عورت کی تقدیس وتکریم اور موجودہ صورت حال (1 )۔۔عمار خان ناصر

اقبال پارک کے حادثے کے پس منظر میں مختلف اہل دانش نے جو گفتگو کی، اس کی روشنی میں بنیادی غور طلب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ مشرقی معاشروں میں عورت کی تقدیس اگر ایک قدر کے طور پر مانی جاتی ہے تو خواتین کو عدم تحفظ کی اس عمومی صورت حال کا سامنا کیوں ہے جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔
اس سوال کا ایک جواب تو ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم سے ملتا ہے جس میں طوائف کلچر کے تناظر میں ثنا خوانان تقدیس مشرق سے کافی چبھتے ہوئے سوال پوچھے گئے ہیں۔ یہ تنقید ایک خاص پہلو سے معاشرت میں پائے جانے والے تضاد اور منافقت کی نشان دہی کرتی ہے۔ تقدیس کی جگہ آزادی کو قدر قرار دینے والا جدید لبرل بیانیہ اس سے آگے بڑھ کر اس مفروضے پر ہی سوال اٹھا دیتا ہے کہ مشرقی معاشرت واقعتا عورت کو تکریم دیتی ہے۔ اس بیانیے کی رو سے مشرقی معاشرت اصلا عورت پر جبر اور استحصال کی عکاس ہے جس کو جواز دینے کے لیے عزت اور تکریم کے تصورات کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ تکریم کا اصل معیار انفرادی خود مختاری اور آزادی ہے جس کی عملی صورت مغربی معاشرت میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوں یہ سوال کسی نئی وضاحت کا متقاضی ہی نہیں کہ عورت کو آج عدم تحفظ کی صورت حال سے کیوں واسطہ ہے۔ عورت کا جو مقام مشرقی معاشرت میں مانا گیا ہے، یہ اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے اور تہذیبی قدروں میں ایک پیراڈائم شفٹ کو قبول کیے بغیر اس صورت حال سے نہیں نکلا جا سکتا۔
سوال کا دوسرا جواب اس نقطہ نظر میں سامنے آتا ہے جو اس صورت حال کی بنیادی ذمہ داری صنفی اظہارات کو فروغ دینے اور اس بے حجابی کو آزادی کا ایک پیمانہ قرار دینے والے جدید تصور معاشرت پر عائد کرتا ہے۔ اس موقف کی رو سے عورت کی تکریم حیا اور ستر وحجاب کے تصورات کے ساتھ وابستہ ہے۔ جدید معاشرت ان قدروں کی پامالی کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے نوجوان نسل کو گمراہ کر رہی ہے جس کی بدولت عورت کو تلذذ اور جنسی لطف اندوزی کی نظر سے دیکھنے کی نفسیات غالب ہوتی جا رہی ہے۔ خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی صورت حال اسی کا براہ راست نتیجہ ہے۔
کیا ان دونوں جوابات میں سے کوئی ایک کلی طور پر درست اور دوسرا کلی طور پر غلط ہے؟ یا دونوں میں جزوی صداقتیں موجود ہیں جن کو تسلیم کرنے سے صورت حال کی بہتر تفہیم سامنے لائی جا سکتی ہے؟
کیا ان دونوں جوابات میں سے کوئی ایک کلی طور پر درست اور دوسرا کلی طور پر غلط ہے؟ یا دونوں میں جزوی صداقتیں موجود ہیں جن کو تسلیم کرنے سے صورت حال کی بہتر تفہیم سامنے لائی جا سکتی ہے؟
اہل دانش کی کافی بڑی تعداد کا رجحان اسی طرف معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھتے ہیں کہ روایتی مشرقی معاشرت میں عورت کی تکریم ایک قدر کے طور پر موجود ہوتے ہوئے عورت کی سماجی آزادی اور اختیار کے جو حدود طے کیے گئے ہیں، وہ متوازن نہیں ہیں اور جبر اور استحصال کی بہت سی صورتوں کو متضمن ہیں۔ ان اہل دانش کے تجزیے کی رو سے، دور جدید کی متعارف کردہ سماجی تبدیلیوں سے عورتوں کے لیے سماجی کردار کے مواقع اور آزادیاں بڑھی ہیں اور روایتی طور پر خواتین کا میل جول اپنے خاندان کے افراد تک محدود ہونے کا رواج متاثر ہوا ہے جسے ہماری مجموعی پدرسرانہ نفسیات قبول نہیں کر رہی۔ یوں گھر کے ماحول سے باہر متحرک ایسی خواتین کے لیے جنھیں عہدے یا منصب وغیرہ کا تحفظ حاصل نہ ہو، تکریم کا زاویہ نظر مفقود ہے جس کا نتیجہ عمومی عدم تحفظ کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
یہ موجودہ صورت حال کے تجزیے کے تین بنیادی زاویے ہیں اور تینوں کا استدلال کافی حد تک واضح ہے۔ ان تینوں تجزیوں میں ایک خاص طرز معاشرت کی وکالت بھی موجود ہے۔ چنانچہ پہلے نقطہ نظر کے مطابق خواتین کو اپنے اسی دائرہ کار تک محدود رہنا چاہیے جو روایتی معاشرت میں قرار دیا گیا ہے اور جس کو مذہبی تشریحات کی تائید بھی حاصل ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کی مجوزہ معاشرت وہی ہے جو مغربی انفرادیت پسندی کے معیارات پر پوری اترتی ہو۔ اور تیسرے نقطہ نظر میں مشرقی معاشروں کے لیے متوازن طرز معاشرت وہ ہے جس میں تکریم وتقدیس اور خاندانی تحفظ کی روایتی قدروں کے ساتھ ساتھ خواتین کے متحرک سماجی کردار کو بھی پوری اہمیت دی جائے اور گھر سے باہر کے ماحول میں بھی ان کے لیے تکریم واحترام کے رویے اور مکمل تحفظ کو نئی معاشرتی تشکیل کا حصہ بنایا جائے۔
یہ تینوں زاویے، ایک بڑے فکری اور تہذیبی اختلاف کے مظاہر ہیں جن کا تصفیہ یا محاکمہ، ظاہر ہے کہ یہاں مقصود نہیں۔ تاہم ہمارے نقطہ نظر سے ایک خاص پہلو پر جو موجودہ حالات میں بہت بنیادی اور اہم پہلو ہے، ان تینوں کے مابین مفید اور تعمیری مکالمے کی گنجائش بلکہ ضرورت موجود ہے۔ یہ پہلو خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی صورت حال ہے جس کو اس سلسلے کا عنوان بنایا گیا ہے اور جس کی اہمیت یا نزاکت سے کوئی بھی فریق انکار نہیں کر سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر ایسے معاشرے کی تشکیل ایک مسلمہ مقصد ہے جس میں خواتین محفوظ ہوں تو کیا مذکورہ مختلف الخیال طبقے اس کی ناگزیر ضروريات اور درکار اقدامات پر باہم اتفاق کر سکتے ہیں؟
جاری  ہے

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply