بی ہائنڈ دا سین۔۔عارف انیس

زندگی رقص ہے، وجد یے، لے ہے، تال ہے،عید ہے، شب برات ہے، قہقہے، پھلجھڑیاں. سٹیج پر دیکھو تو یہی لگتا ہے.
زندگی رکاوٹوں کی دوڑ ہے، درد ہے، کھوج ہے، کسک ہے، سسک ہے، جان لیوا ہے. سٹیج کے پیچھے دیکھو تو کچھ ایسا ہی حال ہے.
مسئلہ یہ ہے کہ ہم پردے کے پیچھے جان بوجھ کر نہیں دیکھنا چاہتے، دیکھتے ہیں تو نظر انداز کر دیتے ہیں. بی ہائنڈ دا سین کی کہانی ان کہی رہ جاتی ہے.
زندگی میں سینکڑوں غیر معمولی لوگوں سے ملاقات ہوئی. دنیا کے سینے پر اپنے پنجوں کا نشان چھوڑ جانے والے لوگ. سٹیج کے سامنے روشنیوں کی یلغار تھی، آٹو گراف، فوٹو گراف، سیلفیاں، منہ کے سامنے درجنوں مائیک، لوگ حرف حرف پکڑنے کو بے قرار، نچھاور ہونے کو تیار، سوشل میڈیا پر ہجوم در ہجوم، لمبی لمبی گاڑیاں، حسینوں کی توجہ، بات بات پر قہقہے، من و سلوی لپک جھپک کر حاضر، جیسے کوئی ہاتھ بڑھائے اور جام لپک کر ہونٹوں پر فدا ہوجائے.
پھر سٹیج کے پیچھے بھی کچھ ہے. تنہائی، پاؤں ہر آبلے مگر چلنے کی لگن، رت جگے، آنکھیں جن میں نیند اس وجہ سے بسیرا نہ کرسکے کہ وہاں خوابوں کا ہجوم ہے، زخم جوکچھ دکھائے جاسکیں، بہت کچھ دکھانے سے بھی قاصر، فاقے، شکست در شکست شکستہ وجود، خون، پسینہ اور خوابوں کی فصل کی کاشت کرنے والے، پھر ان پر وہ بھی ہیں ہنسنے والے، طعنے دینے والے، انگلیوں سے اشارہ کرنے والے، ٹھٹھا اڑانے والے، پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے، اور وہ بھی ہیں گرنے والے، اٹھنے والے، اٹھ کے گرنے اور پھر اٹھنے والے، گھسٹنے والے، نہ ہارنے والے، ہار نہ ماننے والے،طویل خاموشی میں لڑی جانے والی جنگیں، آنسو جو اندر ٹوٹ جائیں، فریاد جو گھٹ کر رہ جائے، مگر پاؤں جو چلتے جائیں.
دیکھنے والوں کو سامنے سٹیج نظر آتا ہے، رنگ، روشنیاں اور تالیاں. فاتح کا رقص. مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ تو صرف چھلکا ہے. اصل کہانی تو سٹیج کے پیچھے ہے. جب تک بی ہائنڈ دا سین کہانی نہ دیکھ لی جائے، کچھ نہیں سمجھا جاسکتا. نامی بغیر کوئی مشقت نہیں ہوا! بی ہائنڈ دا سین ہزار میل کا سفر ہے، اس کے بغیر سٹیج کا کوئی وجود نہیں ہے، آور سٹیج پر پہنچنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے.
آج، اس وقت آپ جو بھی کرنے کو تیار ہیں، جو سفر بھی طے کرنا ہے، جو مہم سرانجام دینی ہے، جس منزل کی طرف لپکنا ہے، جن سپنوں میں رنگ بھرنا ہے، اور جو تھکن بدن میں، جوڑوں میں صدا دیتی ہے اور گو کہ ہوا سرد ہے اور بستر پاؤں کو زنجیر کرتا ہے، مگر آپ نے چلنا ہے، کیونکہ یہ وہی بی ہائنڈ دا سین سفر ہے جس کی کہانی ایک دن، اسے منظور ہوا تو، سٹیج کے اوپر کہی جائے گی.
عارف انیس
مصنف کی زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس

Facebook Comments