قصے ہیں، افسانے ہیں-1/ڈاکٹر مجاہد مرزا

  مثلِ برگ آوارہ سے کچھ حصّے

آج ایک بجے جنازہ اٹھنا تھا۔ بینک سے کاغذ لیتے ہی میں مقام مقررہ کے نزدیک میٹرو سے نکل کر خاصی دور تک پیدل چل کر وہاں پہنچا تھا جہاں جنازے لائے جانے تھے۔ جنازہ سے متعلق دو طرح کی اطلاعات کے باعث ریڈیو سٹیشن بھی نہ جا سکا تھا۔
بالآخر لاشیں مردہ خانے سے لے آئی گئی تھیں۔ ہم نے مرنے والوں کے چہرے دیکھے تھے۔ دونوں کے چہرے نیلاہٹ مائل زرد تھے۔ پیلاہٹ تو خیر موت کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ چہرے نیلے پڑنے کی وجہ اندرونی خونریزی ہو جانا تھی۔ ان دونوں کی شکلیں اب تک آنکھوں کے آگے گھوم رہی ہیں اور دنیا کی بے ثباتی کا احساس دلا رہی ہیں۔

آج صبح لغاری سے بات ہوئی۔ وہ اس بات پر نالاں تھا کہ میں نے متعلقہ جریدے کے ایڈیٹر کو اتنا سخت ای میل کیا تھا۔ میں خیال نہیں کرتا تھا کہ لوگ اتنے کم ظرف ہونگے مگر میرے قول یا فعل سے کسی کو تکلیف پہنچے یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے میں نے تحریری معافی مانگ لی ہے۔ ماسکو سے متعلق اپنے مضامین آئندہ نہ چھپنے کا مجھے کوئی قلق نہیں۔

آج نینا سے میں نے اس کی کل کہی بات کا گلہ کیا لیکن وہ تو آجکل ویسے ہی لڑائی کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ میں اس کے مسائل کو سمجھتا ہوں۔ کوشش بھی کر رہا ہوں کہ ان سے عہدہ برآء ہونے کا کوئی راستہ نکل آئے لیکن عورتیں ۔۔ ۔ شاید وہ ہی درست کہتی ہوں۔

میں نے ملک شہباز کے ساتھ کاروباری شرکت کے باوجود ریڈیو کی ملازمت کو خیر باد نہیں کہا تھا۔ آٹھ دس ماہ کے بعد جب کاروبار ناکام ہو گیا تو اس نے شکر ادا کیا تھا کہ چلو آمدنی کی کوئی سبیل تو باقی ہے۔ البتہ اتنا ضرور کیا تھا کہ جزوقتی کی بجائے بڑی مشکل اور انتظار کے بعد جو ملازمت کُل وقتی ہوئی تھی، اس کو پھر سے جز وقتی کر دیا تھا۔ ہفتے میں تین روز جانے کی تنخواہ بھی آدھی اور چونکہ ترجمہ بھی آدھا ہوتا تھا اس لیے اس کا معاوضہ بھی آدھا۔ کاروبار تو گلے پڑ گیا تھا۔

خدا خدا کرکے کنٹینر پہنچا تھا۔ کنٹینر پہنچانے کے لیے شہر سے کئی کلو میٹر دور ایک جانب کے گودام کا پتہ دیا گیا تھا۔ ایک اور کاروباری شریک مجھے اپنے داچے (کنٹری ہاؤس) میں چھوڑ گیا تھا، جہاں پہلے سے کچھ لوگ رہ رہے تھے۔ طے یہ تھا کہ میں مال اتروا کر ان لوگوں کی مدد سے گودام میں لگوا لوں گا تو کوئی آ کر مجھے واپس شہر لے جائے گا۔ ایک تو کنٹری ہاؤس میں کمبل وغیرہ اتنے میلے تھے کہ میرا اسے گھٹنوں سے اوپر لینے کو دل نہیں کیا تھا۔ دوسرے سامنے کے کھمبے سے دوسری منزل کے کمرے میں بلب کی روشنی آ رہی تھی۔ نیند کیا خاک آتی۔ کنٹینر رات کے پچھلے پہر آنا متوقع تھا مگر وہ صبح چھ بجے پہنچا تھا۔ کام سے فارغ ہو کر جب دونوں شراکت کاروں کو فون کیا تو دونوں نے ہی مصروف ہونے کا عذر پیش کر دیا تھا۔ میں کئی ویگنیں بدل کر گھر پہنچا تھا اور نہادھو کرسو گیا تھا۔

مارکیٹنگ اور دفتر کے لیے اہلکار درکار تھے مگر کوئی بندوبست نہیں تھا۔ شہر میں بسنے والے روسی نوجوان لڑکے لڑکیاں زیادہ تنخواہوں کا تقاضا  کرتے ہیں اس لیے ملک شہباز نے کچھ لوگوں کو کہا ہوا تھا کہ کم معاوضے پر کام کرنے والے تارکین وطن میں سے کوئی میسر ہو تو مطلع کریں۔

7 اگست 2007:
ریڈیو سے واپسی پر جب میٹرو سے باہر نکلا تو بارش ہو رہی تھی۔ خاصی دیر رُک کر انتظار کرنا پڑا تھا۔ بارش ہلکی ہوئی تو میں نکل کھڑا ہُوا۔ راستے میں موسلا دھار بارش نے آ لیا تھا۔ درخت کے نیچے پناہ لی پھر مناسب جانا کہ بھیگتا تو درخت کے نیچے بھی ہوں چنانچہ چلنا چاہیے البتہ بارش کی شدت کے باعث ایک بار پھر کسی بند دروازے کے آگے ٹھہرنا پڑا تھا۔

ہاتھ میں اپنے تھیلے سمیت روٹیوں کے دو پیکٹ تھامے اور بارش کے پانی میں نچڑا ہوا جب میں دفتر کا فقل کھول رہا تھا تو چھوٹے قد کی ایک عورت نما لڑکی نے ماتھے تک ہاتھ اٹھا کر سلام کیا تھا اور مسکراہٹ بکھیری تھی۔ عام سے خالص تاجکی پسند کے کپڑے پہنے ہوئے یہ وہ تھی جس نے ایک روز پہلے فون کرکے کہا تھا،” مرز اجی، میں نرگس ہوں”۔ اردو جاننے والی اس تاجک لڑکی کو ملازمت دینے کے لیے بہت پہلے سے ایک شناسا نے کہا ہوا تھا لیکن ملک شہباز کام کرنے کے لیے لڑکیاں ایک چھوٹے شہر سے لانا چاہتا تھا اس لیے اس نے مجھے اس بارے میں روک دیا تھا۔ کل فون پر اس کی آواز بھی مجھے نہیں بھائی تھی پر وہ آج صبح سے میرے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ڈری ڈری، صرف مسکراتے ہوئے قبول صورت دکھائی دینے والی اس لڑکی کو کمپیوٹر بھی اچھی طرح نہیں آتا تھا لیکن میں نے سوچا کہ چلو فی الحال کوئی تو میسر آیا۔ کیا برائی ہے، رکھ لیتے ہیں، پھر دیکھ لیں گے۔

شام کو ہی اس نے ایس ایم ایس کر دیا تھا کہ کیا میں کل آ سکتی ہوں؟ میں نے جواب میں کہا تھا، گیارہ بجے صبح فلاں جگہ ملو، اکٹھے بینک چلیں گے۔ وہ ملی تھی۔ ہم دونوں بینک گئے تھے۔ اس میں پیش قدمی اور جرات کا فقدان ہے۔ شام کو میں نے ملک سے بات کی تھی اور نرگس کو آتے رہنے کے لیے کہا تھا۔

10 اگست 2007:
آج میں نماز جمعہ پڑھنے کے بعد دفتر پہنچا تھا۔ اس نے کہا تھا،”اُف کس قدر بوریت تھی تنہائی میں”۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ میں تو روز ہی تنہا بیٹھا رہتا ہوں۔ کل اس نے مجھ سے کشمیر سے متعلق پوچھا تھا۔
آج باتوں باتوں میں مَیں نے اسے کہا تھا کہ اگر ایسے ہی ہم دونوں اس کمرے میں بیکار بیٹھے رہے تو ہمیں عشق ہو جائے گا۔ میں نے یہ بات مذاق میں کہی تھی اور اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا تھا۔ پھر اس نے پاکستان کے کسی ڈاکٹر کے بارے میں بتایا تھا جو انٹرنیٹ اور موبائل کے توسط سے اس پر عاشق ہے۔ میں نے اسے متنبہ کیا تھا کہ یہ عشق وشق بس یونہی ہے۔ اسے بھی اس سے کوئی لگاؤ نہیں تھا بس وقت گذاری کر رہی تھی۔

14 اگست 2007:
میں نے سگریٹ نکالنے کے لیے ڈبیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے ڈبیہ اچک لی اور کہا کہ آپ سگریٹ نہیں پئیں  گے۔ اپنی صحت کو روگ لگا رہے ہیں۔ میں کھسیانا سا اور حیران ہو کر دفتر سے باہر نکل گیا تھا۔ ساتھ میں دوست کے دفتر جا کر اس سے سگریٹ لے کر پی تھی اور یہ واقعہ بھی بتایا تھا۔ اس نے کہا تھا،”آپ نے اس کی چھاتیاں واتیاں کھینچی ہونگی”۔ میں نے کہا تھا ناں بھئی وہ تو خاصی مذہبی ہے اور شکل سے بہن لگتی ہے۔
جب میں دفتر لوٹا تو میں نے اس سے اپنی سگریٹ کی ڈبیا مانگی تھی جو میری میز پر نہیں تھی۔ اس نے کہاتھا کہ ڈبیا اس نے فلش کر دی ہے۔ اس معاملے میں مَیں نے اُسے بہت ضیق کیا تھا اور اس نے مجھے بھی۔ میں دروازہ لاک کرکے بولا تھا اگر تم سگریٹ نہیں دیتیں تو میں تمہیں ہونٹوں پر چومنے لگا ہوں حالانکہ اس کے لپ سٹک زدہ چھوٹے چھوٹے ہونٹ چومنے کی مجھے کوئی خواہش نہیں تھی۔ اس نے گھبرا کر تقریباً  ناراض ہوتے ہوئے سگریٹ کی ڈبیا لوٹاتے ہوئے کہا تھا، “جتنی مرضی پئیں، میں آپ کو کچھ نہیں بولوں گی”۔

Advertisements
julia rana solicitors

شام کو جب میں نے اس بارے میں ملک شہباز کو بتایا تھا تو اس نے مسکرا کر کہا تھا،” اس نے سوچا ہوگا کہ سیدھا کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل کو ہی پھانس لے”۔ کاغذوں میں کمپنی کا یہ عہدہ میرے نام تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply