الکاسب حبیب الله ۔۔شاہد محمود

بہت پرانی بات یاد آ گئی ۔۔۔۔۔ میرا دفتر جس سڑک پر تھا وہاں پھل والے سائیکلوں اور ریڑھیوں پر پھل فروخت کرتے تو ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا ہوتا ۔ ان کے خلاف تجاوزات والے کاروائی کرتے ان کے سائیکل پھل ریڑھیاں اٹھا کر ٹرک میں ڈال لیتے ، پھل ضائع بھی ہوتا ۔۔۔ ایک دن عدالت سے دفتر واپسی ہو رہی تھی تو شور سنا کہ تجاوزات والے آ رہے ہیں ۔۔۔ بیچارے پھل فروشوں کی دوڑیں لگ گئیں  ،میں نے دیکھا تجاوزات اٹھانے والوں کے ساتھ کوئی افسر بھی نیلی بتی والی گاڑی میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا پولیس گارڈ کے ساتھ ۔۔۔۔ میں نے دو تین منشیوں کو بھیجا کہ پھل والوں سے کہو بھاگنے کی ضرورت نہیں اور گاڑی میں جو بھی ان کا افسر بیٹھا ہے اسے میرا پیغام دو کہ آ کر چائے پی لے ہمارے ساتھ اور اپنے دفتر جانے کی بجائے سڑک کنارے چائے کے کھوکھے پر بیٹھ گیا اور تجاوزات کی آڑ میں پھل اٹھانے والے لوگوں سے کہہ دیا کہ جب تک تمہارے افسر سے میری بات نہیں ہو جاتی تم لوگ کسی پھل فروش یا اس کے پھل کو ہاتھ نہیں لگاؤ گئے۔ ان کا افسر بڑا جزبز ہوا ۔۔۔ پولیس والے کو بھیجا کہ آپ آ کر گاڑی میں بیٹھے صاحب سے بات کر لیجیے۔ ہم نے بھی عرض کر دی کہ اپنے صاحب سے کہو آ کر چائے پی لیں پھر جو دل چاہے کرتے پھریں ۔۔۔ پھر ایک تھوڑا سینئر پولیس والا دو کانسٹیبل لے کر آیا کہ صاحب کہتے ہیں آپ “کار سرکار” میں مداخلت کر رہے ہیں ۔۔۔ میں نے عرض کی اسے کہو سرکار کوئی کام کرے تو ہم مداخلت کریں ناں ۔۔۔۔ سرکار تو گاڑی میں بیٹھی ہے ۔۔۔ آخر وہ پولیس والا سیانا نکلا جا کر اللہ جانے کیسے اپنے صاحب کو بلا لایا ۔۔۔ “صاحب” آتے ہی طمطراق سے بولا کہ  آپ درست نہیں کر رہے ۔۔۔۔ میں نے کہا صاحب لوگوں کو چائے کی دعوت دینا بری بات ہے کیا؟۔۔۔

قصہ مختصر اسے وہاں بٹھایا پر اس نے کھوکھے کی چائے پینے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔ میں نے منشی کو کہا تو وہ دفتر سے ٹی سیٹ میں saprate Tea بنا لایا اور نابھہ روڈ کی مجید بیکری سے تازہ فنگر بسکٹ بھی لے آیا ۔۔۔ اب وہ افسر صاحب منہ دیکھیں کہ یہ خود کھوکھے کی چائے پی رہا ہے پر میرے لئے اس نے بہترین چائے بسکٹس کا انتظام کیا ۔۔۔ میں نے اس سے پوچھا شادی ہوئی ہے؟ کہتا نہیں۔ میں نے کہا کبھی باپ نے بھوکا رکھا تھا؟ کہتا نہیں۔ میں نے کہا دیکھو جن پھل والے غریب بندوں کی ریڑھیاں تم اٹھا رہے ہو کیا یہ کوئی حرام کام کر رہے ہیں؟ کہتا حرام تو نہیں پر ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے ۔۔۔ میں نے کہا ان میں سے زیادہ تر بال بچوں والے ہیں ۔۔۔ تم پھل اور ریڑھیاں اٹھا کر لے جاؤ  گئے تو ان کے گھروں میں تو بچے بھوکے رہ جائیں گے ۔۔۔۔ پر المیہ یہ ہے صاحب کہ آپ کو پتا نہیں کہ بھوک کیا ہوتی ۔۔۔ کہتا یہ کہیں اور چلے جائیں ۔ میں نے کہا جہاں بھی جائیں گے تمھارے جیسا کوئی صاحب آ جائے گا اور پھر سے یہی سب ہو گا ۔تو کہتا پھر حل کیا ہے ۔۔۔ میں نے کہا انہیں کام کرنے دو، محنت کرنے دو یہ نہ ہو کہ  ان میں سے کوئی غریب اپنے بچوں کی روٹی کے لئے رات کو کسی کو لوٹنے پر مجبور ہو جائے تو اس کے مجرم بننے کے ذمہ دار تم ہو گئے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

شکر ہے یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور پھر پھل والوں کی جان چھوٹی اور پھر جب تک میرا دفتر وہاں رہا انہیں کوئی تنگ نہیں کرتا تھا ۔۔۔ اس لئے محنت مزدوری کرنے والے کا ساتھ دو کیونکہ پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ”الکاسب حبیب الله“ ۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply