دہلی کے رام لیلا میدان میں آئین کا رام نام ستیہ۔۔اشعر نجمی

ابھی ابھی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر سن کر اٹھا ہوں ، اگرچہ ان کی تقریروں کو سننا کسی بھی صاحب شعور و عقل کے لیے ہمیشہ آزمائشی رہا ہے ۔ جاوید اختر نے ایک بار کہا تھا کہ مودی جی کو تقریر کرتا اور سنتا دیکھ کر انھیں ان کے بچپن کا وہ دوا فروش یاد آجاتا ہے جو فٹ پاتھ پر جڑی بوٹیاں بیچا کرتا تھا اور اسی طرح ناک سے بولتا تھا اور ہانک لگایا کرتا تھا۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں نے ہمیشہ ان کی تقریر کی بجائے راجیو شری واستو کی کامیڈی دیکھنے کو ترجیح دی۔ خیر، چونکہ جو اس وقت ملک کی صورت حال ہے، اس پر اپنے وزیر اعظم کا ردعمل دیکھنے کی خواہش تھی، سو پورے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ضائع کیا، بیچ بیچ میں کئی بار ریموٹ پر ہاتھ گیا لیکن پھر یہ سوچ کر چینل بدلنے کا ارادہ بدل دیا کہ اچھا قوال بھور میں گاتا ہے، ممکن ہے کہ آگے چل کر بے سُری تقریر قدرے سُر میں بدل جائے لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا بلکہ آخر میں تقریر صرف ناک سڑکنے کی سمع خراشی میں بدل گئی۔ انھوں نے کیا بولا، اس کا ذکر کرنا تضیع اوقات ہوگا کہ سب جانتے ہیں کہ ان کے پاس بولنے کے لیے کبھی کچھ نیا نہیں ہوتا؛ وہی اپوزیشن، وہی کانگریس، وہی پاکستان، وہی گھس پیٹھیے، وہی اربن نکسل، وہی ممتا دیدی، وہی اپنی دو الیکشن کی کامیابیوں کا تذکرہ، وہی بیرون ملک میں اپنا ڈنکا پیٹنے کا ذکر وغیرہ وغیرہ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ملک کی موجودہ صورت حال پر بات کرنے کے لیے نہیں بلکہ کسی چناوی پرچار میں حصہ لینے آئے ہیں۔ لہٰذا اپنی اس تازہ ترین تقریر میں ایک سربراہ ملک کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے جو بولنا چاہیے تھا، وہ اس پر یا تو گول مول بات کرکے گزر گئے یا ان اہم سوالوں کو نظر انداز کرگئے جو آج ملک کی سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں۔

رام لیلا میدان میں ہونے والی اس تقریر میں شرکت کرنے والی بھیڑ کے ہاتھوں میں بی جے پی کا جھنڈا نظر آ رہا تھا، مجھے کسی کے ہاتھ میں ترنگا نظر نہیں آیا جو اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ بھیڑ یا تو بی جے پی کے پارٹی ورکروں پر مشتمل تھی یا اس میں وہ مودی بھکت تھے جنھیں ٹرکوں پر لاد کر لایا گیا تھا جس طرح چناوی پرچاروں میں لایا جاتا ہے۔ مودی جی نے بھی اپنے بھکتوں سے نہیں پوچھا کہ بھیا ایک دو ترنگا ہی ساتھ لے آتے چونکہ ہم سے بڑا تو بھارت میں کوئی دیش بھکت ہی نہیں ہے۔ چلیے نہیں پوچھا، کوئی بات نہیں لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب صرف ترنگا اٹھاکر احتجاج کرنے والے دیش بھر کے احتجاجیوں پر مودی جی نے سوال جڑ دیا کہ آپ نےآتنک واد اور پاکستان کے خلاف کبھی کیوں ترنگا نہیں اٹھایا؟ اس پر حسب توقع بھکتوں نے تالیاں بجائیں اور مودی جی کو خوش کردیا کہ اب بھی ان کے ساتھ کچھ ‘انڈ بھکت’ ہیں۔ گویا پاکستان کے خلاف بولنے والا دیش بھکت ہے لیکن مودی سرکار پر سوال اٹھانے والے دیش کے غدار ہیں۔ کُل ملا کر یہ ثابت ہوا کہ مودی جی کو اور ان کی سرکار کو دیش بھکت نہیں بلکہ مودی بھکت چاہئیں جن کے ہاتھوں میں بلا سے ترنگا نہ ہو، یوں بھی آر ایس ایس کے صدر دفتر (ناگپور) میں ایک زمانے تک تک ترنگا کی بجائے ہندو راشٹر کا جھنڈا لہراتا رہا تھا، جب اس پر عوام نے سخت تنقید کی تو انھوں نے بحالت مجبوری لگا لیا اور انگریزوں سے معافی مانگنے والے سب سے بڑے دیش بھکت بن گئے۔

مودی جی نے اپنی پرانی عادت کے مطابق اس ملک گیر احتجاج کو اپوزیشن کی شرارت قرار دے ڈالا، جب کہ یہ تحریک طلبا نے شروع کی اور بعد میں اس میں عام شہری بھی شامل ہوئے۔ان کے ہاتھوں میں کسی پارٹی کا جھنڈا نہیں تھا اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی قائد تھا۔ حتیٰ کہ اگست کرانتی میدان، ممبئی کے عظیم الشان احتجاج کے دوران جب کچھ کانگریسی لیڈر اسٹیج پر چڑھنے لگے تو عوام نے نعرے لگا کر انھیں نیچے اترنے پر مجبور کردیا۔ گزشتہ دنوں جب دہلی کے جنتر منتر میں بھی کانگریس کی قومی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی طلبا کے احتجاج میں شریک ہوئیں تو وہاں بھی انھیں اسی سبکی کا سامنا کرنا پڑا، طلبا نے انھیں لوٹ جانے پر مجبور کردیا۔ لیکن چونکہ مودی جی ایک ڈرپوک حکمراں ہیں، اس لیے انھیں یہ تسلیم و اعتراف کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے کہ ان کے خلاف آج اس وقت سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس نہیں بلکہ طلبا اور عوام ہے جو ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔

اس تقریر میں سب سے خطرناک حرکت مودی جی نے یہ کی کہ انھوں نے پولیس کو شاباشی دی اور کافی دیر تک دی، حتیٰ کہ ان کی حمایت میں نعرے تک لگوائے لیکن مجال ہے کہ انھوں نے پولیس سے ان 21 لوگوں کی موت کا حساب طلب کیا ہوجنھیں ملک کے مختلف علاقوں میں پولیس کی گولیوں سے اپنی زندگیاں قربان کرنی پڑیں؟ اپنےآئینی حقوق کے لیے لڑنے والے ان لوگوں کو ذکر کرنا تو دور کی بات، انھیں مارنے والی پولیس کو داد شجاعت دیتے ہوئے مودی جی نظر آئے۔ کیا ان کی یہ تقریر ملک بھر میں عوام کو مزید مشتعل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ طالبات کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے والی اور انھیں لاٹھیوں سے بے رحمی سے پیٹنے والی پولیس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے مودی جی کو اپنے نعرے ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’ کی یاد بھی نہیں آئی۔ آپ نے یہ تقریر آگ لگانے کی لیے کی تھی یا آگ بجھانے کے لیے؟ آپ جس طرح پولیس کو اپنی تقریر کے ذریعہ مزید تشدد پر اُکسا رہے تھے، عجب نہیں کہ اس کا ردعمل آنے والے دنوں میں مزید بھیانک ہوجائے اور اس کے ذمہ دار صرف آپ ہوں گے۔ آپ نے دہلی پولیس کو بطور خاص شاباشی دی ہے، لیکن کیا بطور وزیر اعظم نریندر مودی کایہ فرض نہیں بنتا تھا کہ پولیس کی اس واقعہ پر مذمت کرتے کہ جب شہریت ترمیمی بل کی حمایت میں ان کے بھکتوں نے کناٹ پلیس (دہلی) میں جلوس نکالا جس کی قیادت ان ہی کی پارٹی بی جے پی کا لیڈر کپل مشرا کررہا تھا، تو نعرہ لگایا گیا “دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو۔”مودی جی!کیا اس بھڑکاؤ نعرے لگانے والے جلوس پر دہلی پولیس نے کوئی ایکشن لیا؟ کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ دہلی پولیس کو صرف جامعہ اور علی گڑھ کے بچوں اور دیگر احتجاجیوں پر لاٹھی ڈنڈے برسانے اور ان پر آنسو گیس چھوڑنے کے لیے آپ نے معمور کردیا ہے؟ کہا جارہا تھا کہ ملک میں 144 لاگو ہے، جس میں کوئی بھی مظاہرہ غیر قانونی ہوگا لیکن کیا آپ کے بھکت اور آپ کی حمایت میں نکلنے والے جلوس کو آپ نے 144 سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے؟ لیکن ظاہر ہے مودی جی تو وہی بولیں گے جو وہ ‘ہوم ورک’ کرکے آتے ہیں۔

‘شہریت ترمیمی قانون’ (CAA) پر مودی جی نے وہی گھسی پٹی باتیں دہرائیں جو ہم مظاہروں کے بعد گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے بھاجپائیوں اور گودی میڈیا سے سن رہے ہیں، یعنی یہ قانون ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ تین پڑوسی دیشوں سے آئے شرنارتھیوں کو شہریت دینے سے متعلق ہے۔ پھر وہ بار بار پڑھے لکھے لوگوں کو اور طلبا کو اسے پڑھنے اور سمجھنے کی تلقین کرتے بھی نظر آئے لیکن وہ پل بھر کے لیے اس بات پر نہیں شرمائے کہ اس ملک کے ریسرچ اسکالرز اور دانشوروں کی ڈگری ان کی طرح جعلی نہیں ہے، اور نہ وہ ان کے بھکتوں کی طرح ‘وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں۔مودی جی! آپ کسے ‘مہاجر’ (شرنارتھی) اور ‘گھس پیٹھیے ‘ کا فرق سمجھا رہے تھے؟ آپ نے گاندھی جی اور سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے بیانات کو مقتبس کرتے ہوئے (اس سے پہلے امیت شاہ بھی) کہتے ہیں کہ ‘پاکستان میں آستھا (عقائد) کے نام پر ظلم و جبر کے شکار اقلیتوں کو ان کی مرضی سے یہاں لانے کی بات کہی تھی۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ’ کیا گاندھی جی اور من موہن سنگھ نے کسی مخصوص مذہبی اقلیت کو اس سے باہر رکھنے کی بات بھی کہی تھی؟ کیا انھوں نے یہ کہا تھا کہ بس ‘آمنہ کے لال کو پانی نہ دیجیو؟’ اگر آپ کا مقصد ظلم و جبر کے شکار لوگوں کو اپنے ہاں بسانے کا ہے تو پھر شیعہ اور احمدیہ جیسی اقلیتیں کیوں اس میں شامل نہیں ہیں جن کی پوری کی پوری بستیاں جلا کر راکھ کردی جاتی ہیں، جنھیں سر عام قتل کردیا جاتا ہے اور جن کی عبادت گاہوں پر حملہ بولا جاتا ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جہاں آکر آپ کی بدنیتی آشکار ہوجاتی ہے اور لوگوں کو آپ کی غمگساری، مکاری میں بدلتی نظر آ جاتی ہے ۔

شہریت ترمیمی قانون (CAA) پر پاکستانی اقلیتوں کی بیٹیوں کے جبری نکاح ، تبدیلی مذہب پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والے مودی جی اس بات پر ذرا بھی نہیں شرمائے کہ ان کے اپنے ملک کی بیٹیاں ان ہی کی پارٹی کے ایم ایل اے، ایم پی اور پارٹی ورکروں کی زیادتیوں کی شکار ہیں۔ آپ نے ایک جملہ بھی ان کے خلاف کبھی نہیں بولا،شاید آپ کی نزدیک کی نظر کمزور ہے، آپ کو اپنی پارٹی کا لیڈر کلدیپ سنگھ سینگر تک نظر نہیں آیا ، پڑوسی ملکوں کی بیٹیاں نظر آ گئیں؟ اپنی بیٹیوں کو پولیس کی لاٹھیوں سے پٹوائیں گے اور پولیس کو سر عام اس پر شاباشی بھی دیں گےتو پڑوس کی بیٹیاں بھی آپ سے پناہ مانگیں گیں۔

آپ نے یہی ڈھٹائی دلتوں کے بارے میں دکھائی۔ اب چونکہ آپ کو اس ظالمانہ قانون کے خلاف ملک کے دیگر لوگوں کے ساتھ دلت بھی نظر آ رہا ہے تو آپ کو پاکستان کا دلت اچانک یاد آگیا لیکن اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو آپ نے آج تک درخور اعتنا نہیں سمجھا جس میں آپ کے دور اقتدار میں آپ ہی کے ملک میں رہنے والے دلتوں پر بڑھتے مظالم پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ مجھے ڈرہے کہ آپ کسی دن اقوام متحدہ پر ہی یہ الزام نہ جڑ دیں کہ اس نے کانگریس سے ہاتھ ملالیا ہے۔دلتوں پر آپ کے دور اقتدار میں جو مظالم بڑھے ہیں، ا س کے اعداد و شمار کی رپورٹ بکھری پڑی ہے، میں یہاں صرف آپ کی توجہ 2019 میں دہلی میں ہی دلتوں کی مقدس شخصیت روی داس کے مندر کی مسماری پر مبذول کرتا ہوں، جس پر پورا دلت سماج مشتعل ہوگیا تھا اور سڑکوں پر اتر آیا۔ کیا آپ کی پسندیدہ دہلی پولیس نے ان شرپسندوں کی سرکوبی کی جنھوں نے یہ گھناؤنا کام کیا تھا اور دلتوں کے مذہبی جذبات کو سخت ٹھیس پہنچائی تھی، اورکیا آ پ نے مذہبی طور پر persecuted دلتوں پر اسی طرح آنسو بہائے جیسا کہ آج آپ پاکستان سے آنے والے دلتوں کی مظلومیت کا رونا رو کر انھیں اس احتجاجی مہم سے الگ کرنے کی بچکانہ کوشش کررہے ہیں؟ مودی جی، پہلے آپ اپنے ہی ملک کی اقلیتوں کو جو اکثریتوں کے مظالم سہہ سہہ کر زندہ ہیں، انھیں راحت دے دیجیے، انھیں تحفظ فراہم کردیجیے، پولیس کو ان پر لاٹھی برسانے کے لیے شاباشی دینی ترک کردیجیے، پھر آپ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے شرنارتھیوں کو مذہب کے نام پر پناہ دے کر انھیں اپنا ووٹ بینک بنانے کی سازش کیجیے گا۔ اور ایک مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں اور وہ بھی بالکل مفت، کہ 7.9 کی GDP رکھنے والے بنگلہ دیش کے شرنارتھیوں کو جب آپ اپنے ملک میں شرن دینے کی بات کرتے ہیں تو اس وقت پوری دنیا منھ دبا کر آپ کی 4.5 GDP والے ملک پر ہنس رہی ہوتی ہے ، کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہے کہ جو ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے، جہاں بیروزگاری اور مہنگائی عروج پر ہو، اس کا سربراہ اپنی حالت سدھارنے کی بجائے نسبتاً خوش حال پڑوسی دیشوں کے لوگوں کو ‘دعوت شیراز’ دیتا پھرے؟ کیا آپ ان شرنارتھیوں سے بھی یہاں پکوڑے تلوائیں گے؟

این آر سی پر بولتے ہوئے نریندر مودی نے لوگوں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی لیکن ان کی مسکراہٹ اور ہنسی بہت پھیکی تھی،شاید اس پر ان کی کوئی تیاری نہیں تھی، لہٰذا انھوں نے بار بار ایک ہی جھوٹ بولا کہ این آر سی تو ابھی پارلیامنٹ میں پیش بھی نہیں ہوا، اس پر قانون بھی نہیں بنا تو پھر یہ ہنگامہ کیوں؟ مودی جی شاید عام ہندوستانیوں کو اپنے بھکتوں کی طرح احمق سمجھتے ہیں۔ ٹوئٹر کی صفائی تو آپ اور آپ کی پارٹی کرچکی ہے جس میں ایک نہیں متعدد بار آپ کے نیتاؤں بلکہ خود آپ کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے زور دے کر کہا کہ این آر سی لاگو ہو کر رہے گا۔ ٹوئٹر کو گولی ماریے، پارلیامنٹ میں بھی امیت شاہ نے یہاں تک کہا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے بعد این آر سی آنے والا ہے اور اسے بہرحال 2024 تک مکمل کرلیا جائے گا۔ کئی بار آپ کے وزیر داخلہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو جوڑ کردیکھنا چاہیے لیکن جب عوام کادباؤ بڑھا تو آپ نے ٹوئٹر کی صفائی کے ساتھ ساتھ اپنے بیان کی صفائی بھی کردی لیکن افسوس آپ پارلیامنٹ میں دیے گئے بیان کو کیسے صاف کرپائیں گے، وہ تو پارلیامنٹ کے ریکارڈ کا حصہ بن گیا ہے۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ ہندوستان کے عوامی احتجاج نے آپ کو ‘بیک فٹ’ پر جانے کے لیے مجبور کردیا اور آپ ڈھٹائی سے اپنی ہی بات کو جھٹلانے میں لگ گئے؟ لیکن ٹھہریے، یہ ضرور ہے کہ آپ شاید وقتی طور پر این آر سی کے متعلق تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں لیکن اس سلسلے میں آپ کی نیت آج بھی وہی ہے جو پہلے دن تھی، اس کا ایک ثبوت آج کی تقریر میں آپ کا وہ بیان ہے کہ جو مسلمان بھارت کی مٹی میں جنما ہے، اس کے پُرکھے (اجداد) اس مٹی میں جنمے ہیں، اسے کوئی ڈر نہیں کوئی خطرہ نہیں۔ مودی جی! یہی تو وہ خطرہ ہے۔ جب کوئی شہری بشمول مسلمان دستاویز اور کاغذات کی بنا پر یہ ثابت نہیں کرپائے گا کہ اس کے اجداد یا پُر کھے اس مٹی میں جنمے ہیں تو ظاہر ہے بقول آپ کے وہ ‘گھس پیٹھیا ‘ ہی ہوگا، حتیٰ کہ جس شہری کے سرکاری ڈاکیومنٹس میں اس کے ناموں کی اسپیلنگ غلط بھی ہوجائے تو وہ کیسے ثابت کرپائے گا کہ وہ اس مٹی میں جنما ہے، آپ نے اگرچہ ناک گھما کر پکڑنے کی کوشش کی لیکن نتیجہ وہی بر آمد ہوتا ہے جو این آر سی کے تعلق سے روز اول سے عوام میں دہشت اور افراتفری چھائی ہوئی ہے۔ جب سابق صدر مملکت فخر الدین علی احمد کے نواسوں اور پوتوں کے سرکاری کاغذات اور شناختی کارڈز میں ناموں اور دیگر تفصیلات میں نقص ہوسکتا ہے جو انھیں این آر سی لاگو ہونے پر شہری ماننے سے انکار اور ‘گھس پیٹھیا’ قرار دے سکتا ہے تو ٌپھر ہما شما کس قطار میں ہیں؟

آخر میں وزیر اعظم نے CAA کو اپنے صوبوں میں لاگو نہ کرنے کا اعلان کرنے والے سربراہوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ قانونی طور پر ایسا نہیں کرسکتے تو یہ بات قانوناً درست تھی لیکن سوال اٹھتا ہے کہ اگر وہ آخر تک اس قانون کو اپنی ریاستوں پر نافذ نہ کرنے کے فیصلے پر برقرار رہے تو آپ کیا کریں گے؟ ان تمام آٹھ نو ریاستوں پر صدر راج (President rule) نافذ کردیں گے؟ یعنی جن ریاستوں کے ووٹروں نے اپنی ریاست کے سربراہ کو چنا تھا، انھیں اپنی ضد کی وجہ سے معطل کردیں گے؟ پھر وہاں کے ووٹروں کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا ملک کے اتنے بڑے حصوں میں رہنے والوں کے جذبات کو آپ مشتعل کریں گے تاکہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور آپ ان کی لاشیں بچھادیں؟کیا آپ ملک میں انارکی پھیلانے کی راہ ہموار کررہے ہیں؟ آپ کو ایسے حساس موضوع پر بولتے ہوئے دھیان رکھنا چاہیے کہ آپ کشمیر پر نہیں بلکہ ملک کے بیشتر صوبوں پر اپنی ضد تھوپنا چاہتے ہیں، کیا آپ اس ملک میں مزید دس کشمیر بنانے کی سوچ رہے ہیں؟پھر تو آپ کا بیرون ممالک میں ڈنکا خوب بجے گا جس کا تذکرہ آپ گزشتہ کئی برسوں سے بڑے فخر سے کررہے ہیں، اس وقت بھی پوری دنیا میں آپ ہی کا ڈنکا بج رہا ہے جس میں اقوا م متحدہ میں بجنے والے طبلے کی تھاپ بھی شامل ہے۔

آخر میں آپ نے عوام کو،طلبا کو ‘اہنسا’ (عدم تشدد) کا پاٹھ پڑھایا اور پولیس کی ‘ہنسا’ (تشدد) پر جے جے کار بھی کیا۔ شاید مودی جی کی ڈکشنری میں ‘ہنسا’ کے معنی آئینی احتجاج ہے۔

کُل ملا کر آج کی وزیر اعظم کی تقریر محض موجودہ صورت حال کی خانہ پُری ہی نہیں تھی بلکہ جس طرح انھوں نے پولیس کو ان کے کارناموں کی شاباشی دی، اپنے بھکتوں کو آشیر واد دیا، اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ ان کا جی ابھی ‘تشدد’ سے بھرا نہیں ہے ، یوں بھی امیت شاہ کچھ دنوں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جہاں تشدد کا کیچڑ ہوگا، وہیں کنول کھلتا ہے۔ سو، ہل من مزید۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply