پاکستان ، اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتا؟۔۔نعیم اختر ربانی

عالمی منظر نامہ بسنت کا روپ سجائے ہوئے تمام مفکرین کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ اس منظرنامے میں ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ڈور ہے اور اس کے سرے پر باندھا ہوا مفادات کا مجموعہ غبارے کی صورت میں مالک کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ تمام ممالک اپنے اپنے غباروں کو ڈھیل دے کر اس بسنت کی رونق میں اضافہ کر رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کے ایک جملے کو اچھال اچھال کر میڈیا ایک پرانی بحث کو تازگی عطاء کر رہا ہے لیکن اس تازہ ہوا کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خوشبودار اور بدبودار مقامات میں تمیز ہو جاتی ہے۔ ہمارے لبرلز مفکرین نے یک مشت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے عقلی ڈھکوسلوں اور حقیقت سے کوسوں دور حوالہ جات کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات ملکی مفادات کے لیے ناگزیر ہیں۔ اسرائیل کی بالادستی ، ظاہری چمک دمک اور بے بنیاد وجود کی مضبوطی کو مبالغے کے لبادے میں پیش کر رہے ہیں۔ انہی  میں سے ایک صاحب علی احمد ڈھلوں نے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے ان وجوہات کا تذکرہ کیا ہے جن کی بنا پر پاکستان “نامنظور” کا نعرہ لگاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ” اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی عرب مسلم ممالک کے ساتھ مذہبی یکجہتی ، دوستی اور معاشی واقتصادی رشتہ دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سخت گیر مسلم تنظیموں کی جانب سے منفی ردعمل کا خدشہ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی عدمِ استحکام اور مذہبی گروپوں کے ردعمل کا خوف” اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اسرائیل چار جنگوں میں سے اکثر جیت چکا ہے اور ان ممالک کی فہرست بھی پیش کی گئی جو اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں تعلقات استوار کر چکے ہیں ( روزنامہ ایکسپریس 25 نومبر 2020ء)

ہم آنے والی سطور میں ان تین وجوہات اور ان کے ساتھ ذکر کردہ دلائل کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ لبرل ازم کی عینک لگا کر قلمی مشاورت کا دسترخوان بچھانا کتنا بچگانہ فعل ہے۔ غیر اسلامی فکر رکھنے والے اربابِ دانش نے اپنی  ذہنی فکر کی بنیاد “مفاد” کے بودے خواب پر قائم کر رکھی ہے۔ وہ اس دنیا کے باشندے ہیں جہاں صرف مفاد کی بات ہوتی ہے اور اسی کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں اور احکامات صادر ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے ملکِ پاکستان کی سالمیت کے جائزے کی جب بات آتی ہے تو وہ اسی مفاد کی وادی میں اتر کر پیش آمدہ طوفان کی رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان تمام عناصر سے تعاون کی درخواست کرتے ہیں جن سے انہیں کسی تعاون کی یقین دہانی ہو۔ چنانچہ اپنی اس روش سے مجبور افراد نے پاکستان ، اسرائیل تعلقات کو نفع اور نقصان کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی۔ تو وجہ یہ بیان کر دی کہ عرب ممالک کیونکہ اسرائیل سے دوستی کے خواہاں نہیں اور ان سے ان کی دیرینہ دشمنی کی وجہ سے ہم بھی ان کے  دشمن قرار دیئے جاچکے ہیں۔ عرب مسلم ممالک سے دوستی کا تقاضا  ہے کہ ہم اسرائیل سے قطع تعلقی کی روایت کو جاری رکھیں لیکن جب کہ عرب مسلم ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی رسی کئی جگہ سے کٹ چکی ہے اور چنداں عرب ممالک ، اسرائیل سے تجارتی ، معاشی و اقتصادی یا سفارتی و دفاعی تعلقات استوار کر چکے ہیں لہٰذا جن کی وجہ سے دشمنی مول لی تھی وہ خود دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے ہیں تو ہمیں بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔

قارئین! اس وقت جبکہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں کچھ ٹھنڈک پڑ چکی ہے وہ افراد اس ٹھنڈک سے گرمی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان تعلقات کی ٹھنڈک کی اصل وجہ خان صاحب کے سطحی اقدامات ہیں۔ خان صاحب نے ملائیشیا ، ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات کی پینگیں بڑھانا شروع کیں تو سعودیہ جو پہلے ہی روٹھا ہوا تھا اور زیادہ ناراض ہوگیا۔ پھر امریکہ میں جاکر ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ ایک نئے بلاک کا اعلان کرنا ، اپنی تقاریر میں بلاوجہ طیب اردگان کی تعریفوں کے پل باندھنا اور پاکستان میں ترکی ڈرامہ ارطغرل کی نشریات وغیرہ سے بتدریج ناراضگی بڑھتی گئی۔ اب اس وقتی ناراضگی کو اچھال کر یہ ثابت کرنا کہ ان سے فوائد کی امید نہیں اور اس دشمن کی گود میں جا بیٹھیں جو پہلے ہی ہمارے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے۔ کون سی دانشمندی ہے؟

دوسری وجہ بھی یوں بے بنیاد ہے کہ امریکہ خود ان سخت گیر تنظیموں کے خاتمے کا اعلان کر چکا ہے اور پاکستان نے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرتے ہوئے فتح مندی کا نعرہ بھی لگایا ہے تو اس تیر سے کیا ڈرنا؟ جو ایک تنکے کی طرح بے زور ہے۔

تیسری وجہ میں دو باتیں (سیاسی عدمِ استحکام اور مذہبی گروپوں کے ردعمل کا خوف) ذکر کی گئیں۔ چنانچہ سیاسی عدمِ استحکام اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ اب اس کے خاتمے اور استحکام کی بحالی کی کوئی صورت مستقبل قریب میں ممکن نظر نہیں آتی اور مذہبی گروہ اس قابل نہیں کہ حکومت ان کے خطرے کو واقعی خطرہ جانے اور ان کے سخت ردعمل سے خوف محسوس کرے۔

ان سطحی عقل وزیروں کی مرعوبیت کی وجہ اسرائیل کی ظاہری ترقی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر ہمارے ہاتھ الٰہ دین کا چراغ آجائے گا اور ہم اس طویل قامت جن سے اپنی معیشت کی بہتری کا سوال کریں گے اور پلک جھپکنے پر ہماری گود سونے کے ٹکڑوں کے ساتھ بھر جائے گی۔ اسرائیل کے دفاعی نظام کے راگ الاپتے ہوئے وہ تاریخ کو مسخ کردیتے ہیں جبکہ اسرائیل نے آج تک چار جنگوں میں سے صرف ایک جنگ جیتی ہے۔ پہلی جنگ 1948ء میں ہوئی تو اردن نے برطانیہ کے زیرِ تسلط علاقوں پر چند دن میں ہی قبضہ کر لیا۔ تیسری جنگ میں مصر نے اسرائیلی دفاعی لائن کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ چوتھی جنگ حزب اللہ کے ساتھ ہوئی تو حزب اللہ نے اپنے حملوں سے اس ائیر ڈیفنس سسٹم کو ریت کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جس کی خواہش امریکہ پینٹاگون کے لیے کرتا تھا۔ اسرائیل صرف دوسری جنگ ہی جیت سکا۔ کیا ہم اس کے فرسودہ دفاعی سسٹم سے مرعوب ہو جائیں جو اس کے چار گز کے پلاٹ کا دفاع بھی نہ کر سکا۔ اس کا حال تو یہ ہے کہ اگر فلسطینی بازار میں اسلحہ اٹھا کر آجائیں تو اسرائیل کے چاروں شہروں سے شہری غائب ہو جاتے ہیں۔ جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ اگر سارے مسلمان اسرائیل کی طرف منہ کرکے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جائیں تو وہ اس کے بہاؤ میں بہہ جائے گا۔ اس بے بنیاد اور حقیر ملک کو تسلیم کرنے کے لئے اتنے جتن کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

ان تمام اختراعی وجوہات کے رد کے بعد ہم اس اصل کی طرف آتے ہیں جو اسرائیل اور پاکستان کے درمیان وجہء نزاع ہے۔ پاکستان کی بنیاد خالصتاً کلمہء توحید پر قائم ہے۔ ہم لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کے بعد اس خطے کے حصول کے روادار ہوئے۔ صرف اسلامی   نظام کے نفاذ کے لیے اس خطے کو چنا ،لیکن اس کے مقابل اسرائیل کی بنیاد لاکھوں معصوم فلسطینی مسلمانوں کی لاشوں پر رکھی گئی۔ صدیوں کے باسی اپنے ہی خطے میں ان لوگوں کے ستم کا شکار ہوئے جن کا اپنا کوئی گھر بار نہیں۔ دنیا میں تنکوں کی طرح بکھرے ہوئے صہیونی اس خطے کی ملکیت کا دعویٰ کر بیٹھے جس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم بحیثیتِ مسلمان انہیں کسی صورت تسلیم نہیں کر سکتے جو ظلم کا بازار گرم کر چکے ہیں اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments