نصیب کی مار ۔۔ رعنا اختر

وہ عجیب سے واہموں اور سوچوں میں گرفتار تھی، چاہ کر بھی اس کے لیے ان سب سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہو گیا تھا ، بہتیرا سوچوں کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتی پر ہر بار ناکامی اس کے ہاتھ آتی ۔ نصیب کی مار تھی یا ، اس کے  ذہن کی پیداوار۔۔۔

” ہاں میں نے چیتھڑوں میں زندگی گزاری ایسی زندگی جسے کوئی بھی دیکھ کہ بیزار ہو سکتا تھا ” ۔۔صفحہ قرطاس پہ لفظ بکھر رہے تھے ۔ وہ قلم کو مضبوطی سے تھامے اپنی زندگی کے  سبھی پہلوؤں کو آج لکھ کر جلا دے گی ، شاید ایسا کرنے سے اسے اپنی زندگی کے ناخوشگوار لمحات سے چھٹکارا مل جائے ۔ قلم اپنی رفتار سے چلتا رہا ، زندگی نے اسے تن تنہا سمندر کے حوالے کر دیا تھا جہاں اسے ہمیشہ اک فرشتے کا انتظار رہا ایسا فرشتہ جو اسے سکول شوز لا دے گا ، اور ایک عدد جرابوں کا جوڑا بھی تاکہ سکول مانیٹر اسے یہ کہہ کر باقی لڑکیوں سے الگ نہ کریں کہ اس نے بنا جرابوں کے شوز پہن رکھے ہیں ۔

ہاں وہ لکھتی گئی قلم کی روشنائی اسکے جگر کا خون بن چکی تھی جو رفتہ رفتہ اس کی رگوں سے نکل کر صفحات پہ پھیلتی جا رہی تھی ۔ چند لمحوں کے لیے وہ رکی جیسے اپنے لفظوں کی بناوٹ دیکھ رہی ہو ، پر آنکھیں دھندلا رہی تھیں، دل پھٹا جا رہا تھا ۔ آنکھوں سے  بہتا گرم لاوا اس کے گال بھگو رہا تھا ۔ نہیں میں رک نہیں سکتی اگر آج دل کے لاوے کو لفظوں کا روپ نہ دے پائی تو شاید میں خودکشی کے قریب پہنچ جاؤں گی ۔ قلم کو دوبارہ گرفت میں لیا اور ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کو صاف کیا ۔

وہ اتنے سالوں بعد بھی اکیلی تھی وہ کوئی رشتے نہ بنا پائی تھی قلم اپنی روانی سے چلتا رہا ، کیسے رشتے بنا سکتی تھی اسے یاد ہے جب سکول میں اس کی کوئی دوست نہیں تھی ۔ سکول بریک کے دوران وہ اکیلی اپنی نشت پہ بیٹھی رہتی تھی نجانے کب یہ بریک پیریڈ ختم ہو گا اور کلاس شروع ہو گی ۔ کیونکہ تمام لڑکیاں اسے حیرت سے تکتی تھیں ، اور وہ تمام لڑکیوں کو حسرت سے کبھی کینٹین جانے کا اتفاق نہیں ہوا نہ کبھی کسی قسم کی دوستی کا کیونکہ دوست تو ان کے ہوتے ہیں جن کی جیب میں پیسے ہو ں ،ہاں اس نے دوستیوں کا معیار پیسوں میں تول رکھا تھا ۔ یہ شاید اس لیے بھی تھا کیونکہ وہاں سب پیسوں والیوں کے پاس دوستیں موجود تھیں ۔ اک بار اسے پھر سے اک فرشتے کی ضرورت تھی ، آنکھوں سے بہتا پانی اب اس کے چہرے کے ساتھ ساتھ اس صفحے کو بھی بھگو رہا تھا جہاں وہ اپنے جگر کی سیاہی سے لفظوں کو جلا بخش رہی تھی ۔

کمزور جسم نے سمندر کے تھپیڑے سہے تھے اب اور ذرا بھی سکت نہیں تھی، اس کے پاس جو مزید کچھ برداشت کر سکتی ۔۔ نگاہیں کھڑکی پہ مرکوز تھیں ، جیسے اپنے ماضی کو ٹٹول رہی ہو پھر صفحات پہ جھکی ہے اسے یاد ہے جب کالج میں ایڈمیشن کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں تھے ۔ ماں نے پیسے دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ آخر وہ بھی کب تک اس کے لیے کچھ کر سکتی تھی ۔۔۔ انہی  دنوں کچھ وظائف اس کی نظروں سے گزرے تھے ہاں سورتہ الواقعہ پڑھنے سے خدا غنی کر دیتا ہے بگڑے کام سنورنے لگتے ہیں ۔ ہاں اس نے اس پہ عمل کرنا شروع کیا کیونکہ پھر سے اسے اک فرشتے کی ضرورت تھی ۔ ہاں جیسے تیسے ایڈمیشن ہو گیا ماں کو ترس آ گیا کچھ پیسے اس نے بھی جوڑ رکھے تھے مل ملا کہ کالج تک پہنچ گئی ۔ اب بات یونیفارم پہ اٹک کر رہ گئی تھی ہر بار فرشتہ چاہیے تھا ، پر ہر بار فرشتہ کہاں ساتھ دیتا ہے ۔

اچانک اس کا قلم رک گیا چہرے کو صاف کیے وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے کسی گہری سوچ میں چلی گئی تھی ۔   اس کے ماضی نے پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور حال سے اسے کوئی بہتری کی امید وابستہ نہیں تھی ۔ وہ امیدیں رکھیں بھی تو کیسے ، قلم کو آہستگی کے ساتھ میز پہ رکھ دیا جیسے تھکن اس کے ہاتھوں میں اتر چکی تھی اور اسے مزید لکھنے سے روک رہی تھی ۔

نقاب کرنے والی کو کیا چاہیے ؟ ایک سوالیہ نشان اور ماتھے پہ   کئی بل ۔۔۔ ہاں نقاب کرنے والی کو کیا چاہیے جملہ بارہا دوہرایا گیا ۔ اسے دھن دولت سے کیا لینا دینا ہے ۔ اک لوہے کی کاری ضرب نے اس کا دماغ مفلوج کر دیا تھا ۔ ہاں جیسے مرضی انسان کے ساتھ بیاہ دو اسے کیا فرق پڑتا ہے ، ہاں اسے کیا فرق پڑتا ہے زیر لب اس نے جملے کو دوہرایا ۔ یوں لگا جیسے کسی نے گویائی چھین لی ہو اپنے نصیبوں پہ یقین کیوں نہیں رکھتی پھر سے اک کاری ضرب جس نے اس کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔
ان ضربوں سے جسم سے خون نہیں بہا لیکن روح تار تار ہو چکی تھی ۔

نصیب ! آنسو اب ٹھوڑی سے بہہ رہے تھے ہاتھوں کو بے جا مسل رہی تھی ، نقاب کرنے والی ۔۔۔ ہاں اس نے پردے کو چنا تاکہ اس کا رب اسے چن لے  ، اس نے اپنے دل کو مار دیا تھا تاکہ رب اسے زندگی بخشیں ، اس نے خواہشات کا گلا گھونٹ دیا تاکہ نفس کے گھوڑے  کو لگام ڈال دے ۔ کیونکہ ہر بار اس کے پاس فرشتہ نہیں تھا ، فرشتہ اک فرشتہ ہی تو چاہا تھا اس نے، باپ کے روپ میں ، بھائی کے روپ میں لیکن نہیں اسے دنیا میں کوئی فرشتہ نہیں ملا ۔

تب اس نے اپنے دل کو مارا جب اس کی عمر کی لڑکیاں تتلیوں کے پیچھے بھاگتی تھیں ۔
جنہیں تتلیوں کو پکڑنا اچھا لگتا تھا لیکن وہ ایسی چیزوں کے پیچھے کیوں بھاگے جو نازک آبگینے کے سوا کچھ بھی نہ تھی ۔۔۔ اس نے خوابوں کو دیکھنا چھوڑ دیا تھا حقیقت کو جانچا اور اسی کی ہو کر  رہ گئی ۔
نہیں اماں مجھے کچھ نہیں لینا میں کیا کروں گی کچھ خرید کر  آگے ہی بہت کچھ ہے میرے پاس ۔ عید پہ کیا پہنوں گی پتر ، عید ۔۔او اماں میں نے کہیں باہر تو جانا نہیں ہے، گھر والا ہی کوئی جوڑا پہن لوں گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماں اس کی اس دانشمندی سے خوش ہو جاتی تھی لیکن اس نے کبھی اپنی بچی کے من کو پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی ۔ اس عمر میں سب بچیاں لڑ لپٹ کے ماں سے اپنی بات منواتی ہیں لیکن وہ ان سب باتوں سے بے پرواہ تھی ۔ کبھی عید پہ جوڑا نہیں لیا ، عید ہوتی کیا ہے وہ کیا جانیں ۔ کیونکہ خوشیوں نے کبھی اس کے دل پہ دستک دی ہی نہ تھی ۔۔۔۔ اسے شکوہ بھی نہیں تھا پر اسے اک فرشتے کا انتظار ضرور تھا جو سب کچھ پلک جھپکتے اس کی جھولی میں ڈال دے گا ۔ ہوا کی تیزی سے کھڑکی کے پٹ کھلے اور تمام صفحات فرش پہ بکھر گئے وہ چونکی اور فرش پہ بکھرے ان صفحات کو دیکھنے لگی جس پہ اس نے اپنی زندگی کو لفظ بہ لفظ بُنا تھا ۔ نصیب کی مار بہت بری ہوتی ہے کرسی سے اٹھ کے اس نے فرش پہ بکھری اپنی زندگی کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply