اپنی آنکھیں کھول دوں یا بند رکھوں؟۔۔​ستیہ پال آنند

جب  بھی آنکھیں کھولتا ہوں
جانی پہچانی یہی دنیا نظر آتی ہے مجھ کو
جب بھی آنکھیں بند کر کے اپنے اندر جھانکتا ہوں
اور ہی دنیا کا نقشہ دیکھتا ہوں

کچھ عجب منظر ہے اندر
گندگی اک عمر بھر کی ۔ لاکھ صدیوں کی غلاظت
جانتا ہوں آدمی کی نسل کا ماضی یہی تھا
اجتماعی لاشعوری ذہن کی ڈِسکٹ کے اندر ایک َچپ سا٭
جس کے کمپیوٹر میں چلنے پر میں اپنی
بند آنکھوں سے برابر دیکھتا ہوں
لڑتے بھڑتے جنگلی وحشی قبیلے

ارتقا کی دوسری منزل پہ تہذیب و تمدّن کا اُبھرنا
نیست و نابود ہونا
مذہبوں کے نام پر لشکر کشی، خلقت کا قتل ِ عام، شہروں کی تباہی
حملہ آور فوجیوں کی بربریت
آمروں کی، بادشاہوں کی ہوَس ِ ملک گیری
نوجوانوں، عورتوں، بچوں کو جیسے ریوڑوں سا ہانک کر
نیلام گھر میں ان کی بولی

تیز رو میں آگے بڑھتے
چِپ کے ان سارے مناظر پر لہو بکھرا ہوا ہے٭

آدمی کی نسل کا ماضی بہت مکروہ ہے
۔۔۔ اب آنکھیں کھولوں؟
چِپ کو ڈسکٹ
میں مقفّل چھوڑ دوں ۔۔۔؟

یہ سوچ کر جب اپنی آنکھیں کھولتا ہوں
چونک کر کیا دیکھتا ہوں
چِپ تو چلتی جا رہی ہے، آج کی دنیا کی تصویریں دکھاتی
سب طرف وحشت وہی ہے
بربریت، جارحیت کا وہی نقشہ ہے ہر سو
کچھ بھی تو بدلا نہیں ہے

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی آنکھیں کھول دوں یا بند رکھوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Diskette .. Chip *

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply