تِل۔۔۔(قسط1)نجم السحر

کہانیاں خیال کے دروازے پر دھیرے دھیرے دستک دیتیں
کہانیاں۔ جو ہاتھ جوڑ کر کھڑی رہتی ہیں اور کہتی ہیں مجھے تحریر کر اے تخلیق کار مجھے تحریر کر۔  مگر لکھنے والا ان کو لکھنے سے ہاتھ بچالیتا ہے اور وه تخیّل میں ہی کہیں بھٹکتی رہ جاتی ہیں۔ لیکن  کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو خود اپنے آپ کو تحریر کرواتی ہیں۔ اور منہ زور اتنی کہ آہستہ آہستہ دستک نہیں دیتیں بلکہ ذہن کے دروازے جھنجھوڑ ڈالتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے وه  تمام دروازے توڑ کے ذہن کے اندر داخل ہو جاتی ہیں پھر کبھی مدہوشی میں رقص کرتی ہیں۔ کبھی جنون میں دھمال ڈالتی ہیں۔ عبیر کے ذہن میں بھی ایک ایسی ہی کہانی کا دھمال شروع ہو چکا تھا۔ جس کو لکھے بنِا ان کو سکون نصیب نہیں ہوتا۔

وه کہانی اس کو مستقل بے چین کر رہی تھی۔ اس کی یہ کیفیت صرف تخلیق کار ہی سمجھ سکتے ہیں۔

مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کہانی کو لکھنے کے لئے عبیر کو فرصت اور حوصلے دونوں کی بے حد ضرورت تھی۔

عبیر گل ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون خانہ ہے ۔ اسے بچپن سے ہی کہانیاں اور افسانے پڑھنے کا بے حد شوق تھا خاص کرکے وہ افسانے اور کہانیاں جو ان کے معاشرے کی سوچ کی عکاسی کرتی ہوں وہ اکثر اخبارات میں چھپنے والی کسی خبر سے زیادہ اس خبر کے پیچھے چھپی کہانی میں دلچسپی لیتی نظر آتی تھی۔ اس کا یہی شوق اس کو رفتہ رفتہ افسانے اور کہانیاں لکھنے کی طرف لے آیا۔ مگر شادی اور بچوں کی ذمہ داریوں میں الجھ کر بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ شوق بھی طاق میں  رکھنا پڑا۔  عبیر کی پریشانی صرف کہانی ہی نہیں تھی وہ مناظر بھی تھے،جن کے بغیر کہانی مکمل ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ اور اس  موضوع اور مناظر کے ساتھ اگر وہ کہانی لکھی جاتی تو اس سے عبیر کو نہ صرف اپنوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ پڑھنے والوں کی بڑی تعداد پر بھی وہ موضوع گراں گزرتا ۔

اس قسم کی ہر پریشانی کے موقع پر وه ہمیشہ اپنی چھوٹی خالہ سے مشورہ لیا کرتی تھی۔ چھوٹی خالہ جو اس سے عمر میں کتنی بڑی تھیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ ایک جہاں دیدہ خاتون تھیں زندگی ان کے لیے کبھی بہت آسان نہ تھی مگر جس طرح سے انہوں نے اپنی زندگی جی ۔ تو دیکھنے والے ان کی مثال دیا کرتے تھے کہ دیکھو ایسے جیا جاتا ہے۔

عبیر اس وقت اپنی چھوٹی خالہ کے ساتھ ان کے لگژری فلیٹ کے خوبصورت سے روف ٹاپ پر بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ دسویں منزل  پر ہونے کے باوجود بھی ان کی چھت ایک خوبصورت گارڈن کا منظر پیش کرتی تھی۔

” عبیر  بیٹا یوں تو میں جانتی ہوں کہ میرے سامنے سب کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔ مگر آپ آج کچھ ضرورت سے زیادہ ہی خاموش نظر آ رہی ہیں ۔۔۔ سب خیریت ہے نا ”
چھوٹی خالہ کی کھنکتی  ہوئی آواز عبیر کو اُس کے خیالوں کی دنیا سے واپس لے آئی۔
عبیر نے خالہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو   زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے ان ہی کے انداز میں انہیں جواب دیا۔
” ارے نہیں خالہ ایسی کوئی بات نہیں۔ سب خیریت ہے الحمد اللہ ۔۔۔ آپ کو وہم ہوا ہے۔”
اپنی بات مکمل کر کے عبیر نے ایک دفعہ پھر زور سے قہقہہ لگایا۔

مگر اس مرتبہ چھوٹی خالہ کے چہرے پر ہنسی تو دور کی بات مسکراہٹ بھی نہیں آئی۔

” عبیر تم پریشان ہو ۔۔۔ مجھے بتاؤ سب خیریت ہے نا ۔۔۔؟ ”

” ارے چھوٹی خالا ایک تو آپ لوگ بھی نہ قسم سے ۔۔۔ چہرے پڑھنا جانتے ہیں ۔۔۔ اپنے بچوں کے ۔۔۔ ایک کہانی چل رہی ہے ہمارے ذہن میں اور جب تک ہم وہ لکھ نہیں لیں گے ہمیں چین نہیں پڑے گا۔ اس کا بہت شور مچا ہے ذہن میں ۔۔۔ ” عبیر نے جواب دیا۔

” تم تو کہتی ہو تمہارے شوہر کو لکھنا پسند نہیں تمہارا ۔۔۔” چھوٹی خالہ نے سوالیہ نظروں سے عبیر کو دیکھا۔

” ارے خالہ ان کی کیا بات کرتی ہیں آپ ان کو تو ہمارا کچھ بھی پسند نہیں۔ ہمارا لکھنا، ہمارا بولنا، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہمارا ٹی وی دیکھنا، ہمارا کتابیں پڑھنا یا ہمارا سلائی کرنا ہی اور کھانا پکانا تو یہ بھی آپ کو پتہ ہے ہمیں بہت اچھا آتا ہی نہیں ۔۔۔۔ ”

اتنا کہہ کے عبیر نے پھر ایک بار  زور سے قہقہہ لگایا اور اپنی بات مکمل کی۔

” ان کو تو غالباً ہمارا سانس لینا بھی پسند نہیں ہے ۔۔۔ پھر بھی ہم ان کی مرضی کے خلاف سانس لے رہے ہیں نا ۔۔۔ تو یہ افسانہ بھی چپکے سے لکھ کر کسی ویب سائٹ پر ڈال دیں گے اپنے نام کے بغیر ”
” چلو کوئی بات نہیں بچہ دل پر مت لو یوں بھی پاکستان میں نوے فیصد شادی شدہ جوڑوں کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے ”

عبیر کو بہلانے کے لئے خالہ نے خراب شادی شدہ جوڑوں کی تعداد گنواتے ہوئے اچھے خاصے مبالغے کا استعمال کر دیا۔

” تم سب چھوڑو ۔۔۔ اگر لکھنے کا سوچ لیا ہے تو ضرور لکھو  اور وہی کرو جو تم چاہتی ہو۔”
خالہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

” معاملات اتنے سادہ نہیں ہے خالہ کہانی تھوڑی  سی  بولڈ ہے۔” عبیر نے تھوڑا سا ہچکچاتے ہوئے کہا۔
خالہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔

” ہمم۔۔۔! تو یہ مسئلہ ہے ۔۔۔ لیکن اس میں پریشانی والی کونسی بات ہے ۔۔۔ نہ  تم پہلی ہو جو کوئی بولڈ کہانی لکھ رہی ہے اور نہ ہی آخری ہوگی ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کہانی کو لوگ اتنی اہمیت دیں کہ تمہارے اوپر کوئی کیس کر دیں ہو سکتا لوگ اس کو بس پڑھیں اور سرسری سا  پڑھ کے آگے بڑھ جائیں ۔۔ تو بیٹا میری مانو اور لکھو۔۔

ضرور، یہ کہانی لکھنے سے تمہارے اندر سے یہ بے چینی ضرور ختم ہو جائے گی ۔ اور بولڈ ہونے کی فکر نہیں کرو کسی فرضی نام سے لکھ دینا ”

انسان بھی کتنا چالاک ہوتا ہے افسردگی اور پریشانی کے عالم میں مشورہ بھی وہیں سے مانگتا ہے۔ جہاں سے اسے، اس کی مرضی کا جواب مل سکے۔ عبیر کے چہرے پر پھیلتا ہوا اطمینان دیکھ کر چھوٹی خالہ کو بھی سکون محسوس ہوا۔ تو وه پھر گویا ہوئیں۔

” اچھا اب بتاؤ کہانی کیا ہے ۔۔۔؟ ”

عبیر مسکرائی اب اسکی کی مسکراہٹ میں اطمینان تھا اور اس نے کہنا شروع کیا۔

” خالہ کہانی ہے ایک عورت کی جو ایک اچھے ویل سیٹ گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ تین بچوں کی ماں ہے اور اس کا نام صدف ہے۔ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی جو دوسری جماعت میں پڑھتی ہے۔ ایک دن اس کے آرٹ ٹیچر نے صدف کو میٹنگ کے لئے اسکول کے بعد آنے کا نوٹس دیا۔ صدف اس نوٹس پر حیران تھی کیوں کہ اس کی بیٹی کا آرٹ ورک ہمیشہ سے بہت اچھا رہا تھا۔ خیر وه اسکول پہنچی۔ اپنی بیٹی کو pick کیا اور اس کا ہاتھ تھام کر اس کے کلاس روم کا رخ کیا۔ خالی کلاس روم میں اس کی بیٹی کا آرٹ ٹیچر اس کا منتظر تھا۔ جو صدف کو آتے ہوئے دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔

” گڈ آفٹر نون میشال ہاؤ آر یو ۔۔۔۔ اسلام علیکم مسز عبیر خرم  ۔۔۔۔ ” آرٹ ٹیچر نے صدف اور اس کی بیٹی دونوں سے یکے  بعد دیگرے  مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
” ہمارا نام صدف ہے تو صدف کہیے ” صدف کے سرد سے لہجے اور جواب نے آرٹ ٹیچر کو تھوڑا سا حیران کیا ۔۔۔
” اوکے ۔۔۔ صدف پلیز تشریف رکھیے ”
” جی فرمائے۔۔۔!! آپ نے ہمیں یہاں کیوں بلوایا ہے ۔۔۔؟ ” صدف نے اپنے بہت سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔
” آپ اردو بہت خوبصورت بولتی ہیں۔ کیا آپ کا تعلق لکھنؤ سے ہے۔۔۔؟ ”  آرٹ ٹیچر نے متاثر ہوتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا ۔
” نہیں ۔۔۔ ! برائے مہربانی اگر آپ ہمیں صرف یہ بتا دیں کہ آپ نے ہمیں یہاں کیوں یاد کیا ہے تو بہتر ہوگا ۔۔۔ کیا میشال سے آپ کو کوئی شکایت ہے۔۔۔؟ ” صدف کے بے حد ملائم لہجے میں بھی اس قدر رعب تھا کہ اس سے بات کرنا دشوار لگتا تھا۔ آرٹ ٹیچر جو پہلے ہی بہت محتاط انداز میں بات کر رہا تھا اور بھی سنبھل کے بولا۔۔

” تین روز پہلے کلاس میں ایک ہوم ورک دیا گیا تھا جس میں بچوں سے کہا گیا تھا کہ وہ happiness draw کریں یعنی جس چیز کو وہ خوشی سمجھتے ہوں اس کو draw کریں زیادہ تر بچوں نے ہنستے ہوئے گڈے گڑیا بنائے جو کھیل کود سے لطف اندوز ہو رہے تھے صرف میشال کی ڈرائنگ باقی تمام کلاس سے بہت مختلف تھی ۔۔۔۔۔ ” ابھی ٹیچر کی بات یہیں  تک تھی کہ صدف کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے کچھ دیر پہلے تک اس کے چہرے پر جو رعونت نظر آ رہی تھی اب غم مایوسی اور پشیمانی کی ملی جلی کیفیت نظر آنے لگی ۔۔۔۔۔  اسے اندازہ ہو گیا ٹیچر اس سے کس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس دن بے حد پریشان تھی۔ جب اس نے اپنے دل کی بھڑاس مشعل کی ڈرائنگ بک پر تصویر بنا کے نکالی وہ تصویر ایک بہت خوبصورت منظر کی تھی۔ جس میں ایک پنجرہ تھا سونے کا اور ایک پرندہ اس کا دروازہ توڑ کر اڑتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پرندے کی حالت ناگفتہ بہ تھی کہیں زخم اور ان سے بہتا ہوا لہو کہیں ادھڑے ہوئے پَر مگر اس کے باوجود اپنا پنجرہ توڑ کر اڑتے ہوۓ خوش نظر آتا تھا بے حد خوش ۔۔۔ صدف کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ٹیچر اس سے کیا کہہ رہا ہے وہ اپنی ہی سوچ میں کھو سی گئی تھی۔

” صدف آپ سن رہی ہیں میں کیا کہہ رہا ہوں ۔۔۔؟” ٹیچر نے میز کو ہلکا سا کھٹکھٹاتے ہوئے کہا۔
” جی جی ہم سن رہے ہیں آپ کہیے ” صدف نے سنبھلتے ہوئے جواب دیا

” ایک دوسری کلاس کے بچے کے لیے خوشی کا یہ معنی ڈھونڈنا بہت حیرت کی بات ہے ۔۔۔ اوپر سے تصویر میں موجود اسٹروکس ، کلر کمبینیشن اور جو detailings ہیں اس کا تو جواب ہی نہیں ۔۔۔ میں خود بھی ایک مصور ہوں اور جانتا ہوں یہ تصویر کوئی دوسری جماعت کا طالب علم بنا ہی نہیں سکتا ۔۔۔ گزارش ہے کہ بچی کو اس کا کام خود کرنے دیجئے ” آرٹ ٹیچر نے اس کے چہرے پر پھیلتی ہوئی شرمندگی دیکھ کر مزید کچھ کہنے کا ارادہ ترک کر دیا ۔

” آئی ایم سو سوری ٹیچر  ۔۔ ” ابھی صدف نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ سلمان نے اسے ٹوک دیا!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments