جہاد, نصاب, افغان جہاد اور امریکہ بہادر۔۔۔ بلال شوکت آزاد

ایک ہوتا ہے سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر پیٹنا اور ایک ہوتا ہے لکیر مٹنے کے بعد بار بار لکیر بنانا اور پھر اس کو پیٹنا۔

خطہ برصغیر کی سیاست اور یہاں پر موجود عسکری حالات و واقعات جس طرح صدی گزرتی جا رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ بدلتے جا رہے ہیں۔

اٙسّی کی دہائی میں روس افغانستان میں زبردستی گھس آتا ہے گرم پانیوں کی تلاش میں, مطلب افغانستان کے راستے وہ پاکستان پر حملہ آور ہو کر بحیرہ عرب میں تسلط قائم کرنا چاہتا تھا۔

امریکہ کی بھی اس میں سبکی تھی کہ روس اس کی سپرویژن اور سپرمیسی کو چیلنج کرتا اور خلیج تک گھس آتا جب کہ پاکستان کی سالمیت تو داؤ پر تھی ہی۔

اب ایسے میں پاکستان کے حکمرانوں نے روس کے خلاف پراکسی کھڑی کی  طالبان کے نام سے اور انہیں بھر پور تعاون دیا مالی اور عسکری لحاظ سے، جس سے پاکستان کو یہ فائدہ ہوا کہ روس کے پاؤں اکھڑ گئے اور روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور دنیا میں ایک عہد اختتام کو پہنچا  سپر پاور کے نشے میں چھوٹی طاقتوں پر حملہ کرنے والوں کا۔

اس ساری گیم میں امریکہ کا کردار صرف اتنا تھا کہ وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ روس افغانستان کی سرزمین سے صرف واپس نہ جائے بلکہ ایسی شکست کا اس کو سامنا ہو کہ  دوبارہ اسے اٹھنے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہو۔

لہذا امریکہ نے بہتی گنگا میں دونوں ہاتھ دھونے کے لئے اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا، طالبان کو صرف پیسہ اور اسلحہ ہی نہیں دیا بلکہ ان کی مثبت پروموشن بھی کی پوری دنیا میں بطور جہادی مسلمان۔

چونکہ اس وقت مسلمانوں کا جہاد امریکہ کو فائدہ پہنچا رہا تھا اور روس کو نقصان پہنچا رہا تھا اس لئے جہاد ایک مقدس فریضہ بھی مقبول ہوا اور جہادی عزت کے مقام پر فائز ہوئے۔

جیسے تیسے روس بکھرا اور طالبان اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے افغانستان میں اور کامیابی سے اپنی حکومت چلائی بلکہ یوں کہوں کہ شریعت کا نفاذ کر کے دکھایا۔

تو امریکہ  کو اس میں اپنی بھی شکست نظر آنا شروع ہو گئی کہ اگر یہ داڑھی والی مخلوق جسے لوگ مسلمان کہتے ہیں اور یہ جو خود کو طالبان کہتے ہیں،  پہلے ہی  ایک جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں وہ بھی سپر پاور سے، کل کلاں کو امریکہ کے لیے سر درد نہ بن جائیں۔

لہذا ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا اور ڈس انفارمیشن کا ایک لامحدود سلسلہ شروع کردیا، جب اس سے بات نہ بنی تو 9/ 11 والا واقعہ پلان کیا اور اس کا الزام طے شدہ منصوبے کے مطابق طالبان پر عائد کیا اور ایک بار پھر افغانستان کی سرزمین کو جنگ کی لپٹوں میں جھونک دیا۔

اور اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس جنگ سے امریکہ بری طرح ہار کے ہاتھ پاؤں جوڑ کے طالبان سے منت سماجت کر کے خطے کو چھوڑنے پر راضی ہوا ہے اور طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرکے باقاعدہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لئے سوچ بچار میں اپنا وقت استعمال کررہا ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ فواد چوہدری صاحب نے اپنی معلومات کے مطابق, اپنے عہدے اور اپنی شخصیت کے مطابق جو بات کی کہ مدارس کا نصاب امریکہ سے بن کر آیا تھا، جس کا پس منظر وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ افغان جہاد ایک ایجنسی کا منصوبہ تھا لہذا اس کی ترغیبی و عسکری تعلیم و تربیت دینے والا نصاب بھی امریکہ کا ترتیب دیا ہوا تھا۔

ایک منٹ کے لئے ہم مان لیتے ہیں بلکہ ایک منٹ کے لئے کیا ہم یہ مان ہی لیتے ہیں کہ امریکہ نے افغان جہاد کے لیے مدارس کا نصاب ترتیب دیا جس سے ہمارے تب کے مسلمانوں نے پڑھا اور اس کے مطابق جہاد کے لیے افغانستان میں گئے اور کامیاب بھی ہوئے تو کیا ہم یہ بات مان لیں کہ اس سے پہلے مسلمانوں کو نہ تو جہاد کی خبر تھی اور نہ ہی ان کی تعلیمات میں جہاد کا کوئی کردار اور تاریخ موجود تھی اور نہ ہی تب تک مسلمان جہاد سے اتنے زیادہ منسلک تھے؟

ہمارے جمہوری حکمران بھی بادشاہ بندے ہیں، جب دل کرے ان کا، جیسے دل کرے یہ کوئی بھی بیان دے کر کسی کو بھی بے مول کردیں اور کسی بھی طرح کی اسلامی تعلیمات بلکہ فرائض کو بھی پس پشت  ڈال دیں۔

اور خود ہی اپنی باتوں سے یہ ثابت کرنے کے حامی ہیں کہ ہم لوگ طاغوت کے غلام ہیں، ہمیں تو ہمارا جہاد بھی کرنے کا حکم امریکہ دے تو ہم جہاد کرتے ہیں ورنہ ہمیں جہاد سے کوئی سروکار نہیں اور یہ کہ جہاد کا حکم ہی نہیں بلکہ ہمیں جہاد کی ترغیب دینے والا نصاب بھی امریکا ہی دے تو پھر بات بنتی ہے ورنہ ہماری کتابیں تو بالکل اس پر خاموش ہیں جو ہمیں کوئی سبق دے ہی نہیں سکتی کہ جہاد دراصل ہے کیا؟ اور یہ کیوں فرض ہے؟ اور کب فرض ہے؟ اور کس طرح فرض ہے؟ اور کس کے خلاف فرض ہے؟

اب یہ بلا وجہ ایک   ایسا موضوع چھیڑنے کی  کوئی ضرورت   نہیں تھی جس کا ذکر کرنے سے نہ نفع ہونا  ہے اور نہ نقصان۔

البتہ پاکستان میں موجود محدود ذہنیت کے افراد اپنی مرضی کا مطلب نکال سکتے ہیں جو کہ موجودہ حکومت کے لئے قطعی کوئی اچھی چیز نہیں۔

اسی لیے میں نے اوپر شروع میں یہ بات کی کہ ایک ہوتا ہے سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنا اور ایک ہوتا ہے لکیر مٹ جانے کے بعد بار بار لکیر بناکر اسے پیٹنا۔

مدارس میں کیا نصاب پڑھایا جاتا رہا اور اب کیا پڑھایا جا رہا ہے یہ ایک سر درد ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت, میں سمجھتا ہوں اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن صرف سارا زور مذہبی حلقوں کی طرف ہی نکالنا کوئی دانشمندی اور انصاف پر مبنی حرکت نہیں۔

کیونکہ اس وقت مذاہب کے درمیان چپقلش اور انتہا پسندی کو فروغ صرف مدارس نہیں بلکہ ماڈرن تعلیمی ادارے اور انکا بیرون ملک سے ترتیب شدہ نصاب بھی دے رہے ہیں۔

یہ جو ایک بیانیہ چل نکلا ہے پوری دنیا میں اسلام فوبیا کا، اس کی جڑیں مدارس سے نہیں بلکہ ماڈرن تعلیمی اداروں سے نکلتی ہیں۔

جہاں پہلے ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق ایسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جو صرف اسلام سے ہی نہیں بلکہ انسانی فطرت سے بھی متصادم ہے۔

اور جب کوئی اسلام پسند یا کوئی بھی مذہب پسند انسان اس نصاب پر اعتراض اٹھاتا ہے، اس کو پڑھانے والے اساتذہ پر اعتراض اٹھاتا ہے تو اسے دہشتگرد اور انتہا پسند مسلمان کے طور پر بد نام کر دیا جاتا ہے۔

جس سے اردگرد موجود دیگر ایسے لوگ جو نہ تو اسلام سے اتنے واقف ہیں اور نہ ہی اس نصاب کی گہرائی سے واقف جو انہیں روشن خیالی اور جدت کے نام پر پڑھایا جا رہا ہے، وہ مجبورا ًًً مذہب اور اسلام سے بیزار ہوکر اسی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں جسے اسلام فوبیا کہا جاتا ہے۔

یہ بحث بہت لمبی ہے اس پر سارا دن بھی بات کی جائے وہ کم ہے اور اس پر جتنا بھی لکھا جائے وہ بہت ساری جلدوں پر مبنی کتاب بن جائے لیکن میں اپنی بات اس سوال اور اس پریشانی کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گا کہ مدارس کو پوچھا جائے ضرور پوچھا جائے اگر وہ کچھ غلط پڑھا رہے ہیں یا ان کے پڑھائے سے کچھ غلط ہو رہا ہے تو، لیکن یہ معیار صرف مدارس تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کو ماڈرن تعلیمی اداروں میں بھی اسی طرح لاگو کیا جائے جس طرح مدارس کے خلاف اتنی لگن اور محنت کے ساتھ لاگو کیا جا رہا ہے۔

خیر افغان جہاد اب اپنے اختتام کے آخری مراحل میں ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر یہ جہاد نہ ہوتا تو امریکہ کو بھی اس کی اوقات معلوم نہ ہوتی اور روس بھی اپنے گھر ٹوٹے پھوٹے وجود کے ساتھ سکون سے نہ بیٹھا ہوتا۔

پر چلیں خیر مجھے تو رات سے اسی بات پر بار بار ہنسی آرہی ہے کہ امریکہ نے مدارس کا نصاب ترتیب دیا جس کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ امریکہ طاغوت ہے اور ہم مطلب طالبان نے اس کو مسلمانوں کی سرزمین سے مار بھگانا ہے۔

ویسے داد دینی پڑے گی امریکہ کے پالیسی سازوں اور نصاب ترتیب دینے والوں کو جنہوں نے اپنی ذلت کا سامان خود پیدا کیا اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکہ کی کیا درگت بن رہی ہے۔

ویسے بہت خوب کہی فواد چوہدری صاحب آپ نے، ایسا نصاب امریکہ ہی ترتیب دے سکتا ہے جس میں اس کی اپنی پٹائی کے طریقے شامل ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افغان باقی, کہسار باقی۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply