عورت مارچ: ایک پوسٹ مارٹم ۔۔۔ نسرین غوری

عورت مارچ کی اٹھی ہوئی دھول خاصی بیٹھ چکی ہے۔ اللہ بھلا کرے اس سفید فام دہشت گرد کا جس نے اس تماشائی اور ٹھرکی قوم کی ساری توجہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم پر مرکوز کروا دی ۔ عالمی یوم خواتین کے بعد عورت مارچ کے حوالے سے ہر خاص و عام حسب معمول بارہ پندرہ دن ایک ہیجان میں مبتلا رہا۔ اکثریت کسی نہ کسی طور خود کو عورت مارچ میں اٹھائے گئے پوسٹروں اور نعروں سے بری کروانے کی کوششوں میں مبتلا رہی ۔ ہر شخص خواہ وہ اسلام پسند ہو، روایت پسند ہو یا نام نہاد لبرل یا ترقی پسند ہر ایک بس اپنے آپ کو ان پوسٹروں پر لکھے نعروں سے لاتعلق رجسٹر کروانے اور ان کی مذمت کرنے پر مصر رہا ۔ گویا دوسرے لفظوں میں اپنی صفائی دیتا رہا۔ دھول بیٹھنے کے بعد فدوی نے ان تمام قابل اعتراض نعروں کا پوسٹ مارٹم کرنے کی کوشش کی ہے۔

جیسے قران میں سے ہر ایک اپنی مرضی کا ون لائنر نکال کر اسے دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔ پورا پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے کیوں کہ پورا پڑھنے کے بعد عمل بھی پورے پر کرنا پڑے گا۔ بالکل ویسے ہی ہم کسی بھی ایونٹ، کسی بھی واقعے، کسی بھی تحریر کا مقصد سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں یا شاید سمجھنا نہیں چاہتے اور اس کی باریک تفصیلات کو کونٹیکسٹ/ پس منظر سے الگ کر کے بڑے والے محدب عدسے کے نیچے رکھ کر اس پر بحث شروع کردیتے ہیں۔ عورت مارچ کے نعروں کا مقصد ہمارے معاشرے کے خوابیدہ ضمیر کو جگانا تھا جو صدیوں سے سویا پڑا ہے۔ان کا مقصد ہمارے معاشرے میں موجود صنفی تفریقات کی طرف متوجہ کرانا تھا۔ معاشرے کو یہ احساس دلانا تھا کہ آج بھی ہم اپنی بچیوں اور خواتین سے انسانوں والا سلوک نہیں کرتے اور انہیں جانداروں میں مردوں سے کمتر درجے کا جاندار سمجھا جاتا ہے۔

کیا آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے پیارے پاکستان میں پیدائش، صحت، تعلیم اور سماجی معاملات میں بچیوں پر بچوں کو ترجیح نہیں دی جاتی۔
کیا ایک بیٹے کی پیدائش کے لیے بیٹیوں کی لائن نہیں لگا دی جاتی، خواہ ان پے درپے حمل اور ڈلیوریز سے عورت کے جسم پر کتنی ہی قیامتیں نہ گزر جائیں۔
کیا آج بھی لڑکیوں کی شادی قران سے نہیں کروائی جاتی۔
کیا انہیں خاندان کے مردوں کے کئے گئے گناہوں کے کفارے میں تاعمر مخالفین کونہیں سونپ دیا جاتا کہ وہ ان سے جو چاہیں سلوک کریں۔
کیا آج بھی شادی کے وقت لڑکیوں کی اکثریت سے رائے لینے کا خیال آتا ہے۔
کیا آج بھی کراچی جیسے شہری علاقوں میں بھی شوہر اور بیوی دونوں جاب سے واپس آئیں تو تازہ کھانا بنانا اور شوہر کو پیش کرنا بیوی کی ذمہ داری نہیں سمجھا جاتا۔
کیا آج بھی ہمارے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر بیوی کو مار پیٹ نہیں کی جاتی۔
کیا آج بھی نوزائیدہ بچیوں کوکہیں راوی میں تو کہیں کوڑی پر نہیں پھینکا جاتا۔
کیا آج بھی رشتے سے انکار پر قتل، ریپ اور چہرے پر تیزاب نہیں پھینک دیا جاتا۔
کیا ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے والی خاتون کو آوارہ اور بدچلن نہیں سمجھا جاتا۔
کیا ملازمت پیشہ خاتون کی کمائی پر اس کا شوہر حق نہیں جتاتا۔
کیا عورتوں کو گھریلو تشدد کا سامنا نہیں ہے۔
کیا سڑک پر مرد کا پہلا اور زیادہ حق نہیں سمجھا جاتا۔
ہر گزرتا شخص خاتون ڈرائیور کو یہ جتانا اپنا حق نہیں سمجھتا کہ کیونکہ وہ خاتون ہے اس لیے اسے مرد کا راستہ چھوڑ دینا چاہیے۔
کیا اسکول، کالج یا یونیورسٹی سے تھک کر آئی ہوئی بہن سے یہ نہیں کہا جاتا کہ بھائی کو کھانا دو وہ تھک کر آیا ہے۔
کیا ہمارے اکثر گھرانوں میں آج بھی خواتین سے پہلے گھر کے مرد کھانا نہیں کھاتے۔
کیا گھر میں اہم معاملات میں گھر کی خواتین کی رائے لی جاتی ہے یا سنی اور مانی جاتی ہے۔
بچوں کو علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے اور بچیوں کو گھر پر ہی سیلف میڈیکیشن سے علاج کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
شہری علاقوں میں پچھلے دس پندرہ سالوں میں نو عمر لڑکیوں میں ایک دم سے عبایا کیوں رواج پاگیا ہے۔
کیا صرف خواتین کو پردے کے احکامات پے درپے نہیں سنائے جاتے جبکہ مردوں کو نظریں نیچی رکھنے کی ہدایت کوئی نہیں کرتا۔

مجھے حیرت ہے ہر پوسٹر میں لوگوں کو گندگی ہی کیوں سجھائی دے رہی ہے۔ کیونکہ لوگوں کے اندر گند ہی بھرا ہوا ہے۔ اور جو جیسا ہوتا ہے، جیسا سوچتا ہے اسے دوسرے ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی عورتوں کو گھروں میں قید وہی رکھتے ہیں جو دوسروں کی عورتوں پر بری نظریں رکھتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ باہر سارے مردوں کی نظریں ان جیسی ہی ہوتی ہیں۔

سب سے زیادہ جن نعروں کا برا مانا گیا ذرا ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
“اپنا کھانا خود گرم کرو” اور “مجھے کیا پتا تمہارا موزہ کہاں ہے۔ ”

یہ دونوں نعرے اس امر کا اظہار ہیں کہ خاتون خانہ کو شریک حیات کے بجائے ایک ملازمہ یا ہاؤس کیپر سمجھا جاتا ہے۔ کسی قانون، قرانی آیت یا حدیث میں یہ نہیں لکھا کہ گھر کے کام خاتون کی ذمہ داری ہیں۔ہمارے معاشرے میں گھر کے کام کاج کو بیوی کی ذمہ داری قرار دینے کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ مقامی رسم و رواج سے ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی رواج کے تحت تقسیم کار میں گھر کے کام عورت کے سپرد ہوئے۔ جو مذہب اپنے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ ماں اس بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ شوہر سے طلب کرسکتی ہے۔ اور شوہر پر لازم ہے کہ وہ معاوضے کی ادائیگی کرے۔ وہ مذہب کبھی بھی عورت یا بیوی کو مرد کی ملازمہ بنانے کے احکام نہیں دے سکتا۔ اگر عورت یہ کام نہ کرنا چاہے تو مرد کو ان کاموں کے لیے ملازمہ کا انتظام کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر خاتون یہ ذمہ داریاں ادا کرتی ہے تو یہ اس کا احسان ہے جس کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے، تعریف کی جانی چاہیے نہ کہ کسی کمی بیشی کی صورت میں اسے طنز یا مار پیٹ کا نشانہ بنایا جائے۔

عورت گھر کی ملازمہ نہیں ہے۔ آدم نے کپڑے دھلوانے، کھانا پکوانے، موزے ڈھونڈوانے کے لیے بی بی حوا کی خواہش نہیں کی تھی۔ انہیں ایک ساتھی درکار تھا جس سے وہ اپنی تنہائی دور کرسکیں۔ تو شادی از آل اباوٹ کمپینین شپ [نہ کہ نوکری شپ] اور کمپینین شپ یا ساتھ کا تقاضہ ہے کہ ہر کام مل کر کیا جائے، بانٹ کر کیا جائے۔ شوہر اگر اپنے ساتھ ساتھ بیوی کی روٹی بھی ایک دو بار گرم کردے گا تو اس سے آپس میں محبت ہی بڑھے گی کوئی نقصان تو نہیں ہوگا۔ تو پھر کھانا ساتھ مل کر بنانے میں کیا حرج ہے۔

لیکن ہمارے ہاں مردانگی کا معیار یہ ہے کہ ایک نوعمر لڑکی جو ہاتھ میں پوسٹر اٹھا ئے ہوئے ہے کہ” آو کھانا ساتھ بنائیں” اسے سوشل میڈیا پر موجود حضرات ڈیٹ پر لے جانے کو تو تیار ہیں لیکن وہی حضرات اپنی بیویوں کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں بانٹنے پر تیار نہیں جو اس پوسٹر کا اصل مقصد ہے۔

“لو بیٹھ گئی صحیح سے”

وہ تمام حضرات جو سوشل میڈیا پر ان پوسٹروں کے حوالے سے انتہائی غلیظ اور جنس زدہ تنقید کر رہے ہیں یہ پوسٹر ان تمام مردوں پر طنز ہے۔ یہ وہی مرد ہیں جو خواتین کی موجودگی میں اس طرح چوڑی ٹانگیں کر کے نہ صرف بیٹھتے ہیں بلکہ اس دوران ہر چند منٹ بعد اپنے پرائیویٹ اعضاء سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور انہیں جب موقع ملتا ہے یہ زینب جیسے پھولوں کو مسلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

“تمہارے باپ کی سڑک نہیں ہے۔”

سڑک پر جتنا مرد ڈرائیورز کا حق ہے اتنا ہی حق خواتین ڈرائیورز کا بھی ہے۔ لیکن ہر بندہ خواہ وہ سائیکل پر ہو، رکشے میں، کار میں ، بس میں یا ٹرک میں خاتون ڈرائیور کو سائیڈ میں کرکے خود پہلے آگے نکلنا چاہتا ہے۔ کسی ٹریفک جام میں گاڑی پھنسی ہو خواتین ڈرائیورز کے آس پاس موجود حضرات کی کوشش ہوگی کہ خاتون کے سامنے سے پہلے نکل جائیں۔ اور اگر خاتون پہلے گاڑی بڑھا دے تو اطراف کے ڈرائیورز باقاعدہ غصے کا اظہار کرتے ہیں کہ تم کو صبر نہیں ہے گاڑی آگے کیوں بڑھائی۔ کیوں بھائی تمہیں گھر جانا ہے مجھے نہیں جانا کیا۔ تمہیں اس مصیبت سے نکلنے کی جلدی ہے تو مجھے نہیں۔ میں عورت ہوں تو میں صبر کروں اور تم کو جانے دوں، کیوں۔ تم آسمانی مخلوق ہو کوئی۔ ہو تو اڑ کے آگے چلے جاؤ۔

“میرا جسم میری مرضی”

یقیناً میرا جسم میری مرضی۔ میں جیسے چاہوں لباس پہنوں۔ اگر میں شرعی پردہ کروں تو میری مرضی۔ میں اسکارف لوں ، دوپٹہ سر پہ لوں یا دوپٹہ گلے میں ڈالوں، میری مرضی۔ کوئی دوسرا مجھ پر اپنی رائے کیوں ٹھونسے۔ وہ تمام بظاہر فیشن ایبل لیکن اندر سے روایت پسند فیوڈل خواتین و حضرات جو اس نعرے پر متعرض ہیں کیا وہ کسی اور کی زبردستی اپنے ڈریسنگ پر مانیں گے۔ کہ آپ کو زبردستی ٹوپی والے برقعے میں لپیٹ دیا جائے یا زبردستی ٹخنوں سے اونچی شلواریں پہنائی جائیں۔ میرا خیال ہے نہیں۔ کیونکہ آپ کا جسم، آپ کی مرضی۔ آپ کو اللہ کے احکامات کا پتا ہے۔ اب آپ عمل کریں نہ کریں یہ آپ اور اللہ کے درمیان ہے. کوئی اور کیوں زبردستی آپ پر حکم چلائے۔

میرا جسم میری مرضی کوئی بھی میری مرضی کے خلاف میرا جسم کیوں چھوئے، کیوں دیکھے۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ میری مرضی کے بغیر میرے نزدیک آئے یا مجھے چھوئے۔ اور ستم یہ ہے کہ لوگ چند ماہ کی بچیوں تک کو ریپ کرجاتے ہیں۔ جبکہ ان کو کوئی حق نہیں انہیں پامال کرنے کا۔

اس نعرے کا ایک مطلب اور بھی ہے۔ ایک بیٹے کی خاطر عورتیں چاہیں نہ چاہیں دس دس بچے پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔ اور ہر بچی کی پیدائش پر مار پیٹ سہنے پر بھی۔ ہر سال پریگننسی، ڈیلیوری، اور پھر بچے کی دیکھ بھال یہ سب عورت فزیکلی برداشت کرتی ہے۔ اس سب میں اس کا جسم کس قدر تکلیف برداشت کرتا ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتی ہے صرف۔ پھر ان میں سے کچھ عورتیں جلد جلد بچوں کی پیدائش کے باعث خون ضایع ہوکر مرجاتی ہیں پیچھے میاں جی دوسرا بیاہ کر لیتے ہیں اوران کے بچے رل جاتے ہیں ۔ اسی لیے عورت مارچ میں ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ
“عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں”

اس کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ اگر عورت کسی مرد سے شادی سے انکار کردے تو اسے یہ حق نہیں کہ اس عورت کو ریپ کردے، یا اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دے۔

“میں آوارہ میں بدچلن”

گھر سے باہر نکلنے والی ہر خاتون مردوں اور گھر بیٹھی عورتوں کو آوارہ اور بد چلن نظر آتی ہے۔ کراچی کی ایک نارمل خاتون کے حلیے میں یہ خاتون یہی بتانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ کیونکہ وہ ایک “غیرشرعی” لباس میں یعنی نارمل قمیص شلوار دوپٹے میں گھر سے باہر دفتر میں “نامحرم” مردوں کے ساتھ جاب کرتی ہیں تو انہیں آوارہ اور بدچلن سمجھا جاتا ہے۔

“اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھ لو”

یہ نعرہ ان تمام مردوں کے منہ پر طماچہ ہے جو قران اور حدیث کی آیتوں میں سے صرف خواتین کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ عورت کو پردہ کرنا فرض ہے۔ جبکہ قران میں جہاں پردہ کرنے کا حکم ہے وہاں پہلے مردوں کو حکم ہے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں بعد میں عورتوں کو حکم ہے کہ وہ پردہ کریں۔ اب سارے عورتوں کو تو ٹوپی والے برقعے میں لپیٹنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن کوئی اپنی نظروں کو نیچا رکھنے کو تیار نہیں۔ وہ والی آیات تو انہیں قران میں نظر ہی نہیں آتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو بھائیو اور بہنو اعتراض تو کر لیا اب اپنے اپنے گریبان میں بھی جھانک لو ، اپنے رویے بھی سدھار لو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply