بصری مسائل اور مکالمہ۔۔عارف خٹک

جب سے ماشاءاللہ  ہمارے انعام رانا صاحب کاروباری ہوگئے ہیں۔ مکالمہ بھی بچت بازار کا رنگ و روپ اختیار کرگیا ہے۔ اشتہاروں کی وہ بھرمار ہوگئی ہے کہ مضمون کہیں چھپ  جاتا ہے۔ قاری کا ارتکاز ٹوٹ جاتا ہے۔
آجکل مکالمہ پر کوئی بھی مضمون پڑھنا شروع کریں تو حالات کچھ یوں ہوتے ہیں۔
مذہبی مضمون پڑھتے ہوئے جب مضمون نگار لکھتا ہے کہ “اسلام ہمیں اپنی نظروں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔۔۔۔۔” اس وقت عین بیچ میں خواتین کے زیرجامے آجائیں گے کہ Merkit پر آپ کو ہر سائز کے برا اور پینٹیز عام مارکیٹ سے آرزاں قیمت پر  مل سکتے ہیں۔ اب قاری جو مضمون پڑھتے ہی اس بات پر آمادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کی حفاظت یقینی بنائیگا۔ انعام کا آن لائن بازار اس کو ایک دم  ماڈل کی تصویر دیکھا کر دوران مسلمانی قاری کو زنا بالچشم کا مرتکب کروا دیتا ہے۔
اس دن ایک جانے پہچانے ادیب نے بڑا خوبصورت مضمون لکھا تھا۔ “اردو ادب کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اب  یہاں ہر ایرے غیرے نتھوخیرے نے۔۔۔” بیچ میں گوگل ایڈ نے مضبوط مردانہ اوزار کا حامل حبشی ماڈل دکھا دیا جس کو دیکھ کر مجھے بھی  جھرجھری آگئی۔۔۔ ادیب صاحب لکھتے ہیں۔۔۔ اٹھا رکھا ہے اور اردو ادب کیساتھ زنا بالجبر کا مرتکب ہورہا ہے۔”
آٹھ دس روز قبل ایک مشہور دانشور کا مضمون چھپ گیا تھا جس میں دانشور صاحب نے حضرت عیسٰی علیہ السلام پر مفصل لکھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کیسے گزری۔ مضمون کے آخر  پر گوگل ایڈ نے دکھا دیا “عیسٰی کون ہے؟”۔
پچھلے دنوں بیگم کی سالگرہ پر مجبورا ًایک مضمون مکالمہ پر چھپوانا پڑا کہ بیگم بھی خوش ہوجائے اور اپنا بھی کام ہوجائے۔ میں نے لکھا “بیگم آپ کی مجھ سے ہمیشہ یہی شکایت ہوتی ہے کہ۔۔” آگے سے مضمون کے بیچ میں اشتہار آگیا۔ آپ کا سائز چھوٹا ہے۔ گھبرائے نہیں آپ کی پارٹنر کو ہم خوش کر سکتے ہیں اگر آپ یہ والی کریم استعمال کریں۔۔
ابھی تک ہمت نہیں ہوئی کہ بیگم کے کسی پیغام کا جواب دوں۔

Facebook Comments