آٹا گوندھتے ہلتی کیوں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

آج ذرا کھل کے بات کرتے ہیںانگلکی نفسیات پر۔ ممکن ہے آپ کو غیر شائستہ لگے، پر لگتا ہے تو لگتا رہے۔ اگر آپمضمون کی پہلی سطر سے ہی پورا مضمون جج کرنے کے عادی ہیں تو میرے نزدیک قدرت کی جانب سے یہی آپ کی سزا ہے۔ تاہماگر آپ دلائل کی بنیاد پر شائستگی یا غیر شائستگی کا فیصلہ دینے پر یقین رکھتے ہیں تو آگے بڑھتے ہیں۔

کوئی مرد کسی خاتون کے ساتھ انگشتی دراندازی کیونکر کرتا ہے؟ میرے حساب سے اس کی تین ممکنہ وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ تذلیل یا تحقیر ہے۔ اس کا مآخذ سکول کالجوں اور مدارس میں لڑکپن اور جوانی کے دوران کسی قسم کی برتری یا احساستفاخر ہوا کرتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں عموما جسمانی برتری بچے کے ذہن میں کسی نہ کسی وجہ سے بیٹھ جاتی ہے جس کو تقویت اسبرتری کا احساس دلانے سے ملتی ہے۔ یوں یہ حرکت دوسرے کو حقیر ثابت کر کے اپنی برتری کا زعم محسوس کرنے کا باعث بنتیہے۔ ایسے بچے بڑے ہو کر معاشرے میں اپنا حصہ ڈالنے تک پہنچتے ہیں تو بقدر انگل ہی اپنا حصہ ڈال پاتے ہیں۔

انگلی کی نفسیات کا دوسرا مآخذ شرارت ہوا کرتی ہے۔ ایک بار پھر اس شرارت کی بنیادیں بھی آپ کے تعلیمی اداروں میں ملتی ہیںجہاں ایک دوسرے سے فرینکنیس اتنی ہوجاتی ہے کہ ایسا کرنا فاعل کو ایک قسم کے ایڈونچر کا لطف دیتی ہے۔

اس معیوب حرکت کی تیسری وجہ جنسی لذت ہو سکتی ہے جو ایک مرد ایک عورت کے لمس سے حاصل کرتا ہے۔ اس تسکین کامآخذ ہمارے معاشرے کی وہ گھٹن ہے جو نکاح میں تاخیر کی وجہ سے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔ تاہم اس گھٹن کا شکار کم و بیشسبھی افراد ہوتے ہیں۔ کچھ افراد البتہ اسے محسوس اس قدر کرتے ہیں کہ تمام حدود و قیود پار کر کے اسے حاصل کرنے کے چکر میںلگ جاتے ہیں اور اس قسم کی حرکتوں کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔

غور کیجیے گا، وجہ ان تینوں میں سے کوئی ایک ہو یا کوئی چوتھی پانچویں جس کا راقم احساس نہ کر پایا ہو، ایسے بندے کو شہہ فریق ثانیکی خاموشی یا اس کے جواب میں مناسب ردعمل نہ دینے کے باعث ملتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم فریق ثانی کو قصور وارٹھہرا کر وکٹم بیشنگ کے مرتکب ہوں، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے۔

ہمارے بچوں سےگڈ ٹچ بیڈ ٹچکے بارے میں بات کرنا ایک ٹیبو سمجھا جاتا ہے۔ یعنی ہمارے معاشرے میں بچوں کے سامنےسگریٹ پینا اتنا معیوب نہیں مانا جاتا جتنا اسے یہ بتانا کہ بیٹا یا بیٹی، جسم کے فلاں حصے پر کسی کا ہاتھ لگنا ٹھیک ہے اور فلاں حصے پرکوئی چھوئے تو وہ غلط ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کو یہ بنیادی اور اہم ترین بات بتلانے سے قاصر رہتے ہیں تو بیڈ ٹچ پر ردعملدینا ہماری تربیت میں کہیں گم ہوجاتا ہے۔ ہم بچے کو ادب آداب سکھاتے ہیں، تین سانس میں پانی پینا سکھاتے ہیں، دورہ المیاہمیں داہنا پیر پہلے رکھنا اور دعا پڑھنا سکھاتے ہیں، کھانے کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا سکھاتے ہیں تاہم ہمارے والدین کی اکثریتبچوں کو ایہ ادراک کروانے میں ناکام رہتی ہے کہ کہاں ہاتھ لگے تو راڈار آن کر لینے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ ایسی صورتحال پر یاتو خاموش رہتا ہے یا اسے معاشرے کا نارم سمجھ کر ردعمل نہیں دے پاتا۔ درانداز کو مزید شہہ ملتی ہے اور وہ بڑا ہوکر کسی بینکمیں کسی خاتون پر اپنی انگلی کا استعمال کرتا پایا جاتا ہے۔

جہاں تک بات ہے جنسی تسکین کی خاطر ایسا کرنے پر ردعمل نہ دینے کی تو اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہر معاشرے کیطرح ہمارا معاشرہ بھی ارتقاء میں ہے تاہم ہمارے معاشرے کا معاملہ سٹنڈڈ گروتھ والے معاشرے کی طرح ہے۔ ہم اکیسویںصدی میں وقت کے ہاتھوں پہنچ تو گئے ہیں تاہم ہماری سوچ ابھی تک چار پانچ سو سال پہلے کسی مقام پر رکی ہوئی ہے۔ ہماریخواتین کا ایک بڑا حصہ ابھی تک ہماری ورک فورس کا حصہ نہیں بن پایا اور اس کی وجہ ہمارے معاشرے کی جانب سے مختلفانواع و اقسام کی رکاوٹیں ہیں۔ یہ رکاوٹیںزمانہ خراب ہےکی صورت میں بھی ہو سکتی ہیں اورعورت کا کام گھر سنبھالنا ہےکی شکل میں بھی۔ یوں ہمارے معاشرے میں عورت کا اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی غرض سے باہر نکلنا ایک ایسا معاملہ ضرورہے جو آج ۲۰۲۰ کے اختتام تک بھی قابل بحث ضرور ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔

اب ایک عورت جو کسی طرح باہر نکل آئی ہے، خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے پر یقین رکھتی ہے، کسی پر انحصار کرنے سےگریزاں ہے، جب کسی ایسے انگل بردار خبیث کا سامنا کرتی ہے تو اسے ردعمل دینے سے پہلے کئی باتیں سوچنی پڑ جاتی ہیں۔لوگکیا کہیں گے؟،گھر والوں کو معلوم ہوا تو گھر بٹھا لیں گےاور سب سے گھٹیا الزاملوگ اسے میری رضامندی سمجھیں گےاور الٹا مجھے ہی بدکردار مانیں گے۔

کس قدر گھٹیا سوچ ہے کہ ہم نے متاثرہ خاتون کو ہی الزام دے دینا ہے اور اس کی وجہ اس کی خاموشی ماننا ہے۔ یعنی خربوزہچھری پر گرے یا چھری خربوزے پر، آپ نے قصور وار خربوزے کو ہی ٹھہرانا ہے؟ میرے نزدیک یہ وکٹم بلیمنگ اور وکٹم بیشنگکی بدترین شکل ہے۔ کیا عورت کی خاموشی سے اس خبیث مرد کا جرم کسی طرح سے کم ہوجاتا ہے؟ کیا معاشرتی، مذہبی اور قانونیطور پر عورت کی خاموشی کسی طرح سے بھی جرم ہے جو آپ اسے قصوروار ٹھہرا رہے ہیں؟ دراصل یہ ہوتی ہے اصل پوٹینشلریپسٹ والی سوچ۔ جیسے خود کش حملے کی تاویل کسی کے مسلک یا مذہب سے نکال کر دی جائے۔

ایک خاتون (جی ہاں خاتون) لکھتی ہیں متاثرہ لڑکی کا ردعمل نہ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے یہ انگلی نہ تو بری لگی نہ ہی کوئی نئیحرکت۔ مجھے افسوس ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کے لیے ایسی سوچ رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کو آفس ڈیکورمکے بارے میں کچھ معلوم ہے؟ کیا آپ جانتی ہیں کہ ایسی حرکت بذات خود ہر اعتبار سے ایک جرم ہے ناکہ جوابی خاموشی؟

ہماری خواتین کی پرورش ابھی تک امتیازی بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ نتیجتاً ہماری خواتین کا ایک بڑا حصہ کسی قسم کی زیادتی پر ردعملدینے کی بجائے اس پر خاموش رہنے پر ترجیح دیا کرتا ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ اپنے حق کے لیے بولنے والی لڑکیوں کے لیے ہمنے بدتمیز، منہ پھٹ، بدلحاظ وغیرہ جیسے ٹیگ ہمہ وقت تیار رکھتے ہوئے ہیں۔ یعنی لڑکی اپنے استحصال پر بولے تو مسئلہ، نہ بولے تومسئلہ۔

ایسے لوگوں کو جو یہ سمجھنے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ قصوروار متاثرہ خاتون ہی ہیں، میرا مشورہ ہے کہ اپنا مؤقف تھوڑاآسان کر لیں۔ آپ کسی بھی معاملے پر فقط اتنا کہہ دیا کریں کہ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو آٹا گوندھتے ہلتی کیوں؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آٹا گوندھتے ہلتی کیوں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

Leave a Reply