سوچ کا جمود۔۔میر افضل خان طوری

جس طرح دنیا کا ہر ایک انسان شکل و صورت کے اعتبار سے منفرد ہے۔ اسی طرح قدرت نے ہر   انسان کو منفرد سوچنے کی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔
قرآن مجید نے انسان کو بار بار سوچنے کی دعوت دی ہے۔ جو صلاحیتیں انسان کو دی گئی ہیں قرآن ان کے درست استعمال کا حکم دیتا ہے۔ قرآن مجید انسان کو زمین اور آسمان کی بناوٹ پر غور کرنے اور اپنی تخلیق کے مقصد کو دریافت کرنے کے لیے دعوت ِ فکر دیتا ہے۔قوموں کی ترقی اور زوال میں ان کے اجتماعی سوچ کا سب سے اہم کردار رہا ہے۔

جس انسان کو سب سے پہلے اپنے گھر میں صرف نفرت کے بارے میں تعلیم گیا ہو کہ فلاں فلاں شخص ہمارا دشمن ہے۔ فلاں فلاں شخص سے ہم صرف نقصان ہی کی توقع کر سکتے ہیں۔ یہ قوم ہماری دشمن ہے ۔ یہ قبیلہ ہمارا دشمن ہے۔تو تب سے ہمارے بچگانہ ذہن میں ان کے لئے جو نفرتوں کا ڈیٹا سٹور ہو جاتا ہے۔ وہ ہمیں ہمیشہ انکے لئے مثبت سوچنے سے روکتا ہے۔ جب بھی ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کی وہی پرانی  فائل کھل جاتی  ہے۔ اب ہماری سوچ اسی پرانے ڈیٹا پر عمل کرتے ہوئے انکے بارے میں منفی رائے قائم کریتی  ہے۔

پچھلے ادوار میں انسانوں کو جسمانی طور پر غلام بنایا جاتا تھا۔ مگر اب ان کا طریقہ واردات یکسر بدل چکا ہے۔ اب وہ لوگوں کی  سوچوں کو قید کرکے اس پر تالے لگاتے ہیں۔ اخبارات، اشتہارات اور دیگر مختلف ذرائع سے انسان کی سوچ کو قید کر دیا جاتا ہے۔انسان صرف وہی سوچتا ہے جو انکو پڑھایا ، دکھایا اور سمجھایا جاتا ہے۔

جب انسانوں کی سوچ منجمد ہوجاتی ہے تو وہ ترقی کی بجائے مزید تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کو اس سے آگے کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح انسان کے امیر ہونے اور غریب رہنے میں بھی سب سے بڑا فرق انکی سوچ کا ہی ہوتا ہے۔دنیا میں جن لوگوں نے ترقی کر لی  ، وہ ہمیشہ کچھ تیار کرنے ، کچھ نیا ایجاد کرنے اور کچھ نیا  کر دکھانے کا سوچتے ہیں۔

اس دنیا میں انسان کا کچھ بھی اسکا اپنا نہیں ہے۔ مگر انسان کی سوچ اور انکا ارادہ ہمیشہ اسکا اپنا ہی ہوتا ہے۔ انسان جس چیز کیلئے کوشش اور ارادہ کرتا ہے اسکو صرف وہی ملتا ہے۔
جن لوگوں کو اجتماعی طور پر صرف یہی بتایا جاتا ہے کہ ہم سب کرپٹ ہیں، ہمارا نظام کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا، یہاں تو سب چلتا ہے۔ ہم کبھی بھی دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اقوام کے برابر نہیں ہوسکتے۔ تو اس سے لوگوں کی سوچ بری طرح سے جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔

شاید ہم نے کبھی بھی دنیا کی  دیگر اقوام کی ترقی کے بارے نہیں پڑھا۔ اگر ہم صرف جرمنی اور جاپان کی ترقی پر غور کرتے تو ہمیں پتا چلتا کہ کیسے بہت بڑی تباہی ، بربادی اور پابندیوں کے باوجود انھوں نے ایسی ترقی کی کہ آج وہ دنیا کی  ترقی یافتہ قوموں کی قطار میں کھڑے ہیں۔

اسی طرح اگر ہم امریکہ پر غور کرتے تو ہمیں پتا چلتا کہ کیسے امریکہ نے برطانوی غلامی سے آزادی حاصل کرکے خود کو دنیا کا واحد سپر پاور بنایا جہاں پر پہلے ہزاروں لوگ بھوک اور افلاس سے مر رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح فرانس ، چین اور پورے یورپ نے کیسے ترقی کی۔۔؟
آخر ہم بھی انہی کی طرح انسان ہیں ۔ ہمیں بھی قدرت نے وہ تمام صلاحیتیں عنایت کی ہیں جو ان کو دی ہیں۔ اگر ہم پوری طرح غور کریں تو فرق صرف سوچنے کے انداز کا ہی ہے۔ جب ہم چیزوں کے بارے میں اپنے سوچنے کا انداز بدلیں گے تو چیزیں خود بخود بدلنی شروع ہو جائیں گی۔

Facebook Comments