ عربی سیکھنے کیلئے جو کتابیں انہوں نے پڑھیں، ان کے بعد اپنے اندر ایک عجیب چیز محسوس کی۔ ایسا لگا کہ عربی زبان ان کیلئے کسی طرح بھی اجنبی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مقامی زبانوں میں سے کوئی پڑھ رہے ہوں۔ شاید سید کے جینز میں عربی چلی آرہی تھی۔

جماعت اسلامی کی طرف راغب ہوئے تو پردہ سمیت مولانا مودودی کی چھ کتابیں عربی میں ترجمہ کرڈالیں۔ مولانا مودودی تفہیم القرآن کا ترجمہ بھی ان سے کرانا چاہتے تھے بلکہ بیروت اور قاہرہ میں چھاپنے والوں کی یہی خواہش تھی کہ ترجمہ وہی کریں۔ لیکن اس دوران سید محمد کاظم کا دل جماعت اور اہل جماعت سے کھٹا ہوچکا تھا۔

جماعت سے دوری کی وجوہ انہوں نے یہ بتائیں ’’مولانا امین احسن اصلاحی کے جماعت سے الگ ہونے پر جماعت کی علمی فضا متاثر ہوئی۔جماعت میں وہ لوگ زیادہ نمایاں ہوگئے جن کا ذہن علمی سرگرمیوں کے بجائے سیاست میں زیادہ چلتا تھا، جس سے جماعت کا مزاج اسلامی اور اصلاحی کے بجائے سیاسی ہوتا گیا۔۔دوسری وجہ یہ تھی کہ 1964ء میں میرے آٹھ سالہ بیٹے شعیب کا انتقال ہوا، جس کی موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔ اس صدمے پر ان لوگوں نے میری دلجوئی کی جن سے نظریاتی اعتبارسے میرا اختلاف تھا لیکن اگر کسی نے میرے ساتھ تعزیت نہ کی اور مشکل کی اس گھڑی میں میری خبر نہ لی تو وہ جماعت اسلامی تھی۔مولانا مودودی نے اظہار افسوس کے لیے نہ مجھے خط لکھا نہ ہی کسی ذریعے سے پیغام دیا اور نہ مجھ سے مل کر افسوس کیا۔۔۔۔اس زمانے میں مغربی فلسفہ کا بھی خوب مطالعہ کیا تو کچھ اس کا بھی اثر تھا کہ میں جماعت اسلامی کے اثر سے نکل گیا۔

مولانا مودودی کو ناراضی کا پتہ چلا کھانے پر بلاکر کہا، میں اس لیے آپ سے تعزیت کے لیے نہ آسکا کہ آپ سرکاری ملازم ہیں، میرے ملنے سے کہیں آپ حکومت کی لسٹ میں نہ آجائیں، کاظم صاحب کہتے تھے یہ انہیں عذرِلنگ ہی لگا۔اس کے بعد وہ آمدم برسر مطلب پر آگئے اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ تفہیم القران کا عربی میں ترجمہ کریں۔ وہ مجھ سے ترجمہ اس لیے کروانا چاہتے تھے کہ عربوں نے ترجمے کے لیے میرا نام تجویزکیا تھا لیکن اب میں یہ کام کرنا نہیں چاہتا تھا۔مولانا مودودی مصر رہے اورمیں ٹالتا رہا۔میں نے ان کو بتایا کہ جدید عربی ادب پڑھنے سے میرا اسلوب اب پہلے والا نہیں رہا۔اس پرمولانا مودودی کہنے لگے، آپ یہ بات مجھ سے نہ کہیں، میں جانتا ہوں آپ کسی بھی زمانے کی عربی لکھ سکتے ہیں۔ میں نے سرکاری مصروفیات کا بھی عذرکیا لیکن وہ مانے نہیں،اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ قاہرہ سے کاظم کو اہم تفاسیر منگوا کردیں لیکن وہ تفاسیر مجھ تک نہ پہنچیں اور نہ ہی اس کے بعد انھوں نے مجھ سے ترجمے کے بارے میں کہا۔ وہ بڑے ذہین آدمی تھے،انھوں نے اندازہ کرلیا تھاکہ میں اب یہ کام نہیں کروں گا کیونکہ جب پہلے مجھے مودودی صاحب کے کام کا ترجمہ کرنے کو کہا جاتا تو میرے چہرے پرچمک آجاتی ، اب وہ کہہ رہے تھے تو میں انکار کررہا تھا۔‘‘

کاظم صاحب کی مولانا مودودی سے تو دوری ہوگئی مگر ان کے بڑے بھائی ابوالخیر مودودی سے ان کی وفات تک مراسم رہے۔ ’’مضامین۔ عربی ادب میں مطالعے‘‘ کا انتساب ابو الخیر مودودی کے نام ہے۔ کاظم صاحب کتاب پیش کرنے گئے تو وہ صاحب فراش تھے۔ پہلے صفحے پر اپنا نام دیکھ کرکاظم صاحب سے کہنے لگے “آپ نے مجھے بھی مولانا بنادیا؟ ” اس پر کاظم صاحب نے جواب دیا ’’میں نے کئی بارسوچا کہ آپ کے نام کے ساتھ مولانا لکھوں یا نہ لکھوں پھر مجھے خیال آیا کہ یہ لقب کہیں تو صحیح استعمال ہونا چاہیے۔‘‘

محمد کاظم نے محمود الحسن سے ہی گفتگو کرتے ہوئے کہا، ہر نظریاتی تحریک میں مجھے جو باتیں اچھی لگتی ہیں انھیں قبول کرلیتا ہوں اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہوں۔ میرا نظریہ فن کچھ نہیں ہے،فن توفن ہوتا ہے جس کی بنیاد ذوق جمال (aesthetic sense)ہے۔ وہ کسی نظریے کے تحت تخلیق نہیں کیا جاتا۔فن کا مقصد پڑھنے والوں کو مسرت پہنچانا ہوتا ہے۔‘‘

محمد کاظم ایک زمانے تک اپنا نام محمد کاظم سباق لکھتے تھے۔ داڑھی بھی تھی۔ جرمنی میں تھے جب ایک دن صاف کردی۔ کہتے تھے مذہب کے نام پر ایسی ایسی تنگ نظری، کھوکھلی پارسائی، تعصب اور پست خیالی انہوں نے دیکھی کہ مذہب کی روایتی صورت سے برگشتہ ہوگئے۔

محمد کاظم کی ایس ای کالج بہاولپور کے زمانے سے احمد ندیم قاسمی سے دوستی تھی ۔اردو میں ان کا جو کام کتابی صورت میں سامنے آیا ہے، اس میں سے بیش تر ’’فنون‘‘ میں چھپا۔ آغاز الف لیلیٰ پر مضمون سے کیا۔

اس مضمون کی اشاعت سے قبل قاسمی صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ “فنون”کے معیار کا ہے؟ توجواب ملا کہ یہ” فنون” کے معیار سے کچھ اونچا ہی ہے۔
محمد خالد اختر کے ساتھ بھی ان کا کالج کے زمانے سے گہرا یارانہ تھا۔ انہی کے زیر اثر انگریزی ادب کی طرف راغب ہوئے۔ خالد اختر صاحب خاصے سست واقع ہوئے تھے۔ ان کے اکثر کام کاظم صاحب اپنے ذمے لے لیتے۔ ان کی تحریروں کی خوش خط نقول بھی وہ تیار کرتے۔ میں نے ایس ای کالج بہاولپور کے میگزین نخلستان ادب کے ساٹھ سالہ نمبر کیلئے کچھ لکھنے کو ان دونوں کو خط لکھا تو خالد صاحب کی طرف سے جواب بھی کاظم صاحب نے لکھا اور اپنی خصوصی تحریر کے ساتھ خالد اختر صاحب کی ایک تحریر بھی خود لکھ کر بھیجی۔ تصاویر کا انتظام بھی انہوں نے ہی کیا۔ انہوں نے ایک ایسی تصویر بھیجی جس میں تین دوست تھے، محمد خالد اختر،محمد کاظم اور ایک اور ان کے ہم نام کاظم۔ شاید وہ بھی ان کے ساتھ واپڈا میں تھے۔ محمد کاظم اور محمد خالد اختر جنرل منیجر جیسے اعلیٰ عہدوں تک پہنچے لیکن ہمیشہ کوشش کی کہ دفتر میں ہی رہیں، فیلڈ یا پراجیکٹس میں تعیناتی نہ ہو، یہ حرام کمائی سے بچنے کی ایک کوشش تھی۔

کاظم صاحب نے واپڈا ہاؤس میں عربی بھی پڑھائی۔ یہاں ان کے شاگردوں میں صلاح الدین محمود، خالد اختر، رشید ملک بھی شامل تھے۔ انہوں نے عربی اسباق کی دو کتابیں بھی تیار کیں۔ محمد کاظم کے مضامین کا مجموعہ پہلی بار ان کے واپڈا ہاؤس کے عربی کے شاگرد اور کولیگ صلاح الدین محمود نے اپنے ادارے نقش اول سے شائع کیا۔

سید محمد کاظم زندگی کے آخری برسوں میں قرآن مجید کے ترجمے میں منہمک رہے، جس کی اشاعت میں تاخیر نے انہیں خاصا بے چین کئے رکھا لیکن اطمینان کی بات ہے کہ وہ ان کی زندگی میں ہی چھپ کرسامنے آگیا۔
محمد کاظم نے لکھنے کی ابتدا 1962ء میں حنیف رامے کے ماہنامہ ’’نصرت‘‘ سے کی۔ 1963ء میں جب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی مجلّہ ’’فنون‘‘ جاری کیا، تو اُس میں لکھنے لگے اور 2006ء تک اس رسالہ میں باقاعدگی سے لکھا۔

محمد کاظم 14 اگست 1926ء کو احمد پور شرقیہ،ضلع بہاول پور، میں پیدا ہوئے اور 8 اپریل 2014 کو لاہور میں وفات پائی۔
برصغیر میں عربی کے عالم تو ہزاروں ہوں گے لیکن محمد کاظم جیسے کم ہی ہوں گے جن کا مطالعہ امرؤ القیس سے محمود درویش تک محیط ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محمد کاظم کی کتابیں:
عربی ادب میں مطالعے (مضامین ، الف لیلہ، امراؤ القیس، ابونواس، محمود درویش وغیرہ)
مغربی جرمنی میں ایک برس (سفرنامہ)
مسلم فکر و فلسفہ عہد بہ عہد (مسلمانوں کی فکری تاریخ کا ایک جائزہ)
اخوان الصفاء اور دوسرے مضامین (ابوالعلاء معرّی، قصیدہ بردہ، اخوان الصفاء، خلیل جبران، محمود درویش وغیرہ)
عربی ادب کی تاریخ (دَور جاہلیت سے موجودہ دَور تک)
کچھ یادیں کچھ باتیں
جنیدِ بغداد: سوانح، نظریات ، رسائل تصنیف ڈاکٹر علی حسن عبدالقادر (الازہر یونیورسٹی، مصر)
اسلام اور جدیدیت تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمٰن ، (شکاگو یونیورسٹی، امریکا)
قرآن کے بنیادی موضوعات،تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمٰن (شکاگو یونیورسٹی ، امریکا)
اسلام، تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمٰن (شکاگو یونیورسٹی ، امریکا)
’’ابنِ خلدون: حیات و آثار‘‘ (مقدمہ اور تاریخ ابنِ خلدون سے اقتباسات)
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں اور رسائل کے عربی میں تراجم:
1۔نظریۂ الاسلام الخلقیہ (اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر)
2۔المصطلحات الاربعتہ فی القرآن (قران کی چار بنیادی اصطلاحیں)
3۔موجز تاریخ تجدید الدین و احیاء (تجدید و احیائے دین)
4۔الحجاب (پردہ)
5۔حقوق اھل الذمۃ فی الاسلام (اسلام میں ذمیّوں کے حقوق)
6۔نحن و الحضارۃ الغربیہ (تنقیحات)

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply