ہمارے نکمے والے مولوی۔۔ذیشان نور خلجی

ادھر ہمارے پاس ہی ایک گھرانہ ہے کبھی وہ بڑی آزاد خیال فیملی تھی۔ جدید فیشن کو اپنائے ہوئے ماڈرن قسم کے لوگ۔ رقص و سرود کی محافل ان کے ہاں عام سجا کرتی تھیں۔ پھر جب مولانا طارق جمیل کی وجہ سے تبلیغی جماعت کا سافٹ امیج ابھرا تو یہ لوگ بھی متاثر ہوئے اور جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب ان میں یہ تبدیلی آ گئی کہ ان کا حال ان کے ماضی کے برعکس ہو گیا۔ یعنی ماضی کے گناہ گار، حال میں صوم و صلوٰۃ کے پابند، شریعت کا خیال رکھنے والے اور لوگوں کو دین کی طرف بلانے والے بن گئے۔
ایک دفعہ کی بات ہے ایک دوست بتانے لگے کہ حاجی صاحب ان کے ہاں تشریف لائے اور تبلیغ کرنے لگے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ ہمیں گناہ کی زندگی ترک کر دینی چاہئیے وغیرہ وغیرہ۔ دوست بھی پتا نہیں دل میں کیا لئے بیٹھے تھے، چھوٹتے ہی کہنے لگے حاجی صاحب ! میں آپ کو بھولا نہیں ہوں۔ مجھے آپ کی وہ سب فوٹو ایلبمز یاد ہیں جو مختلف رقاصاؤں کے جھرمٹ میں آپ نے بنوائی تھیں۔ اس لئے اتنی تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پہلے اپنے گریبان میں تو جھانک لیں۔
صاحبو ! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارا ماضی ہمارے حال سے اور ہمارا حال ہمارے مستقبل سے مختلف ہوتا ہے۔ کبھی ایک کلین شیوڈ آدمی کے من میں کچھ سماتا ہے اور وہ چہرے کو سنت سے مزین کر لیتا ہے اور کبھی کوئی باریش شخص اپنی داڑھی منڈھوا لیتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم پنجگانہ نماز کی پابندی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر تھوڑے ہی عرصے بعد ہمارے جمعے بھی قضاء ہونے لگتے ہیں۔ تو یہ ایک عمومی رویہ ہے جو ہر دوسرے بندے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں بدنام زمانہ گناہ گار اللہ والے بن جاتے ہیں اور اچھے بھلے مومن دستار فضیلت اتار پھینکتے ہیں۔ اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک ہی انسان اپنی زندگی میں کئی دفعہ ہدایت یافتہ بھی بن جاتا ہے اور بار ہا شریعت کی پابندی تو ایک طرف رہی، وہ کھلا بے دین بھی ہو جاتا ہے۔ بے شک یہ تغیر مذہب کا باب نہیں ہے، لیکن ہم اسے مذہبی پس منظر میں ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
مشاہدے میں آیا ہے اکثر ان جیسے تغیر پذیر لوگوں کو اہل مذہب کی طرف سے آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اور اس تنقید کو لے کر ہمارے مولوی حضرات خاصے بدنام بھی ہیں۔
لیکن دھیرے دھیرے اب ایک ایسا طبقہ بھی سامنے آ رہا ہے جو ہے تو اہل مذہب کا سب سے بڑا مخالف اور مخالفت بھی صرف اسی بنا پر ہے کہ آخر ان مولویوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کسی کے نجی معاملات میں ٹانگ اڑانے کی۔
لیکن دوسری طرف اسی طبقے کا رویہ یہ ہے کہ یہ خود بھی کسی متشدد اہل مذہب سے کم نہیں ہیں۔ کیوں کہ جب کوئی ایسی بات سامنے آتی ہے جو ان کی طبع نازک پہ گراں گزرتی ہے تو یہ ایسے ناچنے لگتے ہیں جیسے ان کی دم پہ کسی نے پاؤں رکھ دیا ہو۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ آ جا کر یہ لوگ بھی کسی مولوی سے کم نہیں ہیں۔ حالانکہ ان کا تو وجود ہی دراصل بڑھتی ہوئی انتہا پسندانہ مولویت کی ضد تھی۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی مولویت کے رنگ میں رنگے گئے۔
سابق کرکٹر شاہد خان آفریدی کی ایک تصویر سامنے آتی ہے جس میں وہ ایک سیلون میں لڑکی سے خدمات لے رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ چند ایک مولوی اٹھتے اور تماشا کھڑا کر دیتے۔ لیکن ہوا کیا، کہ اب کی بار تماشا دوسری طرف سے لگا کہ جن کے نزدیک شخصی آزادی کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اس بار ان جغادریوں نے یہ مدعا رکھا، چونکہ ماضی میں شاہد آفریدی نے اسٹیج پر ایک عورت سے ہاتھ نہیں ملایا تھا تو اب یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
یہاں بنتا تو یہ تھا کہ یہ لوگ شاہد آفریدی کی شخصی آزادی کا احترام کرتے اور اپنی چونچیں بند رکھتے۔ لیکن انہوں نے کوؤں کی طرح آسمان سر پر اٹھا لیا کہ شاہد آفریدی کھلی منافقت کر رہے ہیں اور انہوں نے ماضی میں وہ ڈرامہ پھر کیوں رچایا تھا۔
تو ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہوں گا کہ بات یہ ہے میرے مولوی کم آزاد خیال دوستو ! اگر شاہد آفریدی نے ایسا کر بھی دیا ہے تو آپ کو کیا۔ ان کی زندگی ہے وہ جو مرضی کریں۔ اور یہاں اگر آپ اپنے حریف یعنی ملا حضرات کی طرح ہی رویہ اپنائیں گے اور اعتراضات اٹھائیں گے تو پھر یہ بھی جواب سن لیں کہ وہ آفریدی کا ماضی تھا، یہ اس کا حال ہے۔ گمان ہے ماضی میں ان کے من کو وہ بات اچھی لگی ہو اور انہوں نے شریعت کو اپنا لیا ہو۔ آج کل وہ پھر اس ماضی سے بھی پہلے کے ماضی کی طرف لوٹ گئے ہوں اور انہیں کسی عورت سے خدمت کروانا غلط نہ لگا ہو۔
فرض کیجئے، میں آپ کو لے کر بازار حسن جاتا ہوں۔ لیکن آپ کہیں کہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی، لہذا میں نہیں جاؤں گا۔ اور کسی آنے والے دن آپ خود مجھے مجبور کریں کہ چلو بازار حسن کی راہ لیتے ہیں۔ تو ظاہری سی بات ہے یہ رویہ آپ کی قلبی کیفیت کے باعث ہے اور ایک داخلی تبدیلی کا خارجی اظہار ہے بالکل ایسے ہی جیسے کہ آپ ماضی میں نماز پڑھا کرتے تھے اب آپ نے چھوڑ رکھی ہے یا اب آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں اور ماضی میں کبھی مسجد کا منہ بھی نہ دیکھا تھا۔
لیکن اگر میں آپ کے ماضی کو سامنے رکھ کے آپ کو طعنے مارنے لگ جاؤں اور اعتراض اٹھاؤں کہ آپ کے ماضی اور حال میں یہ فرق کیوں ہے تو میرا خیال ہے میں پھر الو کا پٹھا ہی ہوں گا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
پیارے جغادریو ! بات کو سمیٹتے ہوئے صرف یہی عرض کروں گا کہ یا تو صحیح طرح سے لبرل بن جاؤ اور لوگوں پر بے جا اعتراض کرنے کی بجائے اپنے مسور کی دال والے منہ بند رکھا کرو یا پھر مولوی بن جاؤ۔ لیکن یہ بیچ منجدھار کے پھنسے ہوئے نکمے والے مولوی تو نہ بنو۔ کہ نہ ہی خدا ملے اور نہ ہی صنم کا وصال میسر ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply