• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • لالی وڈ کا ماضی ، حال،قتل، مقتول ، قاتل، تقتیل، مقتال۔۔شہزاد اعظم

لالی وڈ کا ماضی ، حال،قتل، مقتول ، قاتل، تقتیل، مقتال۔۔شہزاد اعظم

ہم نے جیسے ہی دنیا میں آنکھ کھولی، اپنے دائیں بائیں خالاؤں ، نانی اور پھوپھیوں کو پایا۔ جب بھی ہماری آنکھ کھلتی، ہمیں انہی  شخصیات میں سے کوئی نہ کوئی اپنے دائیں، بائیں دکھائی دیتی۔گھر میں خالائیں ہمیں یوں دکھائی دیتی تھیں کیونکہ ان کی شادیاں نہیں ہوئی تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ اپنی خالاؤں سے ہماری بہت پکی دوستیاں تھیں۔

ہماری 75سالہ نانی کی ایک 85سالہ سہیلی تھیں ۔ ان کو نجانے کیوں فلمیں دیکھنے کی عادت تھی ۔ ان کے بیٹی، بیٹیاں سب کے سب اپنے اپنے شریک سفر اور اپنے بچوں کی خدمت میں مگن رہتی تھیں ۔ کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ ہماری نانی کی سہیلی کو فلم دکھانے لے جائے۔ اس کا توڑ انہوں نے یہ نکالا کہ وہ ہماری نانی سے کہتیں کہ اس بچے کو میرے  ساتھ بھیج دیں، اس طرح کم از کم لوگ یہ تو نہیں کہہ سکیں گے کہ اکیلے ہی فلم دیکھنے چلی آئی ہیں اماں جی! ہماری نانی اماں بے چاری سہیلی کا کہا ٹالتی نہیں تھیں چنانچہ وہ انہیں اجازت دے  دیتیں اور وہ ٹوپی والا برقع پہن کر اور ہمیں گود میں اٹھا کر تانگے میں سوار ہوتیں اور سینما پہنچ جاتیں۔ سینما میں وہ ہمیں بظاہر سُلا دیتیں مگر ہم   نیم وا آنکھوں سے ہی فلم دیکھتے رہتے ۔ہمیں وہ فلمیں بے حد اچھی لگتی تھیں کیونکہ ان میں دوپٹہ پہنے ہیروئن  سکرین پر آتی تو ایسا لگتا جیسے ہماری کوئی خالہ جان ہیں۔ جب وہ گانا شانا گاتیں تو ہمیں وہ نغمگی بھی اچھی لگتی۔

اکثر ایسا ہوتا تھا کہ نانی کی سہیلی کو 3 یا4ہفتے گزر جاتے اور وہ کوئی فلم دیکھنے کے لئے نہیں جاتی تھیں تو ہمیں شدید غصہ آتا تھا کیونکہ ہمارا موڈ فلم دیکھنے کا ہوتا مگر نانی کی سہیلی فلم دیکھنے کا نام ہی نہ لیتیں۔ اندر ہی اندر ہمارا خون کھولتا رہتا ، وہ تو ہمیں بولنا نہیں آتا تھا اس لئے ہم انہیں کچھ کہنے سے قاصر رہتے تھے

وقت یونہی گزرتا رہا۔ ہم نے پہلے  سکول جانا شروع کیا اورایک دن وہ بھی آیا جب ہم میٹرک میں پہنچ گئے ۔ دوستوں نے پروگرام بنایا کہ  سکول کے پچھواڑے میں موجود سینما ہال میں لگی فلم دیکھی جائے۔ ہم بھی ان کے ساتھ ہو لیے ۔  اس  دور  میں  فلم  بینی  کے عادی مجرم طلبہ کی” سہولت“ کے لئے دوپہر کے وقت بھی خصوصی شو پیش کیے جاتے تھے۔ ہم بھی وہ شو دیکھنے چلے گئے۔ وہاں ہم نے ایسے ہیرو  کو دیکھا جس نے ماتھے پر اپنے ہی انداز کے خوبصورت بال بنا رکھے تھے۔ فلم میں اس کے بالوں سے ہر ہستی مرعوب ہوتی دکھائی دیتی تھی۔اس وقت ہمیں اپنی مرضی سے بال بڑھانے اوربنانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم نے سوچا کہ ”بڑے ہو کر“ ہم بھی ایسے ہی بال بنائیں گے مگر ہوا یوں کہ جب ہم بڑے ہوئے اور بال بنوانے کا اختیار ہمارے ہاتھ آیا تو گنج اپنے عروج پر تھا چنانچہ یہ ارمان دل میں ہی دفن ہوگیا۔

ہم نے کالج کے دور میں جا کر ایک مرتبہ تنہا فلم دیکھی جس میں ہیرو کو بدلے کی آگ میں دہکتا دکھایاگیا تھا۔اس نے فلم میں کتنی ہی لاشیں گرائیں، وہ غریب تھا، اس کے پاس جدید قسم کی بندوق خریدنے کے پیسے نہیں تھے چنانچہ اس نے کلہاڑی نما اوزار کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیا اور دشمن سے بدلہ لینے کے لئے تانگے پر سوار ہو کر نکل کھڑا ہوا۔ اس نے تنہا ہی نجانے کتنے انسانوں کو کلہاڑی کے وار کر کے موت کی نیند سلا دیا۔مرنے والا بھی اتنا طاقتور ہوتا تھا کہ کلہاڑی کے کئی مہلک وار وہ بخوشی سہہ جاتا تھا اور مرنے سے قبل قاتل کو نہ صرف یہ کہ برا بھلا کہتا تھا بلکہ اسے بد دعائیں اور دھمکیاں بھی دیتا تھا۔ ہم سوچتے تھے کہ شاید مرنے والا اصلی گھی کھاتا ہوگا جوکلہاڑی کے درجن بھر وار سہہ کر بھی بولتا چالتا دنیا سے جا رہا ہے۔

ہم نے وہ فلم دیکھی مگر بعد ازاں ہمیں اپنے پیسوں کے برباد ہونے کا قلق رہا کیونکہ ہم تو فلم میں کچھ ایسے مناظر دیکھنے کے لئے گئے تھے کہ جن سے ہمیں یہ علم ہو سکے کہ آج کل کس قسم کے ملبوسات مارکیٹ میں ”اِن“ ہیں اور کون کون سے نامعقول پہناوے ایسے ہیں جنہیں پہن کر ایک معقول شخص بھی نامعقول دکھائی دینے لگتا ہے مگر وہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا، چیخم دھاڑ تھی، قتل تھا، مقتول تھا، قاتل تھا، تقتیل تھی، مقتال تھا اور کچھ بھی نہیں۔ یقین جانیے اس فلم کو دیکھنے کے بعد کئی روز تک ہمیں ڈراؤ نے خواب آتے رہے۔ اس کے بعد ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اب کم از کم لالی وڈ کی کوئی فلم نہیں دیکھیں گے پھر یوں ہواکہ کسی نے ہمیں ا نگریزی فلم دیکھنے کا مشورہ دیا ۔اس ”مشیر“ نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ انگریزی فلم دیکھیں گے تو اس کے کئی فائدے ہوں گے ۔ ایک تویہ کہ آپ کو حقیقت سے قریب تر مناظر دیکنے کا موقع ملے گا دوسری بات یہ کہ سینما میں بیٹھے بیٹھے یورپ اور امریکہ کا نظارہ ہو جائے گا تیسرا اور سب سے اہم فائدہ یہ کہ آپ کو ا نگریزی بولنی اور سمجھنی آجائے گا۔

ہم نے انگریزی کے  شوق میں اس کی بات مان لی اور انگریزی فلم دیکھنے پہنچ گئے۔ وہاں تو ایک شخص نے دوسرے پر چھری سے وار کیا تو اس کی گردن سے خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ ایک دو ہچکیاں لے کر فوت ہو گیا، اسے تو قاتل کو گالی دینے کی مہلت بھی نہیں مل پائی۔ اسی طرح ہم نے دیکھا کہ ایک ناہنجار نے ایک شخص پر پستول سے گولی چلائی تو وہ ہوا میں اس طرح اچھلا جیسے لفافہ اڑتا گیا ہو۔اس نے تو پھٹکا بھی نہیں کھایا۔ یہ دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ ہالی وڈ کے مقتول اتنے نازک ہوتے ہیں تولالی وڈکے مقتول اس قدر سخت جان کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ سب ڈرامہ ہوگا۔

اس کے بعد ہم نے فلم دیکھنے کے لئے سینما ہال جانے کی کوشش کرنی چھوڑ دی کیونکہ اب تو یہ خرابات گھر گھر پہنچ چکی تھیں۔ اب اگر ہمیں کبھی موقع ملتا تو ہم بالی وڈ کی فلم دیکھ لیتے تھے ۔ اس سے ہمیں ادراک ہوتا کہ دنیا کس نہج پر جارہی ہے گھر کے حالات کیا ہوتے ہیں ، شادی کے بعد ان میں کس قسم کی تبدیلی آتی ہے ۔ کس قسم کی خاتون سے شادی کرنی چاہیے  اور عورتوں کی وہ کون سی قسم ہے جس سے سینکڑوں میل دور رہنے کو مقصد حیات بنالینا چاہیے ۔ ہم اکثر و بیشتر ان فلموں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور اسے اپنی کتاب زندگی کے کسی ورق پر لکھ لیتے ۔ دوسری جانب لالی ووڈ کے بارے میں ہم سنا کرتے کہ وہ تباہی کی طرف جارہی ہے تو ہمیں اذیت آمیز مسرت ہوتی اور ہم سوچتے کہ جب لچھن ایسے ہو ں کہ ان میں گنڈاسے اور قاتل و مقتول دکھائے جاتے ہوں تو اس کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے

لیکن چالیس سال گزرنے کے بعد ہم نے گزشتہ کچھ عرصے سے یہ سننا شروع کیا کہ لالی ووڈ ترقی کررہا  ہے ۔ ہم نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر اور سابقہ تمام وطیروں کو ترک کرکے آخر کار لالی ووڈ کی ایک فلم دیکھ ڈالی ۔ اس میں ہیرو کو دکھایا گیا کہ وہ ہم سے بھی گیا گزرا تھا اور ہیروئن بیچاری لگ رہی تھی کہ کئی بچوں کی ماں ہے ۔ جن کو اچھے کپڑے دلانے کیلئے اس نے فلم میں اداکاری کرنے کا ارادہ کیا ہوگا ۔ اس ہیروئن کو اکیلا جاتا دیکھ کر چند غنڈے گھیر لیتے ہیں  جن کی تعداد کم از کم 12 ہوتی ہے ۔ ہر ایک کے ہاتھ میں پستول ہوتی ہے اور وہ 12پستولیں ایک لڑکی کو دھمکا رہی ہوتی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی اثناءمیں ان غنڈوں کے منہ پر ایک طمانچہ پڑتا ہے اور ان میں سے دو چار زمین پر جاگرتے ہیں اور پھر دوسرا تھپڑ رسید کیا جاتا ہے باقی ماندہ بھی زمین پر گر جاتے ہیں اب اس ہیرو کی شکل دکھائی جاتی ہے جسے دیکھ کر تمام غنڈے اپنے آلہ قتل سمیت سرپر پاؤں  رکھ کر اور دم دباکر بھاگ جاتے ہیں اس کے بعد ہیرو اور ہیروئن کی پہلی ملاقات ہوتی ہے اور وہ اسی ملاقات میں گانا گانے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کو شادی کا پیغام دے دیتے ہیں ۔ اس کے بعد شادی رکوانے کی کوشش کی جاتی ہے درجن بھر قاتلوں کو بلایا جاتا ہے وہ سب کے سب ہیرو کو قتل کرنے کیلئے بہ یک وقت فائرنگ کرتے ہیں اور وہ مکھن میں سے بال کی طرح بچ نکلتا ہے اس طرح پستولوں سے نکلنے والی 48 گولیا ں بھی ہیرو کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ یہ فلم ابھی جاری تھی کہ ہم نے انجام سے پہلے ہی اس کو زبردستی انجام تک پہنچا دیا اور پھر یہ سوچا کہ لالی وڈ کو کسی طرح گھسٹنے اور رونے پیٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply