• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • پاپی:خط کہانیاں،جنت بی بی اورگناہ و ثواب/ڈاکٹر خالد سہیل ۔مرزا یاسین بیگ(خط13,14)

پاپی:خط کہانیاں،جنت بی بی اورگناہ و ثواب/ڈاکٹر خالد سہیل ۔مرزا یاسین بیگ(خط13,14)

خط۔ نمبر 13
ڈئیررضوانہ !

مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ تمہارے اندر ایک مولانی ایک جنت بی بی چھپی بیٹھی ہے جو میری محبت کی کہانی پڑھ کر باہر آ جائے گی اور میری رومانوی زندگی کو مذہبی اور اخلاقی کسوٹی پر پرکھے گی اور مجھ پر۔۔۔بے وفا ہرجائی۔۔۔کا فتویٰ لگائے گی۔

ڈئیررضوانہ !

میں ایک انسان دوست فری تھنکر ہوں میں انسانی رشتوں کو مذہب اور اخلاقیات کی بجائے نفسیات ’ سماجیات اور فلسفے کی نگاہ سےدیکھتا ہوں۔میری نگاہ میں نیکی بدی ’اچھائی برائی’ گناہ و ثواب سب معاشرے اور کلچر کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک نسل کی برائی اگلی نسل کی اچھائی بن جاتی ہے۔ ایک عہد کا گناہ اگلے عہد کا ثواب بن جاتا ہے۔کوئی سچ ازلی وابدی سچ نہیں ہوتا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان کا اپنا سچ ہے کیونکہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔ میں آج تمہیں اپنا سچ بتانا چاہتا ہوں۔ میری نگاہ میں دو عاقل و بالغ انسانوں کو پورا حق ہے کہ وہ کس قسم کا رشتہ قائم کریں۔ دوست بنیں۔ محبوب بنیں۔ میاں بیوی بنیں۔ یہ ان دونوں کی مرضی ہے۔ کینیڈا کے مشہور وزیرِ اعظم Pierre Trudeauپییر ٹروڈو نے کنیڈین پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ کنیڈینز اپنے بیڈ روم میں جو کرتے ہیں وہ ان کا ذاتی فعل ہے اس میں حکومت کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ٹروڈو جانتا تھا کہ کیتھولک چرچ بھی جنس کو محبت پیار اور دوستی سے نہیں گناہ سے جوڑتا ہے۔

تم نے مجھ سے مشرق و مغرب میں رومانوی تعلقات کے بارے میں فرق پوچھا ہے۔ میری نگاہ میں مشرق میں ایک مولوی دو اجنبیوں کے سامنے دو بول پڑھتا ہے اور ان کا نکاح کر دیتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے لیے حلال ہوجاتے ہیں۔ میں ایسے کئی حلال جوڑوں سے مل چکا ہوں جو برسوں سے loveless and sexless شادیاں نبھاہ رہے ہیں۔ وہ جوڑے سب کے سامنے ہنستے ہیں اور تنہائی میں روتے ہیں۔ وہ سب ایک منافقت کی زندگی گزارتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں مغرب میں مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو ڈیٹ کرتے ہیں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں اور محبت کی شادیاں کرتے ہیں اور اگر محبت مر جائے تو خوش اسلوبی سے جدا ہو جاتے ہیں اور کسی اور کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ وہ مشرقی لوگوں کی طرح عمر بھر ایک ہی شادی پر ایمان نہیں رکھتے۔

؎ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز

میری نگاہ میں مشرق میں لڑکیوں اور لڑکوں کی سکول اور کالج میں اور مردوں اور عورتوں کی معاشرے کے ہر ادارے میں جو صنفی امتیاز ہے وہ غیر فطری ہے۔ ہم نے اس غیر فطری طرزِ زندگی کو محترم’ معتبر اور مقدس بنا دیا ہے۔ میں مسلمانوں سے پوچھتا ہوں کہ مسلمان مرد اور عورتیں مل کر حج کیوں کرتے ہیں؟

؎جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں

جو چاہے آپ کی نگاہِ کرشمہ ساز کرے

ڈئیررضوانہ !

میری ہادیہ سے دوستی تھی۔ مجھے اس سے پیار تھا۔ میں اس کا احترام کرتا تھا۔ میں اسے بڑے فخر سے دوستوں سے ملواتا تھا۔ وہ تو ہادیہ تھی جو ہمارے رشتے کو کسی گناہ کی طرح چھپاتی تھی۔ وہ ایک منافقت کی زندگی گزارتی تھی اور جب اس منافقت کا پردہ چاک ہوا تو وہ فرار ہو گئی۔

میں جانتا ہوں نجانے کتنے مشرقی لوگ مرد اور عورت کی دوستی اور محبت کو پاپ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے میں نے اپنا تخلص بھی پاپی رکھا ہے۔تم بھی مجھے پاپی سمجھتی ہو۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آہستہ آہستہ تمہیں خود احساس ہو جائے گا کہ تمہارا بے وفا دوست کتنا ہمدرد اور وفادار ہے۔میں اپنے بارے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں

؎بس ایک ثبوت اپنی وفا کا ہے مرے پاس

میں اپنی نگاہوں میں گنہگار نہیں ہوں

جنت بی بی کو میرا کردار داغدار لگا ۔ میرا سچ یہ ہے کہ

؎اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مرا دل

ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت

ڈئیررضوانہ !

پچھلے خط میں میں نے تمہیں اپنی ایک مشرقی محبوبہ کی کہانی سنائی تھی اس خط میں ایک مغربی محبوبہ کی کہانی سناتا ہوں۔ میری اس سہیلی کا نام جینیفر ہے۔ ہم دونوں نے ایک سال ڈیٹنگ کی۔ پھر ہم جدا ہو گئے۔ دو سال بعد اس نے ایک یورپین مرد اینڈریو سے شادی کر لی۔ ان کے ہاں ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ کئی سال سے ہماری ملاقات نہ ہوئی۔

پھر پچھلے مہینے اس نے فیس بک پر مجھے ویسے ہی تلاش کر لیا جیسے میں نے تمہیں تلاشا۔ کہنے لگی عرفان تم سے ملنا بہت ضروری ہے۔ میں دو سو میل دور جا کر ملا تو اس نے بتایا کہ اسے کینسر ہو گیا ہے اور ڈاکٹر نے چھ ماہ دیے ہیں۔کہنے لگی مرنے سے پہلے میں جن تین دوستوں سے ملنا چاہتی تھی ان میں سے ایک تم ہو کیونکہ میں تم سے ایک اعتراف کرنا چاہتی تھی۔

میں نے پوچھا ۔۔۔کیا اعتراف ہے؟

کہنے لگی جب ہم ڈیٹ کر رہے تھے تو تم نے ایک جملہ کہا تھا جو مجھے اس وقت سمجھ نہیں آیا تھا وہ مجھے اب سمجھ آیا ہے

وہ کیا جملہ ہے؟ میں حیران تھا

کہنے لگی تم نے کہا تھا

.In a loving relationship friendship is the cake romance is the icing

ڈئیررضوانہ !

میں تم سے کچھ نہیں چھپاتا کیونکہ مجھے اس رشتے سے دوستی کی خوشبو آتی ہے اور میں دوستی کی بہت قدر کرتا ہوں۔ لیکن تمہارے خط سے مجھے تمہارے پسندیدہ شاعر غالب کا شعر یاد آ گیا

؎یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنیں ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

اب تم ہی بتاؤ کہ میں تم سے دل کی باتیں کروں یا خط لکھنے سے پہلے سوچوں کہ رضوانہ کے اندر چھپی جنت بی بی کو کیا ناگوار گزرے گا۔ فیصلہ تمہارا ہے؟ میری خواہش یہ ہے کہ نہ تم مجھ سے کچھ چھپاؤ اور نہ میں تم سے کچھ چھپاؤں۔ سچی بات یہ کہ

؎میں بھی پاپی تو بھی پاپی

اس دنیا میں سب ہیں پاپی

تمہارا پاپی دوست

عرفان قمر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خط۔ نمبر 14
طاقت۔۔شہرت۔۔سیکس

ڈئیرعرفان!

مجھے کچھ بھی ناگوار نہیں گذرا۔ بس ایسا لگا کہ جیسے تم نے ہادیہ کو کوئی بڑا دکھ دےدیا ہے ۔ اس دکھ کا سوچ کر مجھے دکھ ہوا مگر کیا خبر ہادیہ بھی تمہارے ساتھ ان گھڑیوں کو خوب انجوئے کرتی ہو اور اسے صرف تمہارا سب کے سامنے اس رشتے کو آشکار کردینا برا لگ گیا ہو ۔ میں جنت بی بی نہیں نہ ہی گناہ ثواب تولنے والی کوئی عورت ۔ جس کا جو فعل ہے وہی جانے ۔ تمھیں کیا خبر میں خود اس وقت کس حالت میں ہوں ۔ تمھیں کہا تھا نا کون سا دن میرے لیے کیا لےکر آئے گا مجھے خود اس کا پتہ نہیں ۔ جس دن میں نے تمھیں پچھلا خط لکھا تھا اس کے اگلے ہی دن مجھے شوہر کے ہاتھوں خوب مار پڑی ۔ وجہ تم نہیں بلکہ خود میں ہوں ۔ اس وقت میرا پورا جسم مار کے نشانوں سے بھرا پڑا ہے۔ سرخ نیلے نشان گالوں سے لےکر ٹانگوں تک اپنے ظلم کی گواہی دےرہے ہیں ۔ ان سے درد کی ٹیسیں نکل رہی ہیں ۔ پہلے کبھی ہلدی لگالیا کرتی تھی اور پین کلر بھی کھالیا کرتی تھی مگر اب اسی درد کے بیچ لیٹے رہنے اور درد کو محسوس کرتے رہنے ہی میں چین محسوس ہوتا ہے ۔ دونوں بچے میری حالت دیکھ کر میرے آس پاس لیٹے رہے ۔ شاید آدھی رات تک وہ بھی نہیں سوئے۔ آج پہلی بار بڑے بھائی نے خود اٹھ کر چھوٹی بہن کو جگایا ۔ دونوں نے خود ہی کپڑے بدلے ۔ میرے پرس سے دس دس روپے پاکٹ منی نکالی ۔ میرے سوجے گالوں پہ نرمی سے بوسہ دیا اور خاموشی سے اسکول چلےگئے ۔

آج مجھے لگا کہ شاید میرے بچے وقت سے پہلے بڑے ہوگئے ہیں ۔ دونوں کی آنکھیں گیلی تھیں اور ہونٹ باہم پیوست تھے ۔ یہ ضبط کی وہ کیفیت ہوتی ہے جو بڑوں میں پائی جاتی ہے ۔ آج میرے بچوں نے اپنے حوصلوں کو آزمایا ہے ۔ وہ چلےگئے تو میں نے لیٹے لیٹے موبائیل اٹھایا اور تم سے لکھ لکھ کر باتیں کرنے لگی ہوں۔ شوہر کے ہاتھوں یہ مجھے پہلی بار مار نہیں پڑی ہے ۔ سال میں چار چھ بار ایسے خوش گوار موڈ میرے شوہر پر طاری ہوجاتے ہیں ۔ ہر بار وجہ مختلف ہوتی ہے ۔ اس بار تو بہت ہی مختلف ہے ۔ وہ مجھے پچھلے ایک ماہ سے زور دےرہا ہے کہ میں اس کے ساتھ اس کے سپریم لیڈر سے ملاقات کے لیے بیرون ملک چلوں ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر میں ساتھ گئی تو پارٹی ہی ہمارا ہوائی ٹکٹ دےگی اور سفر کے دیگر اخراجات بھی اٹھائےگی ۔ یہ دعوت اس کا سپریم لیڈر کئی بار دےچکا ہے مگر میں رضامند نہ ہوئی ۔ اس دوران خوبصورت بیویاں رکھنے والے کئی پارٹی ورکرز ملاقات کرکے واپس لوٹ چکے ہیں ۔ ان کی بیویوں نے مجھے بتلایا تھا کہ سپریم لیڈر ان پر بہت مہربان تھے ۔ انھیں سپریم لیڈر ہی کے ایک بےنامی ہوٹل کے آرام دہ کمرے میں ٹھہرایا گیا تھا ۔ واپسی پر ملنے والی شاپنگ کی قیمتی اشیا بھی وہ دکھلانا نہ بھولی تھیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے شوہر کی ترقی ہوچکی تھی ۔ وہ پارٹی میں اہم پوسٹوں پر تعینات کردیے گئے تھے جہاں سے ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوچلا تھا ۔ایک دو ہی عورتیں ایسی تھیں جو یہ سب کچھ پاکر بھی خوش نہ تھیں ۔ ان کے چہرے کا کرب بتلاتا تھا کہ ان مادّی اشیا کے حصول میں انھوں نے کیا کھویا تھا ۔ وہ اپنے شوہروں سے نفرت کرنے لگی تھیں ۔ کچھ ایسی بھی تھیں جو سپریم کمانڈر کے تخلیے کی گندی گفتگو اور فحش لطیفے ہنس ہنس کر سناتی تھیں ۔ ایک نے یہ بھی کہہ دیا کہ سپریم کمانڈر کے پاس انٹرنیشنل عورتوں کی اب کمی نہیں مگر اس کی نفسیاتی جنسی تسکین اپنے ساتھیوں کے بیگمات کے ساتھ ہی ہوتی ہے ۔ میرا شوہر مرا جارہا تھا کہ اس کی بھی ترقی ہوجائے ۔ وہ بھی کراچی کے ان مقبوضہ علاقوں کا کنگ بن جائے جہاں کارخانے بھتوں کا سونا اگلتے ہیں ۔ میں نے اسے کہا بھی کہ وہ کسی کو بھی بیوی بناکر ساتھ لےجائے مگر اس کا کہنا تھا کہ سپریم کمانڈر کے پاس ہر جوڑے کی تصاویر ہیں اور اگر میں نے اسے دھوکہ دینے کی کوشش کی تو ہم دونوں کو بچوں سمیت ماردیا جائیگا۔ کل اس کا تقاضہ بڑھا اور اس نے ہر حال میں مجھ سے ساتھ چلنے کے لیے رضامندی چاہی اور میرے دوٹوک انکار پر میرے جوڑجوڑ میں اپنی طاقت کا خمار منتقل کردیا ۔ اس نے چیخ چیخ کر اعلان کردیا کہ میں ہی اس کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوں ۔ اس نے دھمکی دےدی ہے کہ جلد ہی وہ میرے حسن کے غرور کو بھی خاک میں ملادےگا۔ وہ مجھے مارپیٹ کر یہ کہہ کر چلاگیا ہے کہ وہ اب کب واپس آئےگا کچھ معلوم نہیں البتہ اس کے بچوں کا خرچہ مجھے ہر ماہ اس کا کوئی نہ کوئی دوست پہنچادیا کرےگا۔

دنیا میں سیکس ہی کیا سب سے بڑا سکہ ہے؟ کیا طاقت مشہوری اور دولتمندی کا پہلا کام خوبصورت عورتوں کے ساتھ زبردستی سونا ہے؟ ایک تم ہو سب میں محبت اور پیار بانٹتے پھررہے ہو اور ادھر یہ دو مرد ہیں ایک وہ جو اپنی ہی بیوی کو سیڑھی بناکر دولت اور طاقت سمیٹنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اپنے ورکروں کی بیویوں کے ساتھ سوکر طمانیت ملتی ہے۔ یہ کیسی دنیا ہے اور کیسے مرد ہیں؟ اس دنیا میں عورت کس کس حال اور کس کس رشتے میں جیتی ہے؟ کوئی عورت ایسی ہے جو اپنی مرضی سے زندگی گزارتی ہو جس پر کسی مرد کی زبردستی کی مہر نہ لگی ہو؟ آج مجھے میری ماں بہت یاد آرہی ہے ۔ مائیں بیٹیوں کے لیے کبھی نہیں مرتیں ۔ باپ زندہ ہوں یا مرچکے ہوں بیٹیاں دکھ کے سمے انھیں یاد نہیں کرتیں ۔ دکھ صرف ماں کا چہرہ سامنے لاتا ہے ۔ آج ماں ہوتی تو میرا جسم اتنا لاوارث نہ ہوتا ۔ آج میرے جسم پر ابھرے ہوئے جبر کے نشان آدھا سوکھ چکے ہوتے۔ میری توہین مجھے گھور رہی ہے ۔ کہہ رہی ہے کوئی فیصلہ کرڈال۔ اس شہر کراچی میں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیمیں ہیں جو شاید میرے لیے آواز بلند کرتیں اگر میرا شوہر اس دبنگ پارٹی کا شاہی ورکر نہ ہوتا۔ ہمارے جیسے ممالک میں ہتھیار اٹھائے رکھنے والوں ہی کی عزت ہے ۔ میں کہاں جاؤں کس سے مدد مانگوں ۔ میری کس طرح سے اس جہنم سے جان چھوٹ سکتی ہے؟ میں اب اپنے بچوں کے ساتھ کہیں روپوش ہوجانا چاہتی ہوں ۔ ہے اس شہر میں کوئی بہادر جو مجھے اس جہنم سے نکال کر کسی پرسکون ملک پہنچا دے۔ میں زندگی بھر اس کا احسان نہیں بھولوں گی ۔ پھر سوچتی ہوں ایسے خواب دیکھنا چھوڑ دوں اور ہتھیار ڈال دوں ۔ جسم کا کیا ہے کہیں بھی کسی کی بھی توہین کا نشانہ بن جائے ۔ جب شوہر کو بیوی کی عزت کی پرواہ نہیں تو بیوی کیوں عزت کے نام پر یہ مصیبتیں جھیل رہی ہے ۔ مجھے ماں کی آواز آرہی ہے ۔ وہ قبر میں ہے مگر اس کی آواز میرے کمرے میں داخل ہوچکی ہے ۔ مجھے میری ماں سے باتیں کرلینے دو ۔ تم سے پھر بات ہوگی۔ تمہارا کیک اور آئیسنگ بھی آج مجھے مسکراہٹ نہیں دےپارہا ہے

رضوانہ

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply