ذہنی صحت کا عالمی دن۔۔عدیل ایزد

10 اکتوبرکا دن ہر سال پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک میں ذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایاجاتا ہے۔ تو آئیے آج ہم بات کرتے ہیں کہ آخر ذہنی صحت ہے کیا؟ ذہنی مسائل کے اسباب کیا ہیں اور ذہنی پریشانی کا حل کس طرح سے ممکن ہے؟

ذہنی صحت کے معنی ہیں کہ انسان نفسیاتی ، جذباتی اور معاشرتی طور پر اپنے ماحول میں ایڈجسٹ ہو۔ ذہنی صحت سے مراد زندگی کے تمام پہلوؤں یعنی جسمانی ، ذہنی ، جذباتی اور روحانی میں توازن تلاش کرنا شامل ہے۔ اس سے مراد زندگی سے لطف اندوز ہونے اور روزمرہ کے درپیش چیلنجز / مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہے۔ ان مسائل میں انتخاب اور فیصلے کرنا، مشکل حالات سے نمٹنا اور ان کا مقابلہ کرنا یا اپنی ضروریات اور خواہشات کے بارے میں بات کرنا شامل ہے۔

جس طرح آپ کی زندگی اور حالات مستقل طور پر تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، اسی طرح آپ کے مزاج ، خیالات اور احساس اطمینان میں بھی مسلسل تبدیلی آتی رہتی ہے۔ بچے کی پیدائش سے لے کر بچپن، جوانی اور بڑھاپے تک زندگی کے ہر دور میں ذہنی صحت اہم ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی میں مختلف ادوار اور حالات میں توازن برقرار رکھیں۔ کبھی کبھی عدم توازن محسوس کرنا فطری ہے مثال کے طور پر ، غمگین ، پریشان یا خوفزدہ ہونا۔ لیکن اگر یہ کفیات ہماری روزمرہ زندگی پر لمبے عرصے کے لئے اثر انداز ہونے لگیں اس طرح کے احساسات ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔

ذہنی مسائل کی وجوہات بھی مختلف ہوتی ہیں اس سلسلے میں لوگوں کے مختلف عقائد ہیں۔ سائنسی مطالعات سے پتہ چلتا ہے بہت سے سنگین ذہنی مسائل، دماغ میں حیاتیاتی و کیمیائی عدم توازن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ مختلف نفسیاتی ، معاشرتی اور ماحولیاتی عوامل آپ کی ذہنی صحت کی فلاح و بہبود کو متاثر کرتے ہیں۔ نیز ، ذہنی صحت آپ کی زندگی کے جسمانی ، ذہنی ، جذباتی اور روحانی پہلوؤں سے بھی متاثر ہوتی ہے۔انسان کی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ ان کو ہم یا تو انفرادی یا پھر اجتماعی طور پر حکمت عملی کے تحت حل کر لیتے ہیں لیکن اگر ہم کسی ذہنی پریشانی کا شکار ہو جائیں تو اس سے ہماری سوچنے کے عمل میں تبدیلی آتی ہے جس سے ہمارے موڈ اور رویّے پر اثر پڑتا ہے اور پھر ہم ایک مظبوط شخصیت کے مالک ہونے کے با وجود بھی ایسے عمل کرنے لگتے ہیں جو بالکل متضاد ہوتے ہیں۔ ایک ذہنی طور پر صحت مند فرد اور ذہنی مسائل سے دوچار شخص میں بس یہی ایک فرق ہے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے حادثات و واقعات کی شدت اگر اس قدر ہو کہ جس سے جذبات متاثر ہوں تو بھی انسان نفسیاتی طور پر اس کا اثر لے سکتا ہے۔

ہمیں مختلف مسائل جن میں طلاق کا سا منا، جسمانی بیماریاں، کار حادثے کا شکار ہونا، کسی پیارے کی موت کا سانحہ، نسل پرستی یا تعصب کی دیگر اقسام (جنسی رجحان ، عمر ، مذہب ، ثقافت ، طبقے وغیرہ) سے نمٹنا، تشدد ، بدسلوکی یا دیگر صدمات کا شکار ہونا، کم آمدنی ہونا یا بے گھر ہونا اور تعلیم تک مساوی رسائی نہ ہونا شامل ہیں ، کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ کی ذہنی صحت کا دارومدار اس پر بھی ہے کہ آپ اپنے خاندان اور دوسروں سے کتنا پیار ، حمایت اور قبولیت حاصل کر تے ہیں۔

لیکن ہمیں کس طرح سے اندازہ ہو گا کہ ہمارا کوئی پیارا ذہنی پریشانی کا شکار ہے اور اس کا علاج کس طرح سے ممکن ہے؟ اگر ہمیں ذہنی صحت کے بارے شعور ہو تو ہم دوسروں کے احساسات اور رویّے کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا پریشانی ہے اور بغیر کسی تاخیر کے مدد کر سکتے ہیں اور اس مسئلے کو ابتدا ہی میں حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کو شبہ ہے کہ آپ کا کوئی عزیز پریشان ہے تو ان چیزوں پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیا اس کے کھانے پینے اور سونے کے معمولات میں تبدیلی تو نہیں ہوئی۔ کام جن میں اس کی دلچسپی میں کمی بیشی تو نہیں آئی۔ کیا وہ لوگوں سے دُور رہنے لگا ہے۔ جسم کے مختلف حصوں میں درد اور تکلیف کی شکایت تو نہیں کرنے لگا جن کا حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ کیا وہ کاہلی کا مظاہرہ کرنے لگا۔ کیا وہ لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے لگا ہے اسے اپنے گرد و نواح میں ہونے والے کسی معاملے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر سگریٹ نوشی میں اضافہ ہو جائے یا سکون آور ادویات کا استعمال بڑھ جائے تو یہ بھی ایک پریشانی کی علامت ہے۔ اکثر لوگ باتوں کو بھولنے لگتے ہیں یا پھر زیادہ غصہ کرنے لگتے ہیں، زور زور سے چلاتے ہیں اور لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو شدید ذہنی مسائل کا سامنا ہو ان کو آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں یا ایسی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سب سے خطرناک بات ہے کہ ایسے لوگ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کے خیالات ان کے ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ یہ وہ علامات ہیں جن کو اگر ابتدا ہی میں بھانپ لیا جائے تو عزیز و اقارب اور دوستوں کی فوری طور پر مدد کی جا سکتی ہے۔

مختلف اوقات میں ذہنی بیماریاں مختلف صورتیں اختیار کرتی ہیں۔ کچھ لوگ افسردہ محسوس کرتے ہیں۔ کچھ کو بے چینی اور خوف کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ زیادہ کھانا نہیں کھاتے کچھ زیادہ کھاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ایک وقت میں ان میں سے ایک سے زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کئی سالوں سے ، ہمارا خیال تھا کہ ذہنی امراض یا تو کبھی دور نہیں ہوں گے یا بار بار ہوتی رہیں گی۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ بہت سے لوگ ان مسائل سے صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ذہنی بیماریوں سے اپنی طاقت اور لچک ، خاندان اور دوستوں کی مدد ، نفسیاتی علاج ، دباؤ کو کم کرنے کی امشاق اور ممکنہ طور پر دوائیوں کا استعمال کرکے بہتر ہوجاتے ہیں۔ ذہنی صحت کے بغیر ایک مکمل صحت مند زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ ذہنی امراض کو لے کر بہت سے وسوسوں کے شکار ہیں اور کم علمی اور نا واقفیت کی بنیاد پر ذہنی امراض کو پاگل پن کا نام دے دیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی ماہر نفسیات کے پاس جاتا ہے تو اسے پاگل کہا جاتا ہے حالانکہ بیشتر ذہنی بیماریاں قابل علاج ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی ذہنی صحت کی دیکھ بھال کرنا انتہائی اہم ہے۔ ذہنی صحت جسمانی صحت کی طرح ہی اہم ہے اور دونوں مل کر انسان کو مکمل بناتے ہیں۔ ہر شخص کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آنا مکمل طور پر فطری عمل ہے ہم سب میں دوبارہ سے اٹھنے کی صلاحیت موجودہے۔ اس لیے اگر آپ یا آپکے کسی بھی عزیز کو کوئی ذہنی پریشانی ہے تو ایک مستند ماہر نفسیات سے رجوہ کرنے میں شرمائیں نہیں۔

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات