گئے دنوں کی یادیں (9)۔۔مرزا مدثر نواز

دوسرے کھیلوں میں چند ایک کا نقشہ کھینچیں تو کچھ اس طرح ہو گا۔ ماچس یا سگریٹ کی ڈبی کی تصاویر والی سائیڈ کو اکٹھا کر کے تاش بنانا اور پھر ان کے ساتھ کھیلنا۔ کانچ کی گولیاں جنہیں پنجابی میں بنٹے بھی کہا جاتا ہے ان کے ساتھ کھیلنا اور انہیں ڈبوں میں سنبھال سنبھال کر رکھنا‘ نالیوں میں سے ڈھونڈ نا اور سیزن آنے پر ڈبوں سے نکال کر بار بار گننا‘ بنٹوں کے کھیل کی مختلف اقسام میں گولی پلاّ‘ اٹ کھڑکاّ جنگلا‘ کلیّ جوٹ‘ مٹھ پوروٖغیرہ شامل تھے۔ آنکھ کی شکل کی سیپیوں کے ساتھ بھی کھیلنا جنہیں پنجابی میں کوڈیاں کہا جاتا ہے‘ کچھ ضعیف الاعتقاد لوگ انہیں ٹخنے کے اوپر بھی باندھتے۔ زمین کے اوپر بارہ گاٹ بنا کر چھوٹے کنکروں یا لکڑی کے ٹکڑوں سے کھیلا جاتا۔ لڈّو کے کھیل آج کے مقابلے میں بہت زیادہ مقبول تھے خاص کر گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں میں۔ کیرم بورڈ میں بھی لوگوں کی کافی دلچسپی تھی۔ یسو‘ پنجو‘ ہار‘ کبوتر‘ ڈولی بھی بہت زیادہ کھیلا جاتا۔ ایک دائرے میں چند مٹی کے برتن کے ٹکڑوں یا پتھر کے ٹکڑوں کو ایکدوسرے کے اوپر رکھا جاتا اور بیچ میں ایک لڑکا کھڑا ہوتا‘ نرم سے گیند کے ساتھ دائرے کے باہر کھڑے لڑکوں میں سے ایک انہیں گراتا اور باقی شور مچاتے ان ٹکڑوں کو دوبارہ ایکدوسرے کے اوپر رکھنے کی کوشش کرتے اور دائرے والا لڑکا گیند سے ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا‘ کسی ایک کو نشانہ لگنے سے پہلے اگر ٹکڑے دوبارہ رکھ دیے جاتے تو کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا ورنہ جس کو نشانہ لگتا‘ اس کی باری دائرے میں آ جاتی‘ اس کھیل کو پیٹو گرام کہا جاتا تھا جو کہ بندر کلاّ سے مماثلت رکھتا ہے‘ بندر کلاّ جوتوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ ریگولر سائز کی بوتل کے ڈھکن کو پلین شکل میں لا کر درمیان میں ایک سوراخ کرنا اور دھاگہ ڈال کر پمبیری بنانا اور دوسرے کی پمبیریوں کے دھاگوں کو اس سے کاٹنا۔ گلیّ ڈنڈا بھی ایک مشہور کھیل ہے جو اب تقریباََ ناپید ہے‘ لکڑی کے ایک چھوٹے سے مضبوط ٹکڑے کی دونوں طرف سے نوک بنائی جاتی جسے گلیّ کہا جاتا ہے اور ایک مضبوط چھڑی سے اس کو ضرب لگائی جاتی ہے‘ میدان میں مختلف جگہوں پر لڑکے کھڑے ہوتے‘ اگر گلیّ کیچ ہو جاتی تو باری ختم اور کیچ کرنے والے کی شروع‘ اگر کیچ نہ ہوتا تو جہاں پر گلیّ گرتی‘ اس کے قریب والا لڑکا وہیں سے ضرب لگانے والے ڈنڈے کو نشانہ بناتا جو زمین پر افقی رکھا ہوتا‘ اگر نشانہ لگ جاتا تو باری ختم اور نشانہ لگانے والے کی شروع۔ فریسپی بھی لڑکے بہت شوق سے کھیلتے جس میں فریسپی کو مخالف ٹیم کی طرف مخصوص جگہ تک گول کی طرح پہنچانا ہوتا ہے۔ پتہ ڈھونڈنا بھی خاصا مقبول کھیل تھا جس میں ایک ٹیم کو کسی درخت کا پتہ لانے کو کہا جاتا اور دوسری ٹیم کسی جگہ چھپ جاتی‘ پتہ لا نے والی ٹیم دوسری ٹیم کو ڈھونڈتی اور کوئی بھی ایک کھلاڑی نظر آتا تو اسے پتہ دکھایا جاتا اور پھر پہلی ٹیم پتہ ڈھونڈنے کا کہتی اور چھپ جاتی۔
مختلف گاؤں کے درمیان کبڈی کے میچ بھی عام تھے‘ کبڈی کھیلنے والوں کی نسبت کبڈی دیکھنے والے اس کھیل سے زیادہ محظوظ ہوتے ہیں‘ ڈھول کی تھاپ کھیلنے والوں اور تماشائیوں دونوں کو پرجوش بنائے رکھتی ہے‘ اچھا کھیل پیش کرنے والے کھلاڑی کی موقع پر نقد رقم سے حوصلہ افزائی کی جاتی جو کہ دیکھنے والوں کی طرف سے ہوتی۔ والی بال آج کے مقابلے میں بہت زیادہ کھیلا جاتا تھا البتہ ہاکی اور فٹ بال بہت کم لڑکے کھیلتے۔ کرکٹ تو سدا بہار کھیل ہے جو سب سے زیادہ کھیلا جاتا‘ میٹرک میں سکول کی ٹیم بنائی جاتی اور دوسرے سکولوں سے اس کے میچ ہوتے جس میں ہارڈ بال کا استعمال ہوتا۔ ان دنوں کھیلے جانے والے ایک کھیل کا نام باڈی تھا جس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوں گے‘اس میں ایک مخصوص ایریا کے گرد باؤنڈری لائن کھینچی جاتی ہے جس کے درمیان میں ایک عمودی لین بنائی جاتی ہے جس میں ایک لڑکا آزادانہ گھوم سکتا ہے‘ مخصوص چوڑائی میں عمودی لین کے دائیں بائیں کچھ افقی لینیں بنائی جاتی ہیں جن میں ایک ایک لڑکا کھڑا ہوتا ہے‘ دوسری ٹیم کے لڑکے لائنوں کے اندر رہتے ہوئے عمودی اور افقی لینوں کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے باؤنڈری لائن تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ افقی لینوں میں کھڑے لڑکے اور عمودی لین میں کھڑا لڑکا انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں‘ اگر کسی کو باکس عبور کرتے ہوئے ہاتھ یا زور دار تھپڑ لگ جائے یا کوئی لائنوں سے باہر چلا جائے تو لینوں کے اندر والی ٹیم باہر چلی جاتی ہے اور دوسری لینوں کے اندر آ جاتی ہے۔ ویڈیو گیمز ان دنوں نئی نئی آئیں تھیں اور ان کی دکانوں کے گرد سکول کے لڑکوں کا ہجوم رہتا‘ سکہ ڈال کر یہ گیمز کھیلی جاتیں اور کچھ لڑکوں کو تو ان کا نشہ تھا‘ اساتذہ اور والدین بچوں کو ان گیمز سے بہت زیادہ منع کرتے تھے‘ ویڈیو گیمز کے ساتھ ہی دوکانداروں نے بلیئرڈ و سنوکر کلب کھول لیے اور ان کھیلوں نے بھی اپنا ٹھیک ٹھاک عروج دیکھا گو آجکل بھی کھیلے جاتے ہیں۔
لڑکیاں آپس میں پکڑن پکڑائی اور چھپن چھپائی کھیلتی تھیں‘ اس کے علاوہ ربڑ کی چھوٹی گیند جسے گیندی کہا جاتا‘ اس کے ساتھ پتھر کے ٹکڑوں کو اٹھانے کا کھیل کھیلتیں۔ الاسٹک والا کھیل لڑکیوں میں عام تھا جس میں بہت زیادہ اچھل کود ہوتی۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply