• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اپنی نا اہلی چُھپانے والے جھوٹے قصیدہ گوحکومتی مشیر۔۔ غیور شاہ ترمذی

اپنی نا اہلی چُھپانے والے جھوٹے قصیدہ گوحکومتی مشیر۔۔ غیور شاہ ترمذی

کہنہ مشق ادیب اور استاد سید زیدی صاحب کی ایک تحریر میں کچھ ردوبدل کے بعد عرض ہے کہ بادشاہوں اور حکمرانوں کے ارد گرد ہمیشہ ایسے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں جو زبان کے جوہر دکھانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ عام لوگوں میں بھی ایسا طبقہ ہوتا ہے جو حکمرانوں کی ہر برائی اور ہر نا اہلی اپنے ذمہ لینے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتا یا باقی عوام کو اِس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ بدعنوانی اور نا اہلی کا ناچ ناچتے دیکھتا رہتا ہے لیکن پھر بھی احتساب کے جعلی نعروں سے جھوٹے وعدے کر کے برسراقتدار آنے والے نا اہل حاکموں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں بندیل کھنڈ کی ریاست دتیہ کے مہاراج اور دیوان صاحب جب رعایا سے ملنے کی مہم پر ایک تعلقہ میں اچانک پہنچے تو دیہاتیوں کو پہلے سے پتہ تھا کہ مہاراج اور دیوان صاحب شعر و شاعری کے بہت شوقین ہیں۔ مقامی کوئی شاعر تھا ہی نہیں اور اُس وقت بیل گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا۔ کوئی قصیدہ گو شاعر لانے کا وقت کہاں تھا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد گاؤں کے مکھیا کو یہ کام سونپا گیا۔ مکھیا نے خوشامد اور کاسہ لیسی کا مکمل حق ادا کرتے ہوئے حاکم کی شان میں جو قصیدہ پڑھا اس کا پہلا شعر کچھ یوں تھا۔
نرم سے نرم تیں کڑے سے کڑا (آپ نرم سے نرم اور سخت سے سخت ہیں)
کھدا کی قسم تیں کھدا سے بڑا (خدا کی قسم آپ خدا سے بڑے ہو)

موجودہ حکومت تقریباً اڑھائی سال قبل جب سے اقتدار میں آئی ہے، تب سے ہی اس کے بڑے بڑے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔ ادویات کا سکینڈل، چینی کا سکینڈل، آٹے کا سکینڈل اور نہ جانے درجنوں دوسرے کتنے سکینڈل۔ اِن میں زیادہ تر سکینڈل وہ ہیں جن کا براہ راست عوام کی جیب سے تعلق ہے۔ مظلوم پستی ہوئی عوام کی  جیب سے اربوں کھربوں روپے نکالے گئے ہیں۔ پہلے حکمرانوں کے دور میں براہ راست عوام کی جیب پر اتنے بڑے ڈاکے کبھی نہیں ڈالے گئے تھے لیکن انہوں نے تو ہر سکینڈل کی مالیت 100 ارب روپے سے زیاہد رکھنے کا غیرتحریری کلیہ اپنا رکھا ہے۔ اب حال ہی میں ایل این جی (لیکویڈ نیچرل گیس) کا نیا سکینڈل سامنے آیا ہے کہ کس طرح سے چند ناہل لوگوں کی فیصلہ نہ کر سکنے کی خرابی سے عوام کی جیبوں پر 122 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ جس وقت دیگر ممالک سستی ایل این جی خرید رہے تھے، تب پاکستان کی وزارت پیٹرولیم مشیر توانائی ندیم بابر کی قیادت میں وقت ضائع کرتی رہی۔ صرف رواں سال ایل این جی تاخیر سے منگوانے سے قوم کو 36 ارب کا ٹیکہ لگا جبکہ مجموعی طور پر پچھلے 2 سالوں میں ایل این جی کی مد میں قومی خزانے کو 122 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ حیران کن طور پر اتنے بڑے سکینڈل کے باوجود بھی قومی احتساب بیورو (نیب) اور انصاف کے اداروں کی پرسرار خاموشی جاری و ساری ہے جس پر معتدل حلقون کی جانب سے کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔

ایل این جی کی خرایداری کے حوالہ سے عرض یہ ہے کہ سردی کے موسم میں گیس کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور گیس کی شدید قلت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں کے لئے گیس درآمد کرنے کے انتظامات کئی مہینے پہلے ہی کرلئے جاتے ہیں۔ اگر پہلے ہی یہ انتظامات نہ کئے جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ بعد میں مہنگے داموں گیس خریدنی پڑے گی، اور یہاں بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ ایل این جی کی درآمد کا طریقہ کار تیل کی درآمد سے تھوڑا زیادہ پیچیدہ ہے۔ پہلے گیس کی تقسیم کار کمپنیوں خاص طور پر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) سے گیس کی طلب کا تخمینہ مانگا جاتا ہے۔ ایس این جی پی ایل ملک کے شمالی صوبوں میں گیس کی فراہمی کی ذمہ دار ہے جہاں شدید سردی کے باعث گیس کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔گیس کے تخمینے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) کو بھجوائے جاتے ہیں۔ پی ایل ایل ایک سرکاری کمپنی ہے جس کے ذمے ایل این جی کی درآمد کا کام ہے۔ پی ایل ایل کے مطابق اسے عام دنوں میں ایل این جی کا کارگو بک کرنے کے لیے 90 سے 120 دن درکار ہوتے ہیں۔ جب طلب کے تخمینے موصول ہوتے ہیں تو اس حساب سے ایل این جی کا آرڈر بک کردیا جاتا ہے۔

پی ایل ایل نے متعدد مرتبہ ایس این جی پی ایل اور پاور ڈویژن کو بروقت تخمینے دینے کے بارے میں مطلع کیا کیونکہ مسابقتی قیمتوں پر ایل این جی کی خریداری کے لئے 3 سے 4 ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس وقت ایل این جی کے ٹینڈر جاری کرنے سے بولی لگانے والوں کو راغب نہیں جاسکتا کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر گیس کی طلب زیادہ ہے اور دستیاب گیس کی قیمت بھی ایک حد پر برقرار رہے گی۔ پی ایل ایل کی ویب سائٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں بولیاں طلب کی گئیں جو ستمبر میں موصول ہونے والی گیس کے حوالے سے تھیں (یہ اسپاٹ کارگو تھا جسے طویل مدتی معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ طلب کی صورت میں خریدا جاتا ہے)۔ پی ایل ایل کی قسمت اچھی تھی جو انہیں اس کی قیمت برینٹ کی قیمت کے 10.88 فیصد پر ملی (جبکہ معاہدے کی قیمت 13.37 فیصد تھی)۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کورونا کی وجہ سے مارکیٹ گراوٹ کا شکار تھی۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگست میں وہی وقت تھا کہ جب معمول کے مطابق سردیوں کے دوران طلب پوری کرنے کے لئے گیس خریداری کی بولیاں طلب کرلینی چاہئے تھیں اور کوشش کرکے ان کم قیمتوں پر 5 سالہ مدت کے گیس فراہمی کے معاہدے بھی کرنے چاہئیں تھے۔

نامور صحافی خرم حسین لکھتے ہیں کہ اِس عرصہ کے دوران (پاکستان سے باہر) دیگر خریداروں کی جانب سے اس کم قیمت پرقطر کے ساتھ طویل مدت کے کم از کم 3 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ یہ سب برینٹ کی قیمت کے 10 فیصد سے کچھ زیادہ قیمت پر ہی طے پائے ہیں۔ یہ وہ قیمت ہے جو ان دنوں پاکستان کو ملنے والی قیمتوں سے بہت زیادہ کم ہے لیکن پاکستان نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے نومبر کے مہینے میں درکار گیس کے لئے ستمبر میں بولیاں طلب کیں اور یہ تمام بولیاں طویل مدتی معاہدے کی قیمت سے بہت زیادہ تھیں۔ ان میں سے سب سے کم بولیاں 13.48 اور 14.23 فیصد کی تھیں۔ کچھ بولیاں تو 15 اور 16 فیصد تک پہنچی ہوئی تھیں جو ایک طویل عرصے کے دوران سب سے مہنگی بولی تھی۔ اس کے ایک ہفتے بعد نومبر کے لئے ہی ایک بار پھر بولیاں طلب کی گئیں اور ان میں بھی سب سے کم بولی 13.87 کی تھی جو کہ معاہدے کی قیمت سے زیادہ ہے۔ اس وقت تک ایل این جی مارکیٹ میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ پاکستان کو گیس کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت نے دسمبر میں استعمال ہونے والی گیس کے 6 کارگو کے لئے 3 مہینے تاخیر سے اکتوبر میں بولیاں طلب کیں۔ اس کے بعد تو جیسے مارا ماری شروع ہوگئی۔ بولیاں لگنے کا سلسلہ تو شروع ہوگیا لیکن یہ 16.1 سے 19.3 فیصد کے درمیان تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایل این جی کی اتنی مہنگی قیمتیں نہیں دیکھی گئیں۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ بدانتظامی کی وجہ سے اس موسمِ سرما میں ایل این جی کی درآمد میں پاکستان کو 20 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہورہا کہ جب موجودہ حکومت گزشتہ حکومت پر قطر سے کیے جانے ایل این جی کی درآمد کے 15 سالہ معاہدے پر کرپشن کے الزامات عائد کرنے میں مصروف ہے۔

جیو نیوز کے اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ جب یہ سکینڈل سامنے لائے اور انہوں نے دستاویزات سامنے رکھ کر یہ خبر بریک کی تو امریکی شہری حکومتی ترجمان شہباز گل نے ٹویٹ کرتے ہوئے شاہ زیب خانزادہ کی توہین کرتے ہوئے انہیں “چھوٹا ارسطو” قرار دیا اور کہا کہ “حکومت نے ایل این جی کی امسال 353 ملین ڈالر کی سپاٹ خریداری کی جو 57 ارب روپے بنتے ہیں۔ کمال کی صحافت – خریداری 57 ارب روپے کی اور گھاٹا پڑ گیا 122 ارب روپے کا”- اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ مشیر توانائی ندیم بابر جان بوجھ کر حقائق مسخ کر رہے ہیں اور وزیر اعظم کو غلط معلومات دیتے ہیں۔ شہباز گل کی لاعلمی کا عالم یہ ہے کہ وہ 13٪ کو 13 ڈالرز بتا کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ویڈیو تک جاری کر دیتے ہیں۔ صرف سال 2020ء ہی نہیں بلکہ سنہ 2018ء، 2019ء اور 2020ء میں ٹرمینل استعمال نہ کرنے پر 25 ارب روپے، مہنگی ایل این جی خریدنے پر 37 ارب روپے، فرنس آئیل سے بجلی میں 50 ارب روپے اور دسمبر 2018ء میں فرنس آئیل سے بجلی پر 10 ارب روپے کے نقصانات ملا کر 122 ارب روپے ہی بنتے ہیں۔ شاہ زیب خانزادہ نے نہ صرف یہ تفصیلات عوام کے سامنے پیش کر دیں بلکہ اُن سے متعلق دستاویزات کو بھی ٹویٹر پر شئیر کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ شہباز گل کی ٹویٹ بالکل خاموش ہیں اور اُن کے علاوہ مشیر توانائی ندیم بابرسمیت تحریک انصاف کا کوئی راہنما بھی شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں آ کر وضاحت دینے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ البتہ تحریک انصاف نے اپنے چہیتے چینل اور اینکرز چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر کے پروگرام میں مشیر توانائی ندیم بابر کو بھیج کر اس الزام کی وضاحت دینے کی اپنے تئیں کوشش ضرور کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیاسی مبصرین کا عام خیال ہے کہ تحریک انصاف نے شہباز گل کو رکھا ہی اس لئے ہے کہ جب بھی حکومت کے کسی سکینڈل کی بات کی جائے تو وہ صحافیوں اور اپوزیشن کے لئے ایسی ہی غلیظ زبان استعمال کریں۔ امریکی شہری ہونے کی وجہ سے اُن کا اپنا بھی یہی خیال ہے کہ جیسے ہی حکومتی کشتی ڈولنے لگے گی تو وہ فلائیٹ پکڑ کر امریکہ نکل جائیں گے۔ اس لئے وہ اپنے مخالفین کے لئے بلا خوف و خطر اور تہذیب و اخلاقیات کا خیال رکھے بغیر جیسی چاہیں، ویسی زبان استعمال کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی ترجمانی کرنے والے امریکی شہری شہباز گل کی پوری کوشش ہے کہ مارچ 2021ء میں ہونے والے سینٹ انتخابات میں کسی طرح تحریک انصاف کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہو جائیں کیونکہ اگر تحریک انصاف کی حکومت چلی گئی تو انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شہباز گل کے اسی طرح کے رویہ کے بارے میں مصنف اور شاعر عاطف توقیر نے کہا تھا کہ “یہ کیسے لوگ ہیں؟۔ یہ کتنے غیر حساس لوگ ہیں؟۔ یہ اپنا کام نہ کرنے پر جواب دہ نہیں مگر کام کریں تو اپنی تعریف خود کرتے پھرتے ہیں؟۔ شرم ناک”۔ ایک اور دانش ور نے لکھا تھا کہ کسی کے پاس اخلاقیات کا کوئی کورس ہی کر لیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ ایک امریکی شہری کو پاکستانی حکومت کا ترجمان ہوتے ہوئے عوام، صحافیوں اور اپوزیشن کے ساتھ کیسے بات کرنی چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply